ہم حکومت، ایچ ای سی اور تمام جامعات کے وائس چانسلرز کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ یہ کسی ایک یونیورسٹی، کسی ایک شہر یا طلبہ کے کسی مخصوص گروپ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک بھر کے طلبہ کا مشترکہ مسئلہ ہے اور ملک بھر کی تمام جامعات کے طلبہ اس ایشو پر یکجا اور متحد ہیں۔ ہم اپنا حق ہر قیمت پر لے کر رہیں گے اور اس جدوجہد سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونگے۔
پاکستان
باچہ خان یونیورسٹی میں بھی طالبان آ گئے: عمران خان نے دفتر دینے کا وعدہ کیا تھا، جامعات نہیں
سکولوں کو یکساں نصاب کے نام پر مدرسے بنایا جا رہا ہے، یونیورسٹیاں پی ایچ ڈی طالبان کے حوالے کی جا رہی ہیں۔
بجلی کی قیمتوں میں پھراضافہ: عوام پر 200 ارب روپے کا نیا معاشی بوجھ
نجکاری کا سلسلہ فوری طورپر بندی کیا جانا چاہیے اور بالخصوص بجلی کے انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کو قومی تحویل میں لیا جائے۔ یہ پلانٹس لگائے ہی غلط معاہدوں کے تحت گئے تھے، ان سے سستی بجلی پیدا ہو ہی نہیں سکتی، تیل اور گیس کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ بند کر کے شمسی توانائی، ہوا، چھوٹے ڈیمز کے ذریعے بجلی کی پیداوار بڑھا کر اس مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔
نجکاری نا منظور: 15 فروری کو ڈی چوک اسلام آباد میں تاریخی احتجاج ہو گا
ملک بھر کی درجنوں ٹریڈ یونینوں، ملازم تنظیموں اور پنشنرز کی تنظیموں کے اتحاد ’آل پاکستان ایمپلائز پنشنرز اینڈ لیبر تحریک‘ نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سامراجی پالیسیوں اور نجکاری کے خلاف 15 فروری کو ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔
آکسفورڈ کرونا ویکسین بنا رہی ہے، ہزارہ یونیورسٹی ڈریس کوڈ
ہزارہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو لال سلام لال سلام۔
پاکستان کی امریکہ اور فرانس میں موجود جائیدادیں ضبط ہونے کا خطرہ
ی سی سی کا دعویٰ ہے کہ حکومت نکالی گئی دھاتوں کی پراسیسنگ اور ریفائنری کا انتظام اور فنانس کرنے کی پابند ہے اس وجہ سے کمپنی نے اس مقصد کیلئے بجٹ نہیں بنایا تھا۔ اس وقت تک کمپنی نے ریکوڈک کی کان میں 220 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔
ہزارہ یونیورسٹی میں ڈریس کوڈ
اس میں حیرت کیسی اگر ہم ہر وبا، ہر آفت اور ہر مشکل گھڑی میں دوسروں سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
چائے، پیزا اور سیاست
رٹے رٹائے جملے دہرانے سے یہ حقیقت نہیں بدل جاتی کہ فوج آئین و قانون کے خلاف سیاست میں مداخلت کر رہی ہے اور یہ کہ ہائبرڈ سسٹم ایک حقیقت ہے۔
سانحہ مچھ اور فرقہ واریت کی ایک نئی لہر
ترقی، نشوونما، استحکام اور اپنی تخلیقی قوتوں کو بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ عقائد حکمرانوں اور اشرافیہ کے تسلط سے آزاد ہوں اور یہی سبق اکیسویں صدی میں پاکستان کو ایک جدید ریاست بنا سکتا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام کشمیر: خود رو تحریکیں جنم لے رہی ہیں
محنت کش عوام کی نجات اس نظام کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر منظم ہوتے ہوئے اس نظام کی شکست دے کر طبقات سے پاک سماج کے قیام میں ہے۔