فاروق سلہریا
دس سال پہلے گراونڈ زیرو کے قریب ایک مسجد بنائے جانے پر تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ نیو یارک کا گراونڈ زیرو وہ جگہ ہے جہاں گیارہ ستمبر کو دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ٹوئن ٹاورز واقع تھے۔ امریکہ کو چھینک بھی آئے تو دنیا کو بخار ہو جاتا ہے۔ تنازعہ چونکہ امریکہ میں کھڑا ہوا تھا، اس لئے پوری دنیا میں ایک بحث چل پڑی۔ معاملہ چونکہ مسجد کا تھا اس لئے پوری مسلم امہ جوش و جذبے کے ساتھ امریکہ کو طعنے دینے میں مصروف ہو گئی۔
بات آئی گئی ہو گئی۔ مسجد بھی بن گئی۔ اب کسی کو یاد بھی نہیں کہ اس مسجد پر کبھی کوئی تنازعہ کھڑا ہوا تھا لیکن آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں بدلنے کے فیصلے پر جو لوگ آج تالیاں پیٹ رہے ہیں، گراونڈ زیرو مسجد والے معاملے میں سینہ کوبی کر رہے تھے۔ امریکہ کو بتایا جا رہا تھا کہ مسجد بنانا مسلمانوں کا جمہوری حق ہے۔ سیکولر ازم کی تعریف (definition)امریکہ کو سنائی جا رہی تھی جس کے مطابق ہر مسلک اور فرقے کو عبادت کرنے کا حق ہے۔
عین یہ لوگ جو آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد بنانے پر تالیاں پیٹ رہے ہیں، چند دن سے اسلام آباد میں مندر بنانے کے خلاف فیس بک اور ٹوئٹر پر انتہائی نفرت انگیز پراپیگنڈہ کرنے کے علاوہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ کوئی مائی کا لال اسلام آباد میں مندر بنا کر دکھائے۔ ایک مجاہد نے تو ایک نغمہ بھی ریلیز کر دیا ہے جس کے بول یہاں نقل کرنا صحافتی اسولوں کی خلاف ورزی ہو گا۔
یقین کیجئے یہی لوگ جو مندر نہی بننے دیں گے کے فلک شگاف نعرے لگا رہے ہیں، بابری مسجد کی شہادت کا بھی ان کو شدید دکھ ہے لیکن منافقت کے ان عجائب گھروں کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ بابری مسجد کی شہادت اور آیا صوفیہ کے واقعے میں اس کے سوا کیا فرق ہے کہ جو کام ایل کے ایڈوانی نے تشدد کے ذریعے کیا، اردوگان نے وہی کام عدالت کے نام پر کر لیا ہے۔
کیا انسان سچ میں اتنا بڑا منافق ہو سکتا ہے کہ اسے اتنا بڑا تضاد دکھائی نہ دے؟
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔