فاروق سلہریا
بابری مسجد کی جگہ 5 اگست کو ایک نئے مندر کی تعمیر کا کام شروع ہو گا۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ ایسا 5 اگست کے دن کا مہورت نکلنے کے بعد طے ہوا ہے مگر جموں کشمیر سمیت پورے جنوبی ایشیا کے سیکولر لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ مہورت بلا وجہ نہیں نکلا۔
پچھلے سال 5 اگست کو آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے ریاست جموں کشمیر میں بربریت کا ایک نیا باب شروع کیا گیا تھا۔ ممکن ہے مندر کی بنیاد رکھنے میں یہ جلد بازی اس لئے بھی دکھائی گئی ہو کہ سلطان ارطغرل اردگان نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر کے جو’قدرتی ماحول‘ فراہم کیا ہے، اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔
آیا صوفیہ کے بعدپاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر مختلف لوگ یہ نقطہ اٹھا رہے تھے کہ اسرائیل بھی تو مسجد اقصیٰ کا سٹیٹس تبدیل کر سکتا ہے۔ اسرائیل نے تو فی الحال ایسا نہیں کیا مگر بھارتی اردگان نے کر دکھایا۔
اب اگر کوئی ہندوستانی مسلمان یا پاکستان مودی کی قابلِ مذمت حرکت پر اعتراض کرے گا تو ہندتوا جواب میں آیا صوفیہ کا طعنہ دے گا۔ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے پرہارون رشید اور اوریا مقبول جان جیسے جو اینکر پرسن بغلیں بجا رہے تھے، دیکھئے اب کیا تاویل پیش کرتے ہیں مگر ان دو واقعات نے ایک مرتبہ پھر مندرجہ ذیل اسباق کی جانب اشارہ کیا ہے۔
۱۔ دنیا بھر کے مذہبی جنونی بھائی بھائی ہیں
جب دنیا کے ایک حصے میں مذہبی جنونیت پھیلتی ہے، تو اس کا اثر دوسرے حصے پر بھی ہوتا ہے۔ اردگان نے جو کام ترکی میں کیا، اس کا فائدہ ہندوستان میں مودی کو پہنچا۔ ہندتوا جب ہندوستان میں قدم جماتی ہے تو پاکستان میں اس کا فائدہ جماعت اسلامی اور دائیں بازو کی قوتوں کو ہوتا ہے۔ القاعدہ جب گیارہ ستمبر والی دہشت گردی کرتی ہے تو جارج بُش جیسا بارن اگین کرسچین (Born Again Christian) امریکی تاریخ کا مقبول ترین صدر بن جاتا ہے۔ بھلے مذہبی جنونی بظاہر ایک دوسرے کے دشمن ہوں مگر معروضی لحاظ سے وہ ایک دوسرے کے کامریڈز ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے اس باہمی رشتے کو سمجھنا ہو تو خلیل جبران کی مشہور کہانی ”شیطان“ کا مطالعہ کیجئے۔ خلیل جبران کے مطابق پادری کو شیطان کی ضرورت ہے اور شیطان کو پادری کی۔
۲۔ یہ گلوبل ویلج نہیں گلوبل جنگل ہے
ہمیں نوے کی دہائی میں بار بار بتایا جا رہا تھا کہ تاریخ کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اب دنیا لبرل ازم کا نمونہ بن جائے گی کیونکہ سوشلزم ناکام ہو چکا۔ ابھی یہ چیخ و پکار جاری تھی کہ 1992ء میں بابری مسجد پر حملہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد پھوٹنے والے فساد میں دو ہزادر افراد (زیادہ تر مسلمان) ہلاک ہو گئے۔ اس سے بھی خوفناک بات یہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ نہرو دور سے جاری نام نہاد سوشلسٹ عہد کا خاتمہ تو کانگرس نے خود ہی کر دیا جب من موہن سنگھ نے وزیر خزانہ کے طور پر ہندوستان کو گلوبلائزیشن کے نام پر سامراج کے قدموں میں رکھ دیاتھا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ آج گلوبلائزڈ انڈیا میں گلوبل کمیونٹی (روہنگیا، بنگلہ دیشی، افغان) کو تو کیا خوش آمدید کہا جائے گا، ہندوستانی مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے لئے ہی جگہ نہیں۔ گلوبلائزیشن کے مکہ اور مدینہ یعنی یورپ اور امریکہ میں پناہ گزینوں پر دروازے بند ہیں اور جگہ جگہ ٹرمپ، بورس جانسن یا ان جیسے لوگ حکمران ہیں۔ گاؤں جیسی پیار محبت سے رہنے والی برادری بننے کی بجائے سرمایہ داری اور مذہبی جنونیت (دونوں کا آپس میں گہرا رشتہ ہے) کے ہاتھوں یہ دنیا ایک گلوبل جنگل بن گئی ہے۔ آیا صوفیہ ہو یا بابری مسجد کی جگہ مندر، اس بات کی علامت ہیں کہ سرمایہ داری کے تحت گلوبلائزیشن ہو گی تو گلوبل ویلج نہیں گلوبل جنگل بنیں گے جہاں مذہب اور قوم کے نام پر خونریزی ہو گی۔ گلوبل ویلج سوشلزم، سیکولرزم اور انٹر نیشنل ازم کے عالمگیر اصولوں کے بغیر ممکن نہیں۔
۳۔ اقلیتیں نشانہ مگر اکثریت ہدف ہوتی ہے
بابری مسجد کو لگ بھگ تیس سال ہو چلے ہیں۔ بابری مسجد کی جگہ مندر بننے کو جا رہا ہے مگر جو کسان کبھی بھوک کے ہاتھوں مرتے تھے، بابری مسجد شہید ہو جانے کے بعد اب ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بھوک کے ہاتھوں مرنے کی بجائے بھوک کے ہاتھوں خود کشی کر کے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
یہی حال پاکستان کا ہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج ہوئے پچاس سال ہونے والے ہیں۔ دو سو پچانوے اے بی سی کو بھی چالیس سال ہونے کو ہیں۔ پاکستان کے مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی حالت پہلے سے کہیں بری ہے۔
آپ پورے ہندوستان کی مساجد کو مندروں میں بدل دو یا پورے ترکی میں گرجا گھروں کو مسجدوں میں بدل دو…عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے کیونکہ گرجا گھروں کو مسجد میں بدلنا یا مسجد کی جگہ مندر بنانے کا مقصد بھلے اقلیت کو نشانہ بنا کر اکثریت کو خوش کرنا ہوتا ہے مگر اقلیت کے ساتھ ساتھ اکثریت بھی ہدف بن رہی ہوتی ہے۔ ایسے اقدامات کا مقصد ہوتا ہے کہ سٹیٹس کو برقرار رہے۔ لوگوں کو مسجد مندر کے جھگڑے میں ڈالے رکھو۔ عوام تقسیم رہیں گے تو حکمران محفوظ رہیں گے۔
۴۔ اردگان اور مودی گھر کے سامنے شیر
2016ء میں ترکی کے صدر کو سر عام روس کے صدر پوتن سے معافی مانگنی پڑی۔ ہوا یوں تھا کہ ترکی نے روس کے جنگی جہاز گرا دئے تھے۔ ترکی کا کہنا تھا کہ روسی جہاز شام کی جانب سے ترکی کے اندر گھس آئے تھے۔ پوتن نے ترکی کا معاشی بائیکاٹ کر دیا اور سر عام معافی کا مطالبہ کر دیا۔ ترکی کی معیشت کا چند ہفتے بعد کچومر نکلنے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سلطان اردگان کا جذبہ جہاد ماند پڑ گیا اور رو س سے معافی مانگ لی گئی۔ اسی اردگان کو جب ترکی کے نہتے شہریوں یا کردوں پر ظلم کرنا ہوتا ہے تو پھر اس سلطان کا غرور قابل دید ہوتا ہے۔
یہی حال مودی کا ہے۔ پاکستان کو ”گھس کر ماریں گے“ کی دھمکیاں دینے والا مودی پچھلے دو ماہ سے تبت میں چین کی فوجی مداخلت پر ابھی تک بیان جاری نہیں کر سکا۔
ان دونوں کا (اور بہت سے ملکوں میں ان کے ہم منصبوں کا) فلسفہ یہ ہے کہ کمزور کے گلے پڑ جاؤ، طاقتور کے پاؤں پڑ جاؤ۔
۵۔ سیکولرازم کا سوال سوشلزم ہی حل کرے گا
پہلی بات: بغیر لبرل جمہوریت کے سیکولرزم کا تصور ممکن نہیں۔ اس لئے جب اتا ترک، شاہ ایران یا جنرل ایوب کو ’سیکولر ڈکٹیٹر‘ پکارا جاتا ہے تو یہ سراسر سیکولرنظرئیے کی ہتک ہوتی ہے۔
دوم: اتا ترک تھا یا شاہ ایران، یہ سیکولر تھے بھی نہیں۔ انہوں نے مذہب کو ریاست کے تابع بنا کر مذہب کو سیاست کے لئے اسی طرح استعمال کیا جس طرح اردگان انتظامیہ کر رہی ہے۔ فرق طریقہ کار کا تھا یا یہ کہ مذہب کو کتنا استعمال کرنا ہے۔
اس کے برعکس ہندوستان کو پوسٹ کلونیل ریاست کے طور پر ایک عجوبہ سمجھا جاتا تھا جہاں نہرو عہد میں ریاست سیکولر، سوشلسٹ (سوشل ڈیموکریٹک) اور جمہوری لبرل تجربات کرتے ہوئے آگے بڑھتی دکھائی دی۔ نوے کی دہائی میں البتہ نہرو عہد کا بوریا لپیٹ دیا گیا اور آج ایک مذہبی جنونی، جس کے ہاتھ گجرات کی مسلمان اقلیت کے خون سے رنگے ہیں، ہندوستان کا وزیر اعظم ہے۔
نہرو وادی تجربہ ناکام ہو چکا ہے۔ مذہبی جنونیت کا پھیلاؤ اور نہرو سے لے کراتا ترک تک، سب مڈل آف دی روڈ تجربات کی ناکامی ایک مرتبہ پھر تقاضا کرتی ہے کہ لیون ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب کو زیر بحث لایا جائے۔
انقلاب روس کے اس اہم رہنما کا کہنا تھا کہ ’تیسری دنیا‘ (ٹراٹسکی کے وقت یہ اصطلاح مستعمل نہیں تھی) میں سیکولر ازم، جمہوریت، قومیت، جاگیرداری کے خاتمے اور معاشی ترقی کا حصول ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔ انڈیا اور پاکستان سے لے کر برازیل اور بولیویا تک…اکثر ریاستیں اور معاشرے تنزلی کا شکار ہیں۔ سماج بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ کم از کم’تیسری دنیا‘ کے سامنے دو ہی راستے ہیں جن کا ذکر روزا لکسمبرگ نے کیا تھا: سوشلزم یا بربریت۔
آیا صوفیہ میں جمعے کی نماز یا بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر تو بربریت کی محض علامتیں ہیں۔ جب تک مذہبی جنونیت اور سرمایہ دارانہ کینسر کا سوشلسٹ علاج نہیں ہو گا، یہ علامتیں ابھرتی رہیں گی۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔