ناصر اقبال
1960ء کی دہائی میں جہاں ایک طرف مملکت خداداد کی کرسی صدارت پر جنرل محمد ایوب خان براجمان تھے تو دوسری طرف عظیم ثقافتی شہر لاہور کی گلیوں، سڑکوں، ادبی محفلوں اور مشاعروں پر ساغر صدیقی کا راج تھا۔ اسی دوران ساغر کا مشہور زمانہ شعر:
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
کی گونج لاہور کی گلیوں میں سے ہوتی ہوئی اسلام آباد اور راولپنڈی میں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی تو اسے سن کر جنرل ایوب خان کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔ جنرل صاحب اپنے دربار میں فقیروں کو خاص مقام دیتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب اور ممتاز مفتی ان کے درباری درویشوں میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔ ویسے تو اس قماش کے چند فقیروں نے لاہور میں بھی خاصا نام کمایامگر افسوس کہ ہمارے پیارے فقیر شاعر ساغر کا نام باوجوہ ا ن فقرا کے سلسلے اور نسبت میں شامل نہ ہو سکا۔
ساغر کی مذکورہ آہ و بکا جس میں سلطان کو مخاطب کیا گیا تھاسے جنرل صاحب نے فوراً ہی اسے اپنے آپ سے گماں کر لیا یعنی ساغر نے جس سلطان کو پکارا ہے وہ یقینا جنرل ایوب خان ہی تھے۔ ویسے اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے، قریبی ذرائع کے مطابق جنرل صاحب اپنے آپ کو ہمیشہ سلطان محمد فاتح اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہم پلہ سمجھتے تھے اور بعض معاملات میں اپنے آپ کو ان سے اعلیٰ بھی گردانتے تھے چنانچہ پہلے آنکھوں میں آنسو آئے پھر فوراً بھیس بدل کر ساغر کا احوال لینے لاہور پہنچے۔
ایک دوسری روایت کے مطابق جنرل صاحب جذباتی ہو کر خود لاہور نہیں آئے بلکہ کسی کارِ خاص کو لاہور بھیجا تاکہ وہ ساغراور جنرل صاحب کی ملاقات کے معاملات طے کر سکے۔ جب ساغر کو ملاقات کا پیغام ملا کہ وقت کا سلطان ملاقات کا خواہش مند ہے تو ساغر نے فوری ٹکا سا جواب دے کر ملاقات کے امکان کو رد کر کے مشہور یونانی فلاسفی دیو جانسن کلبی کی روایت کو زندہ کر دیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی فلسفی ہیں جنہوں نے سکندر اعظم کے تخت و تاج کو لات ماری تھی اور ان کے پاس پانی پینے کے لیے لکڑی کا ایک عدد پیالہ تھا جسے بعد میں اس نے خود ہی توڑ دیا البتہ پیالے کے معاملے میں ہمارا ساغر بازی جیتتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ کلبی کے پاس پیالہ تھا جسے توڑنا پڑا مگر ساغر کے پاس سوائے ایک آدھ ماچس کے کبھی بھی کسی ملکیت کے شواہد نہیں ملے۔
تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ سلطان اور فقیر کی یہ اہم ملاقات نہ ہو سکی مگر ملاقات نہ ہونے کے اسباب پرہم عصروں کے مطابق کچھ ابہام ضرورموجود ہیں۔ پہلی وجہ جو خاصی واضح ہے کہ ساغر کی ہٹ دھرمی یعنی کہ چٹا انکار۔ دوسری یہ کہ پیامبر نے پیغام ٹھیک طریقے سے نہ پہنچایا ہو، مقام ملاقات پر مسئلہ ہو گیا ہو، مقامِ عالم ہذا یا مادی دنیاپر ساغر نہ مانیں ہوں یا مقام ِعالمِ مدہوشی پر جنرل ایوب راضی نہ ہوئے ہوں۔ ساغر صاحب اپنی ساری زندگی عالم مدہوشی پر زور دیتے رہے۔ یہ بات قرینِ قیاس ہو سکتی ہے کہ ساغر نے ضد کی ہو کہ ملاقات بھی عالم مدہوشی میں ہی ہو گی تو ظاہر ہے کہ جنرل صاحب وضع دار آدمی تھے اس بات پر کیسے راضی ہوتے۔
یہاں ایک سازشی تھیوری بھی موجود ہے چونکہ دربار ایوبی میں موجود چہار درویش جن کا بالا ئی سطور میں ذکر موجود ہے وہ اس ممکنہ ملاقات کے خلاف تھے اور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی محلاتی سازش کر کے کام دِکھا دیا ہو۔ جنرل صاحب یقینا ساغر سے اس بھول کے بارے جانکاری چاہتے تھے جو ان سے کہیں انجانے میں سرزد ہوئی ہو جس کا اشارہ ساغر نے شعر میں دیا۔ قوم کی بدقسمتی کہ ملاقات نہ ہو سکی اور فانی دنیا کا وہ راز ساغر کے ساتھ ہی عالم مدہوشی سے ہوتا ہوا عالم بالا میں کہیں پنہاں ہو گیا۔
ساغر نے زندگی کو جبر ِمسلسل بھی قرار دیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ عالم مدہوشی میں ہی نہیں رہے بلکہ کبھی کبھی وہ اس مادی و فانی دنیا کا چکر بھی کاٹ لیتے تھے۔ ساغر کی تقریباً تمام شاعری شکوے اور شکایات کا اچھا خاصہ انبار ہے مگر ہماری نظر میں حاصل کلام یہی شعر ہے جس کا حوالہ ہم نے تحریر کے ابتدا میں دیا ہے۔
ویسے تو دنیا بھر کے شعرا لفظوں کے جادو گرمانے جاتے ہیں مگر جہاں تک ساغر کا معاملہ ہے تو لفظوں کے ساتھ ساتھ ان کے حقیقی جادوگر ہونے کا شبہ اور بھی قوی ہو جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں جادو گر ناراضگی کے سبب بندے کو جب شراپ دیتے تو اسے طوطا بنا کر پنجرے میں بند کر کے کسی اندھیری غار میں رکھ کر بھول جایا کرتے تھے یا اسے درخت یا پہاڑ بنا کر ایستادہ کر کے اور وقت کو روک کر خود کہیں رفو چکر ہو جاتے۔
ہم نے جب بھی ساغر کے اس شعر کو دیکھا تو یہی محسوس ہوا جیسے ساغر پاکستان کو اس شعر میں قید کر کے اپنی ماچس میں رکھ کر کہیں بھول گیا ہو۔ حاصل ِشعر کو غور سے دیکھنے پر معلوم ہو جاتا ہے کہ ساغر نے جادوگروں کی طرح پہلے تناسب اور پیمانوں میں گڑ بڑ کی یعنی کچھ پیمانوں کو بہت ہی چھوٹا کر دیا اور کچھ کو بہت بڑا کر دیا۔ مثال کے طور پر ”دور“ جو کہ اصل میں لاکھوں اور کروڑوں سالوں پر محیط ہوتا ہے کو صدر ایوب خان کی گیارہ سالہ حکومت سے تشبیہ کر دینا، صدر صاحب کو سلاطین کی صف میں کھڑا کرنا اور فقیر کی بھیک کو کمائی قرار دے کر وقت اور پاکستان کو وہیں پر ساکت کر دینا جادوگری نہیں تو اور کیا ہے۔
آج تک پاکستان میں لفظ دور سے مراد ہی ایوب خان کے عہد حکومت سے لی جاتی ہے۔ پھر یہ محاورہ بھی خاص طور پر نوجوانوں میں عام بولا جاتا ہے کہ ”جی دور بدل گیا ہے“۔ نسبت اور تناسب کا حال دیکھیں کہ حکمرانوں کی آمدن کروڑوں اور کرپشن اربوں کھربوں میں جبکہ عام شہری کی فلاح کے لیے دو سے تین ہزار روپے ماہانہ۔ یوں عالم مدہوشی میں لکھا گیا ایک چھوٹا اور سادہ سا شعر ملک کا نوشتہ تقدیر بن گیا اور گویا کہ فکری دھارے اور پیمانے ہی بدل گئے بلکہ الٹ گئے۔
غالباً 1960ء کی دہائی میں کسی وقت یہ جادو ئی شعر لکھا گیا، اس وقت کا پاکستان صنعتی عہد میں داخل ہونے کی کوشش میں تھا ہی کہ ساغر کا شراپ طاری ہو گیا۔ اگلی دہائی میں ملک ٹوٹا، باقی ماندہ میں زراعت کو ملکی ترقی کی معراج قرار دے کر زرعی اصلاحات اور روسی ٹریکٹر، سوشل ازم کے نام پر عوام کو قطاروں میں کھڑا کیا گیا۔ 1980ء کی دہائی میں زراعت کو پیچھے چھوڑ کر اور جہاد کا راستہ اپنا کر ملک قرون وسطیٰ میں داخل ہو ا۔ 1990ء کی دہائی میں ملک عہد خلافت میں جاتے جاتے بمشکل بچا وہ بھی شاید اس لیے کہ عہد ِخلافت قرون ِوسطیٰ کا ہی جدید عہد تھا اور ہماری منزل توشاید کچھ اور تھی۔
بعد کے 20 سالوں میں حکمران طبقات آپس میں لڑ جھگڑ کر اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اب اگلا عہد قرون اولیٰ ہو گا جس میں ترقی کا معیار مویشی اور ڈھور ڈنگر پالنا تھا۔ اس کا اظہار ہمارے موجودہ وزیر اعظم بار ہا کر چکے ہیں پھر یہی نہیں بلکہ وہ جادو ٹونہ اور روحانیت کو سائنس کی اگلی منزل بھی قرار دے چکے ہیں۔ ان کا دربار سرکار دیکھ کر عہد کیلی گولہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
چندے سے تو ا ب مسجدیں نہیں چلتیں، ہمارے حکمران یقین ِکامل رکھتے ہیں کہ ڈیموں جیسے بڑے منصوبے، قرضوں کی واپسی اور حتیٰ کہ پورے ملک کو بھی چندے سے چلایا جا سکتا ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے جب ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ چھڑنے لگی تھی تو ہمارے وزیرِ خارجہ فوری طور پر بیچ بچاؤ کروانے پہنچ گئے۔ ذرا متحارب ملکوں کے حجم کو دیکھیں اور کہاں خلیفہ پہلوان۔ اسے کہتے ہیں کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔
یہ تھے ساغر کے جادو کے وہ اثرات جو حکمرانوں پر ہوئے جنہیں ہم نے نہایت مختصر کر کے بتایا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اب ہم ذرا اس کے عوامی اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ طلبہ تنظیمیں بدمعاشی کے مراکز میں بدلیں اور ٹریڈ یونینز کام چوری و سینہ زوری پر مائل ہوئیں۔ پیشہ ورانہ خدمات اور تجارت و صنعت کے شعبے محض دیہاڑی بازی اور چور بازاری پر لگ گئے۔ سماجی و معاشی ترقی کے زینے سرکاری نوکری معہ کرپشن یا بیرون ملک ہجرت مقرر ہوئے۔ سیاسی کارکن سیاسی کارندوں میں بدل گئے، سنتے تھے کہ قیام پاکستان سے قبل غیر مسلم اکثریت مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتی تھی اور آج کل سننے میں آتا ہے کہ اقلیتیں مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
مدہوشی کا عالم یہ ہے کہ سول سوسائٹی عوام کو 20 سے 25 ہزارروپے کے مع سود یا بلا سود قرضے جاری کرکے غربت مکاؤ کا دعویٰ کر رکھتی ہے۔ ایک کروڑ نوکریوں اور دس لاکھ گھروں کا منصوبہ۔ قوم کے عظیم مسیحا عبدالستار ایدھی مرحوم نے توایک دفعہ چار دن کے اندر اندر ملک میں انقلاب لانے کا دعویٰ کر دیا تھا۔ ابھی چند دن پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ عوام کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرنل کی زوجہ محترمہ اور ملک ریاض کی بچیاں ہیں اور ایک ہنگامہ، شور اور مذمتی قراردادیں وغیرہ۔
جادو گروں کی یہ بھی روایت رہی ہے کہ جب وہ کسی کو شراپ دیتے تو اسی وقت ہی اس کے توڑ یا کاٹ و پلٹ کا طریقہ کار یا کوڈ بھی کہیں ادھر ادھر مخفی کر دیتے تا کہ اگر کبھی کسی کا گزر ہو تو وہ کوڈ کو سمجھ کر طوطے کو پنجرہ سے نکال کر دوبارہ سے انسان بنا لے۔ لہٰذا تمام دوستوں سے دست بستہ عرض ہے کہ فوری ساغر کے جادو کے توڑ کی چابی ڈھونڈ نکالیں۔ ہمارا یقین ہے کہ مطلوبہ چابی ساغر نے کہیں کلام ساغر، نسخہ ہائے وفا، کلیاتِ جالب، کلیات ِمنیر یا کسی اور شاعر کے کلام میں کہیں چھپا دی ہو گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چابی ہمارے سب کے پیارے شاعر بابا نجمی جی سے ہی برآمد ہو جائے۔