پاکستان

جابرانہ ریاستی اقدامات کے باوجود اپوزیشن کا ملتان میں بھرپور جلسہ

فاروق طارق

ملتان میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا جلسہ حکومت کی جانب سے روکنے کے تمام جابرانہ اقدامات کے باوجود منعقد ہوا۔ یہ جلسہ پشاور میں اپوزیشن کے اس اتحاد کے جلسے کی ناکامی کے بعد دونوں فریقین کے لئے ایک چیلنج تھا۔

ملتان میں حکومت کی غلط حکمت عملی نے پی ڈی ایم کے پشاور کے ناکام جلسے کے اثر کو زائل کر دیا۔ پشاور جلسہ جبر سے ناکام نہ ہوا تھا۔ بلکہ اس کی مختلف دیگر وجوہات تھیں جن میں حکومت کا کرونا بارے موثر پراپیگنڈا بھی شامل تھا۔

پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے وقت پر ہونے والے اس جلسے کو حکومت کی جانب سے روکنے کے تمام تر حربے آزمائے گئے۔ گرفتاریاں بھی کی گئیں، مقدمات بھی درج ہوئے اور جلسہ کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ کنٹینرز لگا کر ملتان آنے والے تمام راستوں کو بند کیا گیا اور جا بجا ہزاروں کی تعداد میں پولیس کو تعینات کیا گیا تا کہ خوف و ہراس کی فضا قائم رہے۔ مگر جلسہ سے ایک روز قبل 29 نومبر کو اس اتحاد کی قیادت کی جانب سے ہر صورت جلسہ منعقد کرنے کے اعلان نے حکومتی تدابیر پر پانی پھیر دیا اور پی ڈی ایم قیادت ایک دفعہ پھر حکومت مخالف جذبات اور عوامی نفرت کے اظہار کا باعث بن گئی۔ حکومت کو جلسہ کے روز بعد دوپہر اعلان کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ جلسہ کے راستہ میں رکاوٹ نہ بنے گی۔

یہ اس کی پنجاب میں حکمت عملی رہی ہے کہ جلسے سے پہلے خوب ریاستی تشدد، گرفتاریاں، چھاپے مارے جائیں، کنٹینرز سے راستے بند کر دئیے جائیں تا کہ ان جابرانہ ریاستی اقدامات کی وجہ اگر جلسے میں کم لوگ آئیں تو یہ دعویٰ کر سکیں کہ اپوزیشن ”جلسیاں“ کر رہی ہے لیکن اس دفعہ انہیں یہ پراپیگنڈا کرنے کا بھی موقع نہ ملا۔ اعلان شدہ مقام کی بجائے چوک گھنٹہ گھر میں ہنگامی طور پر منعقد ہونے والے اس اجتماع میں ہزاروں نے بھرپور شرکت کی۔

حکومت کا یہ پراپیگنڈا بھی ناکام ہو گیا کہ اپوزیشن کے جلسوں سے کرونا پھیل رہاہے۔ ان کے اس پراپیگنڈا کو مریم نواز شریف نے جلسہ میں اپنی تقریر کے دوران خوب بے نقاب کیا۔ ”یہ کرونا نہیں، یہ حکومت جانے کا رونا ہے“۔ مریم نواز نے خطاب کرتے ہوئے طنزوں کے تیر برسائے اور کہا کہ حکومتی وزیروں اور جماعت اسلامی کے جلسوں سے کرونا نہیں پھیلتا۔ صرف ہمارے جلسوں سے پھیلتا ہے۔ انہوں نے شائد شعوری طور پر لاہور میں خادم رضوی کے جنازے کا ذکر نہ کیا کیونکہ مسلم لیگ نواز نے انکی وفات پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ حکومت کورونا وائرس کے پیچھے چھپ رہی ہے اور یہ کیسا وائرس ہے جو حکومت کے جلسوں میں نہیں صرف پی ڈی ایم کے جلسوں میں آتا ہے۔ انہوں نے اپنی دادی کی وفات پر حکومتی پراپیگنڈا کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہمارا واسطہ کم ظرف افراد سے پڑا ہے۔ مریم نواز نے حکومت کی جانب سے مہنگائی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔

جلسہ کی ایک اور سٹار سپیکر آصفہ بھٹو تھی جو بلاول بھٹو کو کرونا کے باعث شریک نہ ہونے پر انکی نمائندگی کرنے آئی تھی۔ آصفہ کی پہلی پبلک تقریر میں کوئی زیادہ مواد نہ تھا مگر وہ پراعتماد ہو کر تھوڑی دیر تقریر کرتی رہیں۔ بے نظیر بھٹو شہید کی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ سلیکٹڈ کے ظلم و جبر کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ ملتان کے اجتماع میں جمع ہوئے۔ عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے، اس سلیکٹڈ کو اب گھر جانا ہو گا۔

جلسے سے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود اچکزئی نے بھی خطاب کیا۔

ملتان کا جلسہ حکومتی جبر کے خلاف عوام کا ایک بھرپور جواب تھا۔ جلسہ سے پیپلز پارٹی کی گلیوں کی طاقت بھی کسی حد تک جاگتی نظر آئی۔ یہ شائد بلاول بھٹو کی گلگت بلتستان میں 22 روز تک روزانہ پیپلز پارٹی کے جلسوں سے خطاب کرنا اور انتخاب کے بعد انتخابی دھاندلی پر فوری طور پر ہزاروں کو موبلائز کرنے کا بھی ایک اثر تھا کہ ملتان میں پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کو بھی تحریکی انداز میں متحرک کر دیا۔ وہ دو دفعہ گرفتار ہوئے مگر روزانہ موبلائزیشن کا حصہ بنے رہے۔

پی ڈی ایم نے اب 13 دسمبر کو لاہور جلسے کا اعلان کیا ہے اور ملتان میں ریاستی تشدد اور جبر کے خلاف دو روزہ مظاہروں کا بھی اعلان کیا ہے۔

یہ جلسہ پنجاب میں تحریک انصاف کی بڑھتی عدم مقبولیت کا ایک اور اظہار تھا۔ اس سے قبل گوجرانوالہ میں اس کا بھرپور اظہار ہوا تھا۔ تحریک انصاف کی کرونا کو اپوزیشن کے جلسے کو ناکام بنانے کی حکمت عملی بری طرح پٹ گئی۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔