فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے، امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے
شاعری
دریچہ: فیض احمد فیض کی ایک نظم
”دریچہ“ دنیا کی تمام قید و بند کے درمیان امید کی روشنی اور رجائیت کی ایک سبیل ہے۔
سر مقتل کی ضبطی پر
میں طلوع ہو رہا ہوں، تو غروب ہونے والا
جوش ملیح آبادی کی ایک نظم: آدھی رات کی پکار
جوش کا نام آتے ہی متعدد رویے اور بے شمار گمراہ کن مفروضے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس لئے نہیں کہ جوش یا ان کی شاعری سے ان کو علاقہ تھا یا ہے بلکہ اس لئے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں جوش وہ واحد شاعر ہیں جن کی تنقید کے لئے بہت مختلف اور خصوصی پیمانے اور رویے وضع کئے گئے ہیں۔ جوش دراصل تھے ہی ایسے کہ اگر آپ ان کو نہیں جانتے الگ بات ہے لیکن اگر آپ ان سے یا ان کی شاعری سے متعارف ہو جائیں تو پھر ”ان کے ہو جائیں گے“ یا ”ان کے درپے ہو جائیں گے۔“
سلام لوگو!
تم ہی نے باطل کا سر جھکایا
اے شریف انسانو: پاک و ہند جنگ پر ساحر لدھیانوی کی ایک نظم
ساحر کا ذہن بچپن سے ہی برطانوی حکومت اور سامراجیت کے خلاف ایک انقلابی اور باغی شکل اختیار کر چکاتھا، یہی وجہ تھی کہ ان کا مارکسی اور سوشلسٹ ذہن ان کی شاعری میں بھی کام کرتا رہا۔
یہ دنیا دو رنگی ہے
جب تک اونچ اور نیچ ہے باقی ہر صورت بے ڈھنگی ہے
قحط
زندانوں میں قحط پڑا ہے
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن: مخدوم محی الدین
وہ ترقی پسند سیاست کے نہ صرف کارکن بلکہ اس کی ادبی اور فکری اساس کے بانیوں میں شامل تھے۔