رسم دعا کوبھیڑ میں رسوا کریں گے ہم
شاعری
آؤ کہ کوئی خواب بنیں
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے؟ جاں نثار اختر
دوسری عالمی جنگ کا منظر نامہ بھی اس غزل کا پس منظر بیان کر رہا ہے۔ سڑک پر انسانیت کا ایک بے جان جسم چادر میں ملبوس پڑاہے۔
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر میں دم گھٹتا ہے گنبد بے در میں
تاج محل
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
کبھی کبھی: فہمیدہ ریاض کی ایک نظم اور ان کا فن
فہمیدہ ریاض کا شمار ملک کے ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے صنفی اور سماجی مساوات کے لئے ہر قدم پر جرات مندانہ آواز اٹھائی۔ انہیں ہمیشہ ایک باشعور اور ترقی پسند شاعرہ کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔
دل من مسافر من
ہمیں کیا برا تھا مرنا
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں
فقیرانہ روش رکھتے تھے
فیض نامہ
میری آنکھوں، میری گرد آلود آنکھوں کا لہو
انقلاب آئے گا دوست: بیسویں صدی کا شاعر حسن نعیم
حسن نعیم (1991-1927ء) بیسویں صدی کے ان ترقی پسند شعرا میں شامل تھے جنہوں نے انجمن تر قی پسند مصنفین کی نظریاتی اساس کواپنے فن سے جلا بخشی۔