پاکستان


مارشل لا لگے گا نہ ہائبرڈ جمہوریت چلے گی

ترقی پسند قوتوں کے لئے یقینا ہائبرڈ جمہوریت کا خاتمہ ایک بہتر بات ہو گی لیکن اہم بات ان امکانات کو بڑھاوا دینا ہے کہ ممکنہ عوامی تحریک ایک نئی عوامی اور سیاسی قیادت کو جنم دے جس میں ٹریڈ یونین، طلبہ تحریک، خواتین اور سماجی تنظیمیں ہراؤل کا کردار ادا کر رہی ہوں۔ اسلام آباد کے دھرنے نے ایک امید دلائی ہے۔

پاکستان سرمایہ دارانہ ناکامیوں کا عجائب گھر ہے

موجودہ عالمی نظام میں اب مزید صلاحیت کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ جو جزوی اصلاحات اور پیوند لگانے سے کوئی بہتری آئے گی۔ تاریخی ارتقا اس فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ صرف عوام کی براہ راست مداخلت ہی رجعتی رکاوٹوں کو توڑ کر ایک نئے نظام کی بنیاد ڈال سکتی ہے۔

پولیس کی بغاوت: نئی صف بندیوں کا پیش خیمہ

اس ساری صورتحال میں بائیں بازو کو تماشا دیکھنے کی بجائے اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے انڈیپنڈنٹ ایکشن لینے کی فوری ضرورت ہے۔ اسی کے پیش نظر حقوق خلق موومنٹ نے 8 نومبر کو لاہور میں ایک بڑی ریلی نکالنے کا اعلان کر دیا ہے اور طلبہ نے 27 نومبر کو لال لال لہرانے کا عمل دہرانے کے لئے ایک بڑی ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مائی بختاور: جاگیرداری کے خلاف مزاحمت کا استعارہ

انہیں سندھ کے زمینی اشرافیہ کے خلاف مزاحمت کی علامت ہونے کی وجہ سے یاد رکھنا چاہئے کیونکہ ان کا کردار امریکہ کی خواتین ٹیکسٹائل ورکرز سے کم اہم نہیں ہے جنہوں نے 1857ء میں سرمایہ داروں کے ذریعے ان کے استحصال کے خلاف بغاوت کی تھی۔

پی ڈی ایم جلسے عمران حکومت سے نفرت کا اظہار ہیں مگر کیا اپوزیشن ڈٹی رہے گی؟

دس سال پہلے تیونس میں بھی انقلاب سیدی بو سید نامی چھوٹے سے قصبے میں شروع ہوا تھا اور چند دن بعد دارلحکومت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ علی آباد، وزیرستان اور کوئٹہ بھی اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں۔ ایک مثال ابھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے!

فوج صرف جنگ کیلئے ہے

اسی خود اعتمادی نے انہیں اس سے پہلے 1958ء کی بغاوت پر بھی اکسایا جب انہوں نے صدر اسکندر مرزا کو عہدے سے برطرف کرتے ہوئے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اور پھر ایک دہائی تک ملک کے حکمران رہے۔