فاروق سلہریا
پانچ ماہ کی تاخیر سے، منگل کے روز، افغانستان کے صدارتی انتخابات کا نتیجہ پیش کر دیا گیا۔ حسبِ توقع اشرف غنی جیت گئے۔ انہیں 50 فیصد ووٹ ملے۔ ان کے قریب ترین اور اہم ترین حریف عبداللہ عبداللہ کو 39 فیصد ووٹ ملے۔
’امیر المومنین‘ اور آئی ایس آئی و جماعت اسلامی کی سابقہ ڈارلنگ، بد نام ترین جنگی سالارگلبدین حکمت یارکو تین فیصد ووٹ ملے۔
یہ کہ انتخابات ایک مذاق سے کچھ زیادہ نہ تھے، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ 2.7 ملین ووٹ مسترد کر دیے گئے۔ 1.8 ملین ووٹوں کی بنیاد پر اشرف غنی ایک ایسے ملک کے صدر بن گئے ہیں جس کی آبادی 35 ملین (ساڑھے تین کروڑ) ہے۔ یاد رہے، رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 9 ملین سے زائد ہے۔
یہ درست ہے کہ طالبان کی دھمکیوں کے پیش ِنظر افغانستان میں پولنگ کا عمل ایک طرح سے حوصلہ افزا بات تھی مگر اتنا کم ٹرن آؤٹ اس بات کا اعلان تھا کہ طالبان کے علاوہ بھی(کہ طالبان تو ہر بار ہی دھمکیاں لگاتے رہے ہیں) لوگ نام نہاد جمہوری عمل پر مزید یقین نہیں رکھتے۔ وہ اس عمل سے بیگانہ ہو چکے ہیں۔ افغانستان پر نظر رکھنے والے کسی بھی مبصر کو یاد ہو گا کہ پہلی بار انتخابات میں لوگوں نے بہت جوش و خروش سے حصہ لیا تھا۔
ادھر، حسبِ توقع عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک متوازی حکومت تشکیل دیں گے۔ گذشتہ صدارتی انتخابات کے بعد بھی یہی ہوا تھا۔ انہوں نے انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کئے۔ کچھ دن ان کے حامی بندوق کے زور پر کابل کو یرغمال بنا کر گھومتے رہے۔ آخر ان کے لئے ملک کے چیف ایگزیکٹو کا ایک نیا عہدہ گھڑا گیا اور ان کو بھی رشوت دے کر ساتھ ملا لیا گیا۔
اس بار بھی امریکی سفارت خانہ انہیں کوئی رشوت دے گا اور یوں کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر ’بحران‘ کا حل نکال لیا جائے گا۔
صدارتی انتخاب کا یہ نیا راؤنڈ ایک مرتبہ پھر، پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اس بات کا اظہار ہے کہ امریکی سامراج کے جنگی جہازوں پر بیٹھ کر آنے والی جمہوریت دراصل جمہوریت کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہے۔
اگر عراق میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں ایران نواز مذہبی جنونی اور جنگی سالار لوگوں پر، فرقہ وارانہ بنیادوں پربذریعہ انتخابات، مسلط کر دئے گئے ہیں تو افغانستان میں خونی جنگی سالار نسلی بنیادوں پر مسلط ہو گئے ہیں۔
افغان شہریوں کے پاس موجود ’آپشن‘ یہ ہے کہ طالبان کا ساتھ دو یا حکمت یار کو ووٹ دو۔ بہت سے لبرل حضرات جن کو گیارہ ستمبر کے بعد بہت ساری خوش فہمیاں تھیں، معلوم نہیں انہوں نے منگل کو آنے والے انتخابی نتائج کی خبر پڑھی کہ نہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔