فاروق طارق
پاکستان کے عام انتخابات کے انعقاد کے ایک روز بعد صورتحال کافی حد تک واضح ہو چکی ہے اور ایک تقسیم شدہ ووٹ نظر آرہا ہے۔ کسی ایک پارٹی کو بھی واضح اکثریت نہیں ملی ہے۔ سارا ووٹ دائیں بازوں کی پارٹیوں کے درمیان ہی تقسیم ہوا ہے۔ انتخابات کو لے کر مسلم لیگ ن کے خوابوں اور ریاست و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی کو شدید دھچکا لگا ہے۔
یہ انتخابات بنیادی طور پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا اطلاق کرنے والوں، مہنگائی کے ذمہ داروں اور ریاستی جبر کرنے والوں کے خلاف ایک واضح آواز بن کر ابھرے ہیں۔ لوگوں کا رد عمل واضح طور پر ان پالیسیوں کے خلاف ہوا ہے، جو پی ڈی ایم کی حکومت 16ماہ کے دوران نافذ کرتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نگران حکومت نے جو فیصلے کئے ہیں، ان سے بالکل واضح نظر آرہا تھا کہ یہ نگران حکومت بھی سابقہ پی ڈی ایم کے ہی معاشی فیصلوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔
یہ ریاستی جبر اور آئی ایم ایف کے خلاف ایک واضح ووٹ ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے ریاست کے ان فیصلوں کو بھی رد کیا ہے، جن میں عمران خان کو یکے بعد دیگرے تین سزائیں دی گئی ہیں۔ پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھین لیا گیا، امیدواروں کو مہم نہیں چلانے دی گئی اور ان کے اکثر لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ الیکشن سے پہلے ریاستی جبر کی ایک انتہاء تھی۔ اس کے باوجود عوام نے اس زیادگی کا جواب پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو ووٹ دے کر دیا ہے اور وہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔
یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی اب کوئی ایک پارٹی نہیں ہے۔ جو آزاد امیدوار جیتے ہیں ان کے بھی اکٹھے رہنے کا زیادہ امکان نظر نہیں آتا ہے۔ اب ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور آصف علی زرداری کی چالوں، نوازشریف اور جہانگیر ترین وغیرہ کی خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہو گا۔ یہ سب لوگ اکٹھے ہو کر ایک مرتبہ پھر ایک عوام دشمن حکومت بنانے کیلئے ان آزاد امیدواروں کی خریدو فروخت کا سلسلہ شروع کریں گے۔
ان انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو بھی ایک دھچکا لگا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے کے علاوہ باقی جماعتیں کوئی خاص ووٹ حاصل نہیں کر پائی ہیں۔ البتہ تحریک لبیک کو ہر حلقہ میں 5سے10فیصد تک ووٹ ملا ہے۔ جماعت اسلامی نے اس بار تنہاء پرواز کیلئے بڑی کوشش کی تھی۔ پورے 5سال جماعت نے مہم چلائی اور ان کا خیال تھا کہ جب وہ اپنے طور پر باہر آئیں گے تو انہیں اچھا رزلٹ ملے گا۔ تاہم ان کے خوابوں پر بھی ان انتخابات میں پانی پھر گیا ہے۔
یہ عام انتخابات دیر کے بعد،ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی کے ساتھ اور مسلم لیگ ن کو اقتدار میں لانے کیلئے ہوئے ہیں۔ نگران حکومت کے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے بڑے اچھے انتخابات کروائے ہیں، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ انتخابات وقت پر منعقد نہیں ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کے لوگوں کو بھی غبار باہر نکالنے کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک سوچی سمجھی کوشش ہی تھی کہ اس طرح کا الیکشن ہو جس میں بہت زیادہ تقسیم ووٹ ہو۔ یہ بھی کوشش تھیکہ پی ٹی آئی سے نشان چھیننے کی صورت میں جو آزاد امیدوار جیتیں گے ان کو شاید خریدو فروخت کرنا آسان ہوگا۔
ان انتخابات میں بایاں بازو بھی پی ٹی آئی کی اٹھنے والی لہر کی نظر ہی ہو گیا ہے۔ کسی جگہ بھی کوئی خاص رزلٹ نہیں آیا ہے۔ اگرچہ حقوق خلق پارتی نے لاہور کے ایک حلقے میں اچھی مہم چلائی۔ اس مہم میں ہزاروں لوگوں نے شرکت بھی کی، لیکن وہ بھی کوئی تین فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر سکے۔ یہی صورتحال عوامی ورکرز پارٹی اور برابری پارٹی کے امیدواروں کی بھی ہوئی ہے۔ یوں بایاں بازو کوئی نشست بھی نہیں جیت سکا ہے۔ شاید ایک نشست جو مارکسسٹ ایم این اے علی وزیر گزشتہ الیکشن میں جیتے تھے، وہ بھی اب پارلیمنٹ میں نظر نہیں آئیں گے۔
یہ انتخابات رائٹ ونگ نظریات کی بالادستی کا اظہار کریں گے۔ لوگوں نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ تو دیا ہے لیکن یہ کوئی انقلابی جوش و ولولے کے تحت نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی یہ کوئی لوگوں کا انقلابی ابھارتھا۔ یہ تو بورژوا تقسیم میں ایک گروپ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر لوگوں نے آواز اٹھائی ہے۔ اس قسم کی صورتحال عام طور پر نظر آتی ہے۔ یہ کوئی رائٹ اور لیفٹ کی تقسیم پر مبنی الیکشن نہیں تھا۔ یہ رائٹ ونگ کی آپس میں لڑائیوں میں ہی ایک دوسرے کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر عوام کا رد عمل تھا۔ اس کو ہم اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ بھی نہیں کہہ سکتا۔ چونکہ پی ٹی آئی کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ رجحان انتہائی وقتی اور صرف ان پر ہونے والے ریاستی جبر کے خلاف ہے۔ الیکشن کے بعد ابھی یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ اینٹی اسٹبلشمنٹ بنیاد پر جو ووٹ ان کو پڑا ہے اس سے منتخب ہونے والے نمائندے اسکے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
یہ انتخابات مستقبل میں عوام دشمن حکومت کو اقتدار میں لانے کیلئے ہی منعقد ہوئے ہیں۔ ان انتخابات سے ہمیں کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے، نہ اس سے کوئی سلسلہ بہتر ہوا ہے۔ ان انتخابات میں ملٹی اسٹیبلشمنٹ کی کھلی مداخلت پہلے سے کہیں زیادہ ہوئی ہے۔ انتخابات میں عوام کو ایک دفعہ پھر موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ اپنے استحصال کرنے والوں میں سے کسی ایک کا چناؤ کر لیں۔ یہ چناؤ بھی بڑا پیچیدہ اور کمپلیکس شکل میں نظر آیا ہے۔ جہاں ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے والی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت نے ایک دن بھی انتظار کئے بغیر ابھی سے بات چیت کا دور شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے آپس میں طے کر رکھا تھا کہ الیکشن میں ایک دوسرے کی کھل کر مخالفت کریں گے اور نتائج آنے کے بعد صورتحال کے مطابق فیصلہ کرینگے۔ اب آصف زرداری اور نوازشریف اور نام نہاد مصالحانہ پالیسیوں کا ایک عروج ان مذاکرات کے دوران ہمیں نظر آئے گا۔
یہ بھی تقریباً واضح ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو ہی بنایا جائے گا اور شاید آصف علی زرداری صدارت کے منصب پر اتفاق کر لیں گے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی، خیبرپختونخوا میں آزاد امیدواروں کی صورت میں پی ٹی آئی کی حکومت، پنجاب میں مسلم لیگ ن اور بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت بننے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔
تاہم یہ بھی واضح ہے کہ یہ حکومت تیزی سے نجکاری کرنے کیلئے آرہی ہے۔ یہ حکومت نیو لبرل ایجنڈےء پر مزید تیزی سے عملدرآمد کرنے کیلئے آرہی ہے۔ یہ حکومت نوازشریف کی قیادت میں ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئے آرہی ہے۔یہ کوئی بجلی، گیس اور دیگر اشیاء سستی کرنے والی حکومت نہیں ہو گی۔ نہ ہی عوام لوگوں کیلئے یہ حکومت کوئی مہنگائی کم کرنے کیلئے آرہی ہے۔ یہ صرف انتخابات سے پہلے کی باتیں تھیں۔ انتخابات کے بعد ان کا اصل چہرہ ہمیں نظر آئے گا کہ یہ کس طرح مل کر طبقاتی استحصال کو مزید تیز کرتے ہیں، یا امیروں کو مزید امیر اور غریبوں کو مزید غریب کریں گے۔
یہ جو حکومت اقتدار میں آرہی ہے، یہ شاید پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ رائٹ ونگ حکومت کے طور پر سامنے آئے گی۔ نوازشریف نے جو تھوڑا بہت لفاظی کی حد تک اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ چہرہ بنارکھا تھا اب کھل کر پرو اسٹیبلشمنٹ چہرے میں تبدیل ہوتے ہوئے الیکشن سے پہلے ہی ہمیں نظر آرہا ہے۔ اس کیفیت میں یہ کوئی ریڈیکل بورژوا حکومت بھی نہیں ہو گی۔ یہ ایک انتہائی دائیں بازو کی حکومت ہو گی، جو واضح طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ریاستی زمینوں پر قبضہ کرے گی اور ریاستی اداروں کو فروخت کرے گی۔ جو کارپوریٹ فارمنگ کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس میں بڑے پیمانے پر زمینیں جاگیرداروں اور عرب شیخوں کو تقریباً مفت میں ہی دے دی جائیں گی۔ پی آئی اے کو فروخت کیا جائے گا، اس کے ہوٹلے فروخت کئے جائیں گے۔ یہ ریلوے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، واپڈا کو بھی بیچنے کی کوشش کرینگے۔ گزشتہ عرصہ میں عبوری وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے جو ہوم ورک کیا ہے اور کو انجام تک پہنچاتے ہوئے یہ بڑے ادارے بیچیں گے۔ اس طرح یہ اثاثے فروخت کرنے اور لوٹ مار کرنے والی حکومت ہے۔ اس سے عوام کو کوئی امیدیں نہیں ہونی چاہئیں۔
اگرچہ بائیں بازو نے کسی حد تک ان انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ 40سے زائد امیدوار موجود تھے، لیکن یہ انتہائی کم تعداد تھی۔ ہمیں ایک دفعہ پھر پارلیمانی سیاست میں مداخلت کرتے ہوئے محنت کش طبقے میں اپنی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کو جاری رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹیوں کی نظریاتی بنیادیں مزید مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
آنے والی حکومت ایک سرمایہ دارانہ رائٹ ونگ حکومت ہو گی۔ اس کا ریڈیکل اصلاحات سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یہ کاؤنٹر ریفارمز کی ایک حکومت ہو گی، جسے ہم مکمل طور پر رد کریں گے۔ اس کے خلاف محنت کش طبقے کی تحریک کو تیز کریں گے۔ کسانوں کی تحریکوں کو تیز کریں گے اور عام لوگوں کی تحریکوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔