ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے
شاعری
غزل: رنگ ہو، نور ہو، توقیر تو ہو
ترے قابل تری تصویر تو ہو
غزل: دامن زیست سنوارا جائے
کوئی مہتاب اتارا جائے
فلسطینی بچے کے لیے لوری
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
فلسطین کے بیٹے
خون ارزاں
اس پھیلتی خوشبو کو گلابوں ہی میں رکھنا!
اک کلمہ حق ہی مری میراث ہے یارو
میری اجرت، میرے ہاتھ!
کیسے اسیر کرو گے اسے؟
CV
اتنی بڑی زندگی کے سارے میرٹ
اپنے سی وی میں چھپانے پڑتے ہیں
غزل: اب سمندر نہیں رکنے والے
ہم سے منسوب ہیں منزل کے نشاں
دہشت گردوں کے حملے کے بعد
سائے اک دوجے سے گتھم گتھا لڑتے