تاریخ

شو کمار بٹالوی کا مکمل کلام شائع ہو گیا

اسلم ملک

بھارت میں جس پنجابی شاعر نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی، وہ تھے شِو کمار بٹالوی… پنجاب میں تو وہ شاید ساحر، امرتا اور فراز سے بھی زیادہ مقبول ہوئے۔ یوں سمجھیں ان کی نظمیں لوک گیت بن گئیں۔

نی اک میری اکھ کاشنی، دوجے رات دے انیندرے نے ماریا

مائے نی مائے! میرے گیتاں دے نیناں وچ برہوں دی رڑک پوے

مائے نی مائے! میں اک شکرا یار بنایا

تینوں دیاں ہنجواں دا بھاڑا، نی دکھاں دا پراگا بھن دے، بھٹی والئی!

یہ سب آپ نے بھی سنی ہوں گی۔ ہر بڑے گلوکار نے ان کا کلام گایا۔ وہ بھارت کا سب سے بڑا ادبی انعام ’ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ‘ لینے والے سب سے کم عمر شاعر تھے۔ بھارتی حکومت نے ان کے اعزاز میں ڈاک کا یادگاری لفافہ جاری کیا۔ آج بھی ان کے بارے میں بے شمار ویب سائٹس، پیج اور گروپ قائم ہیں۔ انٹر نیٹ پر ان کی موجودگی ہمارے عہد کے کسی بھی شاعر سے زیادہ ہے۔

13 جولائی 1936ء کو بڑا پنڈ لوہٹیاں (شکر گڑھ) میں پیدا ہونے والے شِو کمار کو 1947ء میں لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔ گھر والے بٹالہ میں آباد ہوئے اور وہ بٹالوی بن گئے۔

وہ ایک بے چین روح تھی۔ تین کالجوں میں پڑھنے کے باوجود امتحان پاس نہ کر سکا۔ والد نے دوتین جگہ ملازمتیں دلائیں لیکن ہفتے میں بس دو تین دن دفتر جاتا۔ شادی اور بچے بھی ہوئے۔ سینکڑوں کنواریاں اور بیاہی عاشق ہوئیں، لیکن اس کی اداسی دور نہ ہوئی۔ کئی کئی دن باقی دنیا سے کٹ کر کسی دوست کے گھر پڑا رہتا۔ مشاعروں اور کوی سمیلنوں کی آمدنی سے اخراجات پورے کرتا۔ اس کے نام سے ہزاروں لوگ مشاعروں میں آتے۔ وہ عمر کے 37 برس بھی پورے نہ کر سکا۔ 1973ء میں 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات پٹھان کوٹ میں اس کی موت پنجاب بھر کیلئے ایک بڑادھچکاتھی۔

اسے رخصت ہوئے 47 برس بیت گئے، لیکن آج بھی اس کا پچھلے سو سال کے کسی بھی پنجابی شاعر سے زیادہ ذکر ہوتا ہے۔ شِو کمار بٹالوی کی شاعری کی خوشبو سرحد پار بھی پہنچی کہ ِاسے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

پاکستاں میں شِو کمار بٹالوی کی نظموں کا ایک مختصر مجموعہ چھپا اور پھر اقبال قیصر کی مرتب کی ہوئی کلیات 1997ء میں فکشن ہاؤس نے شائع کی۔ اب ہمارے دوست امجد سلیم منہاس کے ادارے ’سانجھ‘]صفاں والا چوک، لاہور (فون نمبر 03334051741)[ نے شِو کمار کا تمام کلام ایک ہی جلد میں شائع کیا ہے۔ اس میں شِو کمار کی تمام کتابیں: پیڑاں دا پراگا (1960ء)، مینوں وداع کرو (1963ء)، آرتی (1971ء)، لاجونتی (1961ء)، آٹے دیاں چڑیاں (1962ء)، لونا (1965ء)، میں اتے میں (1970ء)، الوداع (1974ء) ہی نہیں ادھر ادھر رسالوں، فائلوں اور ڈائریوں میں بکھرا ہوا تمام غیر مطبوعہ کلام بھی شامل ہے جوآصف رضا، افضل ساحراور عبدالحفیظ نے مرتب کیا ہے۔

کتاب کے درمیان میں شِو کمار کی کتابوں کے اصل ٹائٹل آرٹ پیپر پر اصل رنگوں میں لگائے گئے ہیں۔ خوبصورت ہونے کے علاوہ اس کتاب کی یہ اضافی خوبی بھی ہے کہ اس میں بھارتی پنجاب میں بولے جانے والے سیکڑوں نسبتاً اجنبی الفاظ کے معانی بھی درج ہیں۔ یہ کمی البتہ محسوس ہوئی کہ ابتدائی فہرست میں نظموں کا حوالہ تو ہے لیکن یہ نشاندہی نہیں کی گئی کہ کونسی کتاب کس صفحے سے شروع ہوتی ہے۔ کتاب کا نام بھی بہتر ہوسکتا تھا۔ بہر حال اچھی شاعری کا ذوق رکھنے والے احباب یہ کتاب ضرور حاصل کریں۔

Aslam Malik
+ posts

اسلم ملک روزنامہ جنگ کے سینئر سب ایڈیٹر ہیں۔ وہ ستر کی دہائی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔