اب تو تم مجھے جان لو
شاعری
حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
ہوئے آقا فرنگیوں کے غلام
الفاظ کی کشتی میں
اور پھر بھی وہ ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں
’اسلئے فقیہان شہر بچوں کو تاریخ پڑھانے سے گریزاں ہیں‘
ماضی و فردا و حال سب کے سب پریشان کن ہیں
چیخ کا وزٹینگ کارڈ
شہر کے مخصوص بغیر دروازوں والے
در جاناں
ہر لحظہ غنیمت ہے اگر ہاتھ میں ہے جام
ایک گیت اداس کتاب کے لیے
جو روٹی کو گھسیٹ گھسیٹ کر
غزل: کبھی سلام کبھی آپ کے پیام آئے
تری نظرکے سمندر سے تشنہ کام آئے
غزل: اپنے ہی لوگ اپنے نگر اجنبی لگے!
واپس گئے تو گھر کی ہر اک شے نئی لگے
غزل: ہونٹ پر دعا ہو گی ہاتھ میں سبو ہو گا
وقت کے سنگھاسن پر کون خوبرو ہو گا