پاکستان


ارطغرل غازی پاپولسٹ حکومت کا تحفہ

2018ء سے اب تک پاکستان کا پاپولسٹ سیاسی قومی بیاینہ کرشماتی شخصیت، بیرونی جارحیت، صفوں میں چھپے غداروں، سکہ بند قومی لیڈر شپ، اسلام کی سر بلندی اور ریاست مدینہ کے بیانئے کے گرد گھوم رہا ہے۔ مقتدرہ قوتوں نے یہ قومی بیانیہ شب و روز ٹی وی اور سوشل میڈیا کے استعمال سے تشکیل دیا ہے۔ چنانچہ اس سیاسی بیانئے کی جھلک ارطغرل غازی میں پیش کئے جانے والے بیانئے میں نظر آتی ہے۔

50 لاکھ گھروں کے دعویداروں کا مزدوروں کے 84 ارب سے تعمیر مکانات پر ڈاکہ

”حکومت نے محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ 50 لاکھ گھروں کے دعویداروں نے غریب مزدوروں کے اربوں روپے کے چندے سے تعمیر ہونیوالی سکیموں پر ڈاکہ مار کر اسے نیا پاکستان ہاﺅسنگ سکیم قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں پہلے سے امید تھی کہ یہ حکمران 50 لاکھ تو دور چند مکانات بھی نہیں تعمیر کر کے دے سکتے، الٹا یہ محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالیں گے اور یہی سب وہ کر رہے ہیں۔ ذلفی بخاری جیسے چند پیداگیر افراد نے مزدوروں کے خون پسینے سے جمع شدہ رقم لوٹنے کےلئے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ محنت کشوں کے مکانات اور فلیٹس بھی اپنے من پسند افراد کو الاٹ کر دیئے ہیں اور میڈیا پر نیا پاکستان ہاﺅسنگ پراجیکٹ کی تشہیر بھی کر دی ہے۔ لیکن اس منصوبہ میں حکمرانوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے، یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو تمام یونینوں اور محنت کشوں کو مجتمع کرتے ہوئے اس ڈاکہ زنی پر احتجاج کیا جائے گا اور متاثرہ محنت کشوں کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑا جائیگا۔“

ماضی کو دفن کرنے کی پہلی کامیاب کوشش: اعجاز حیدر کی مدد سے لمز کا ویبینار منسوخ

لازمی نہیں کہ ہر بار اعجاز حیدر ایسے محب وطن صحافی کی نظر ایسی حرکتوں پر پڑے جن کا مقصد ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں بے نقاب کرنے کی بجائے پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بے نقاب کر نا ہوتا ہے۔

عمران خان نے روٹی کے ساتھ خوشیاں بھی چھین لیں

عالمی سطح پر پھیلنے والی بیروزگاری، معاشی کٹوتیوں اور صحت کے شعبے کی بری طرح ناکامی نے سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کو ایک بار پر عیاں کیا ہے۔ بہتری اور بحالی کی کوئی امید، کوئی طریقہ بین الاقوامی دانش کو سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ انسانیت کی وسیع تر پرتوں کی حقیقی خوشی اور راحت اس نظام کی موجودگی میں فراہم نہیں کی جا سکتی ہے۔

کراچی نالہ متاثرین کا مسئلہ

گجر نالے اور کراچی کے دیگر نالوں کے اطراف گھروں کی مسماری  اور زبردستی بیدخلی کے خلاف جدوجہد نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد ہے بلکہ یہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع سے تجاوزات کے نام پر گھروں سے زبردستی بیدخل کئے جانے والے محنت کش عوام کی جدوجہد ہے اور یہ ان 10 لاکھ محنت کش عوام کے حقوق کی بھی جدوجہد ہے جنہیں اگلے پانچ سالوں میں پورے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر گھروں سے بیدخل کیا جائے گا اور یہ ہر اس مزدور بستی کی جدوجہد جسے ترقی کے نام پر کسی بھی وقت اپنے گھروں سے بیدخلی اور مسماری کا سامنا کرنا  پڑ سکتا ہے۔

آج عدم اعتماد کے بعد نئے الیکشن کرائے جائیں

یہ درست ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی کی بنے یا مسلم لیگ کی، عام شہریوں کو کوئی دیرپا فائدہ ملنے والا نہیں البتہ ہائبرڈ رجیم کے ٰ موجودہ تجربے کی ناکامی سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ نام نہاد اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی سے بہت لمبے عرصے تک لوگوں کے جمہوری مینڈیٹ کو بندوق کی نوک پر یرغمال نہیں بنا سکتی۔

سینیٹ الیکشن: لڑائی میں فاتح کوئی ہو، ہار محنت کشوں کی ہوئی ہے!

اس نظام کے زخموں سے چور محنت کش طبقہ وقتی طورپر کسی بڑی تحریک میں متحرک نظر نہیں آرہا ہے لیکن مختلف اداروں کے محنت کشوں کی بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی تحریکیں اور طالبعلموں میں پیدا ہونیوالی معمولی سیاسی ہلچل سطح کے نیچے پنپنے والے بغاوت اور انقلاب کے شعلوں کا پتہ دے رہی ہے۔ کوئی ایک واقعہ یا حادثہ اس بغاوت کو مہمیز دیتے ہوئے اس نظام اور حکمرانوں کو ’جبر کے آلے‘ سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ محنت کش طبقے کے دکھوں کی نجات کا منبع و مرکز محنت کش طبقہ خود ہے، جب وہ انگڑائی لے گا تو ایک نئی صبح تراش لائے گا۔