پاکستان

بایاں بازو اور الیکشن: انتخابی ناکامی سے بڑی شکست حکمت عملی کا فقدان ہے

فاروق سلہریا

ایک امید سی تھی کہ شائد علی وزیر اورمحسن داوڑ جیت جائیں۔ایسا نہیں ہو سکا۔ غالباًدونوں کو ہرا دیا گیا۔ گذشتہ قومی اسمبلی میں یہ دو ترقی پسند آوازیں تھیں جو اس بار نہیں ہوں گی۔ محسن داوڑ باچہ خان کے پیروکار ہیں اور علی وزیر سوشلسٹ کاکن کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔

دھاندلی کے پیش نظر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو حقیقت میں کتنا ووٹ ملا البتہٰ دونوں نے بھر پور مہم چلائی اور دونوں نے اچھا ووٹ حاصل کیا۔

اگر بات کی جائے ان سیاسی جماعتوں کی جو خود کو مارکس وادی کہتی ہیں،ان کے لگ بھگ پچاس امیدوار قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر انتخاب لڑ رہے تھے۔ چارسدہ میں مزدور کسان پارٹی کے سالار فیاض نے دس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے۔علی وزیر کے علاوہ، یہ دوسرا قابل ذکر ووٹ تھا جو کسی سوشلسٹ امیدوار کو ملا۔ یاد رہے! چارسدہ ستر کی دہائی سے بائیں بازو کا ایک مرکز رہا ہے۔خوشی کی بات ہے کہ بائیں بازو کا یہ گڑھ آج بھی کسی حد تک محفوظ ہے۔

بائیں بازو کے دو نام،عمار علی جان اور امتیاز عالم،جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں،حقوق خلق پارٹی کی جانب سے لاہور اور بہاولنگر سے الیکشن لڑ رہے تھے،قابل ذکر ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ بائیں بازو کے انتخابی نتائج کی تفصیلات اس لنک پر دستیاب ہیں۔

یہ کہ بائیں بازو کا مایوس کن انتخابی کردار اس بات کا آئینہ ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں،ایک گھسی پٹی حقیقیت ہو گی مگر المیہ یہ ہے کہ بایاں بازو پچھلے بیس تیس سال سے نہ تو کوئی کارگرانتخابی حکمت عملی وضح کر سکا ہے نہ انتخابی حکمت عملی یا انتخابات کی سیاست بارے کوئی واضح موقف بنا سکا ہے۔ یہ شکست انتخابی شکست سے زیادہ بڑی ہے۔

یہ درست ہے کہ لطیف آفریدی یا چوہدری منظور احمد اے این پی یا پی پی پی کے پلیٹ فارم سے اسمبلی میں پہنچے (معلوم نہیں ثانی الذکر اب بھی شام کی محفلوں میں ٹراٹسکی کے حوالے دیتے ہیں یا نہیں)مگر آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی تک صرف علی وزیر ہی پہنچ سکے۔ان کی کامیابی بلا شبہ بائیں بازو کے لئے بہت حوصلہ افزا تھی لیکن ان کی کامیابی کی بڑی وجہ پشتون تحفظ موومنٹ کا ابھرنا تھا نہ کہ سوشلسٹ نظریات کی وزیرستان میں مقبولیت۔ علی وزیر کی کرشماتی شخصیت اور ان کے خاندان کی قربانیاں بھی بلا شبہ اہم تھیں۔ سب سے اہم یہ سبق تھا کہ بائیں بازو کے کارکنوں کو مقبول تحریکوں کی قیادت کے نتیجے میں ملنے والے رہنما کردار کو ووٹ میں بدلا جا سکتا ہے۔ دھاندلی کے باوجود۔ اب آئیے ذرا موجودہ انتخابات میں بعض رجحانات کو دیکھتے ہیں جو بائیں بازو کے غیر سنجیدہ پن کو ظاہر کرتے ہیں۔

پیرا شوٹ امیدوار

واضح رہے کہ راقم کی رائے میں انتخابات سے دور رہنے کی بجائے،اندریں حالات، انتخابات میں حصہ لینا بالکل درست عمل اور فیصلہ ہے لیکن اس کے لئے درست حکمت عملی بھی ہونی چاہئے۔ پیراشوٹ امیدوار انتخابات میں اتارنا غیر سنجیدگی کی انتہا ہے۔ پیرا شوٹ امیدواروں سے مراد وہ امیدوار ہیں جو متعلقہ حلقے میں نہ تو رہتے ہیں نہ سماجی طور پر وہاں بنیاد رکھتے ہیں۔ ایک بورژوا امیدوار تو یہ کر سکتا ہے کہ اس کی کوٹھی لاہور میں ہو اور وہ الیکشن ملتان سے لڑے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ہمہ وقت لاہورمیں رہیں اور الیکشن کے وقت انتخابی مہم چلانے اپنے آبائی شہر چلے جائیں۔

اسی طرح، اچانک انتخابات میں چند ایسے کامریڈز کے بارے میں پتہ چلے کہ وہ الیکشن لڑ رہے ہیں جنہیں محلے کے لوگ تو کیا خود بایاں بازو بھی نہ جانتا ہو۔ علی وزیر یا سالار فیاض کو اچھے ووٹ ملے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پیرا شوٹ امیدوار نہ تھے۔ بایاں بازو انتخابی قوت تب ہی بن سکے گا اگر وہ انتخابی سیاست کو جز وقتی مشغلے کے طور پر نہیں لے گا۔ درست حکمت عملی کی جانب بڑھنے کے لئے بہت زیادہ بحث مباحثے اور سنجیدہ تجزئے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر محض اس بات کو ہر مسئلے کا حل سمجھ لیا جاتا ہے کہ بائیں بازو میں اتحاد ہونا چاہئے۔ بائیں بازو کا اتحاد اہم مگر یہ ناکافی تجزیہ اور حل ہے۔

درست انتخابی حکمت عملی کی جانب قدم

پہلی بات: جب تک بایاں بازو ملک بھر میں امیدوار کھڑے نہیں کرے گا،تب تک وہ کوئی ایک حلقہ بھی نہیں جیت سکے گا۔یہ حکمت عملی کہ ہم ایک حلقہ میں چند سماجی کام کر کے الیکشن جیت جائیں گے، احمقانہ حد تک غلط حکمت عملی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ ساری جدوجہد ایک شخص کے گرد گھومنے لگتی ہے۔یوں ایک حد تک بورژوا جماعت اور سوشلسٹ جماعت کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے۔نظریات پیچھے چلے جاتے ہیں۔

بایاں بازو اس وقت تک ابتدائی انتخابی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکے گا جب تک وہ ملک بھر میں،ہر حلقے سے امیدوار کھڑے نہیں کرے گا۔ اس صورت میں کہ جب بائیں بازو کو ملک گیر سطح پر چار پانچ فیصد ووٹ پڑے گا، تب ہی دو چارحلقوں سے کامیابی ملے گی۔

اپنی موجودہ تنظیمی شکل میں اس کے اندر یہ سکت نہیں کہ وہ ہر حلقے سے امیدوار بھی کھڑے کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ ترقی پسند،سیکولر قوم پرست جماعتوں سے انتخابی اتحاد (جس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں،مثلا سیٹ ایڈجسٹ منٹ وغیرہ) بنایا جائے۔ قوم پرست پہلے سے اس حیثیت میں ہیں کہ چند نشستیں جیت سکتے ہیں۔ یہ صورت حال قوم پرستوں کے بھی مفاد میں ہے اور بائیں بازو کے لئے بھی سود مند۔ زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اس پت کئی بار بات ہو چکی ہے۔پاکستان میں بایاں بازو تب ہی طاقتور ہوا جب قوم پرست قوتوں سے اتحاد بنایا گیا۔ اس اتحاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے بایاں بازو قوم پرستی بارے لینن وادی موقف اختیار کرے اور اپنی نظریاتی گومگو کو ترک کرے۔

اس اتحاد کی تشکیل کے لئے بائیں بازو (جس کے پاس قائد زیادہ اور کارکن کم ہیں) اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلے۔ لاہور،اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ اتحاد تشکیل نہیں پا سکتے۔

اسی طرح، گراس روٹ سطح کے کام کو اہمیت دینا ہو گی۔ کچھ خاص پرتوں اور حلقوں کو ٹارگٹ کرنا ہو گا۔ جماعت اسلامی کی طرز پر کام نہیں ہو سکتا۔ بنیاد پرستوں کے پاس مسجد بھی ہے اور مدرسہ بھی۔ دو چار کلینک چلانے، یا سیلاب میں فنڈ اکٹھے کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ٹریڈ یونین، کسان اور طلبہ۔۔۔ان میں منظم کام کرنا ہو گا۔

نظریات کی ترویج کے لئے جدید میڈیا کا جدید استعمال کرنا ہو گا۔حالت یہ ہے کہ بائیں بازو کے معروف قائدین انگریزی زبان میں ٹوئٹر کے ذریعے سوشلزم پھیلا رہے ہیں۔ انسان سر ہی پیٹ سکتا ہے۔

مجوزہ انتخابی اتحاد کو انتخابات کے بورژوا کیلنڈر کی تاریخ کے مطابق متحرک ہونے کی بجائے مسلسل بنایدوں پر مزاحمت کا پلیٹ فارم بنانا ہو گا۔

یہ کام لمبا وقت اور انتھک محنت مانگتا ہے۔ پیٹی بورژوا قیادت کی طرح آئے روز پینترے بدلنے سے کچھ نہ ہو گا۔

امید ہے کہ موجودہ انتخاب میں جو پہل کی گئی ہے، اسے اب آگے بڑھایا جائے گا۔ مندرجہ بالا تجاویز پر بحث ہو گی اور بہتر تجزیہ،حکمت عملی اور طریقہ کار وضح کیا جائے گا،ورنہ عمر بھر کا یہ سفر رائیگاں تو ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔