فاروق سلہریا
محمود بٹ کی آج پہلی برسی ہے۔ محنت کش طبقے کا یہ ہیرو اور انقلاب کا یہ سپاہی جتنا غیر معروف تھا اتنا ہی غیر معمولی تھا۔ یہی اس کی عظمت تھی، نہ اپنی جان کی فکر نہ خاندان کی۔ بہادر، نڈر اور کھرا۔
مغلپورہ لاہور میں پیدا ہوا۔ وہیں ساری زندگی گزار دی۔ پیدائش ایک محنت کش خاندان میں ہوئی۔ نہ ٹھیک سے پڑھ سکا، نہ ٹھیک سے بچپن کا لطف اٹھا سکا۔ لڑکپن میں ہی روزگار کی چکی میں پسنے لگا۔ پہلوانی کا شوق تھا۔ اکھاڑے میں اترتا تو غمِ روزگار بھول جاتا۔
اتفاق سے اتفاق فیکٹری میں نوکری مل گئی۔ حسنِ اتفاق کہئے کہ انہی دنوں ’جدوجہد گروپ‘ سے رابطے ہو گئے۔ اپنی زندگی کے تجربات کو سوشلزم کے عدسے سے دیکھا تو سوچ کا ایک نیا افق وَا ہو گیا۔ ایک بات اسے سمجھ آ گئی کہ ٹریڈ یونین اور انقلابی جماعت کی تعمیر کے بغیر مزدور کے حالات نہیں بدل سکتے اور’اتفاق‘ میں یونین بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
ادھر نواز شریف کی بدمعاشی اور سیاست عروج پر تھی۔ اُن دنوں نواز شریف کو لاڈلے کا درجہ حاصل تھا۔ اقتدار میں آ کر نواز شریف کے خاندان نے ہر بار ریاستی پولیس کو ایسے استعمال کیا گویا پولیس ان کی خاندانی ملازم ہو۔ اقتدار سے قبل بھی بدمعاشی اور تجارت کا امتزاج ہی اس خاندان کی کاروباری کامیابی کا ’راز‘ سمجھا جاتا تھا۔ مشہور تھا کہ اتفاق فاؤنڈری میں مزدور کو بھٹی میں ڈال دیا گیا تھا۔ ممکن ہے یہ افواہ ہو مگر ایک ایسی فیکٹری میں یونین بنانا جس کے مالک کی شہرت ہو کہ وہ مزدوروں کو بھٹی میں ڈلوا دیتے ہیں، پنجاب پولیس ان کے گھر کی باندی ہے اور فیکٹری میں مزدوروں کو ڈسپلن کرنے کے لئے باقاعدہ بدمعاش پالے گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی شیر دل انقلابی ہی یہ خواب دیکھ سکتا تھا۔ محمود بٹ نے یہ خواب دیکھا اور اسے عملی جامہ پہنانے پر تل گیا۔
آخر محمود بٹ صرف جسمانی کثرت کرنے والا پہلوان نہیں تھا، وہ نظریات کا بھی پہلوان تھا اور طبقاتی جدوجہد کے اکھاڑے کا رستمِ زماں بھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مزدور اس کے گرد جمع ہونے لگے۔ یونین بن گئی مگر محمود بٹ کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے اس پر زبردست تشدد کیا گیا۔ ایک دن’اتفاق‘ کے پالے ہوئے بدمعاشوں نے اسے اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا اور اسے فیکٹری سے باہر، مردہ سمجھ کر پھینک دیا گیا۔ حفاظتی اقدام کے طور پر، چھٹی کے وقت چند ساتھی محمود بٹ کو فیکٹری کے گیٹ پر ملے۔ ان ساتھیوں کی وجہ سے محمود بٹ کی جان بچ گئی۔ اتفاق والوں نے نوکری سے نکالا تو باقی زندگی ایک فل ٹائمر کے طور پر گزاری۔ مہ و سال کے پیمانے پہ عمر تھی بھی کتنی؟ بمشکل پچاس سال۔
عمر کے آخری چند سال پاکستان بھٹہ مزدور یونین (پنجاب) کے جنرل سیکرٹری کے طور پر صوبے بھر میں نہ صرف بھٹہ مزدوروں کی نئے سرے سے تحریک منظم کی بلکہ وہ ان مزدوروں کا ایک جیتا جاگتا انسائیکلو پیڈیا بن گیا۔ بانڈڈ لیبر کے قوانین ہوں، یااینٹوں کے بھٹوں سے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات، یا چائلڈ لیبر کا مسئلہ، گویا وہ ہر مسئلے پر اپنے دھیمے لہجے میں یوں مدلل بات کرتا کہ کسی بحث کی گنجائش ہی نہ چھوڑتا۔
اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں ایک اور کام اس نے دل و جان سے کیاوہ تھا فیض امن میلے کے انتظامات!
فاروق طارق، ناصر اقبال اورعثمان کے ہمراہ وہ سب سے پہلے اوپن ائیر تھیٹر پہنچ جاتا۔ پنڈال کی سجاوٹ سے لے کر، دریاں بچھانے تک، یہ محمود بٹ اور اس کے دو تین ساتھیوں کی انتھک بھاگ دوڑ تھی جس کے نتیجے میں ہر سال فیض امن میلہ بہ احسن و خوبی سر انجام پاتا۔
مجھے محمود بٹ سے پہلی ملاقات بھی یاد ہے اور آخری بھی۔ پہلی بار ہم بیڈن روڈ پر واقع’جدوجہد‘کے دفتر میں ملے تھے، غالباً 1993ء کی بات ہے۔ آخری ملاقات ٹھیک ایک سال پہلے، گذشتہ فیض امن میلے پر ہوئی تھی۔ وہ حسبِ معمول سب سے پہلے پہنچا ہوا تھا۔ دوپہر کے وقت اس کے بچے بھی اپنے چچا (محمود بٹ کے چھوٹے بھائی) کے ہمراہ آ گئے۔ میں نے، محمود بٹ اور تمام بچوں نے ایک ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔ دن بھر کئی بار مڈھ بھیڑ ہوئی۔ وہ صبح سے ہی تھکا تھکا لگ رہا تھا۔ میں نے اسے میلے کے بعد آرام کا مشورہ دیا۔ شام گئے میلے کے اختتام پر ہم چند دوست ہی رہ گئے۔ رات کے کھانے کے لئے میں نے سب دوستوں کو پریس کلب چلنے کی دعوت دی۔ محمود بٹ نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ابھی کام مکمل نہیں ہوا اور کام ختم کروا نے کے بعد وہ گھر چلا جائے گا کیونکہ تھکاوٹ کی وجہ سے اس میں ہمارے ساتھ پریس کلب جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
ہم گلے ملے اور جلد ملنے کا کہہ کر رخصت ہو گئے۔ وہ مجھے بہت دنوں سے بھٹوں کا وزٹ کرنے اور بھٹہ مزدوروں کے حالات پر فیچر لکھنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ دُو دن کے بعد دل کے دورے نے اس انتہائی پیارے دوست اور کامریڈ کی جان لے لی۔
آج بختیار لیبر ہال میں محمود بٹ کے ساتھی مزدور اور انقلابی کامریڈ اسے خراجِ عقیدت پیش کرنے صبح دس بجے اس عہد کے ساتھ جمع ہوں گے کہ محمود بٹ کی جدوجہد جاری رہے گی۔ گذشتہ اتوار کو ہونے والا فیض امن میلہ جو گذشتہ سال سے بھی کہیں بڑا تھا، محمود بٹ کے ساتھیوں کے اسی عہد کا ایک عملی اظہار تھا۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔