اس میں شک نہیں کہ حکومتی فیصلوں کی وجہ سے غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا۔ حکومت یہ فیصلہ بھی لے سکتی تھی کہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دولت کی تقسیم پر توجہ دیتی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ بڑھاتی، فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرتی اور ٹریڈ یونین کو مضبوط کرتی تا کہ مالکان تنخواہوں میں کمی نہ کر سکتے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اس کے بالکل الٹ کیا کیونکہ غربت کا خاتمہ، شرح خواندگی میں اضافہ یا بچوں میں کم خوراکی کا مسئلہ حل کرنا پی ٹی آئی حکومت کی ترجیح تھی ہی نہیں۔
پاکستان
’پاکستانی میں بنیاد پرستوں کو ووٹ نہیں ملتے، پاکستان ہندوستان سے زیادہ سیکولر ہے‘
نعرے بازی نہیں، سوچنے کا مقام ہے۔
مارشل لا لگے گا نہ ہائبرڈ جمہوریت چلے گی
ترقی پسند قوتوں کے لئے یقینا ہائبرڈ جمہوریت کا خاتمہ ایک بہتر بات ہو گی لیکن اہم بات ان امکانات کو بڑھاوا دینا ہے کہ ممکنہ عوامی تحریک ایک نئی عوامی اور سیاسی قیادت کو جنم دے جس میں ٹریڈ یونین، طلبہ تحریک، خواتین اور سماجی تنظیمیں ہراؤل کا کردار ادا کر رہی ہوں۔ اسلام آباد کے دھرنے نے ایک امید دلائی ہے۔
پاکستان سرمایہ دارانہ ناکامیوں کا عجائب گھر ہے
موجودہ عالمی نظام میں اب مزید صلاحیت کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ جو جزوی اصلاحات اور پیوند لگانے سے کوئی بہتری آئے گی۔ تاریخی ارتقا اس فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ صرف عوام کی براہ راست مداخلت ہی رجعتی رکاوٹوں کو توڑ کر ایک نئے نظام کی بنیاد ڈال سکتی ہے۔
پولیس کی بغاوت: نئی صف بندیوں کا پیش خیمہ
اس ساری صورتحال میں بائیں بازو کو تماشا دیکھنے کی بجائے اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے انڈیپنڈنٹ ایکشن لینے کی فوری ضرورت ہے۔ اسی کے پیش نظر حقوق خلق موومنٹ نے 8 نومبر کو لاہور میں ایک بڑی ریلی نکالنے کا اعلان کر دیا ہے اور طلبہ نے 27 نومبر کو لال لال لہرانے کا عمل دہرانے کے لئے ایک بڑی ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مائی بختاور: جاگیرداری کے خلاف مزاحمت کا استعارہ
انہیں سندھ کے زمینی اشرافیہ کے خلاف مزاحمت کی علامت ہونے کی وجہ سے یاد رکھنا چاہئے کیونکہ ان کا کردار امریکہ کی خواتین ٹیکسٹائل ورکرز سے کم اہم نہیں ہے جنہوں نے 1857ء میں سرمایہ داروں کے ذریعے ان کے استحصال کے خلاف بغاوت کی تھی۔
اسلام آباد کا دھرنا ایک آغاز ہے
ایک لمبے عرصے کے بعد مزدوروں نے ایک عاجزانہ مگر پورے استقلال اور جرآت سے پیش رفت کا آغاز کیا ہے۔
پی ڈی ایم جلسے عمران حکومت سے نفرت کا اظہار ہیں مگر کیا اپوزیشن ڈٹی رہے گی؟
دس سال پہلے تیونس میں بھی انقلاب سیدی بو سید نامی چھوٹے سے قصبے میں شروع ہوا تھا اور چند دن بعد دارلحکومت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ علی آباد، وزیرستان اور کوئٹہ بھی اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں۔ ایک مثال ابھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے!
فوج صرف جنگ کیلئے ہے
اسی خود اعتمادی نے انہیں اس سے پہلے 1958ء کی بغاوت پر بھی اکسایا جب انہوں نے صدر اسکندر مرزا کو عہدے سے برطرف کرتے ہوئے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی اور پھر ایک دہائی تک ملک کے حکمران رہے۔
بلوچ طلبہ کے کوٹے میں کمی کے خلاف لانگ مارچ
بلوچستان نے باقی ملک میں ہونے والی ترقی کو اپنے قدرتی وسائل سے سبسیڈائز کیا ہے مگر خود یہ صوبہ سب سے زیادہ پس ماندہ اور ملٹرائزڈ صوبہ ہے۔