پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جمعہ کے روز صدارتی آرڈیننس اور کالعدم عسکری تنظیموں کی سرگرمیوں کے خلاف دارالحکومت مظفرآباد اور ضلع پونچھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ جمعرات کے روز کوٹلی میں احتجاجی مظاہرے کے شرکاء پر پولیس کے لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔
مزید پڑھیں...
پاکستان میں عدم جمہوریت کی 3 وجوہات: ریاست کی نیچر، اشرافیہ میں عدم اتفاق رائے، کمزور بایاں بازو
سنیے مدیر ’جدوجہد‘ فاروق سلہریا کا تجزیہ و تبصرہ بعنوان:’پاکستان میں عدم جمہوریت کی3وجوہات: ریاست کی نیچر، اشرافیہ میں عدم اتفاق رائے، کمزور بایاں بازو‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر ایکٹ‘ کی مذمت کر دی
’موجودہ پابندی والے قانونی فریم ورک کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون اور معیارات کے مطابق لانے کی کوشش کرنے کی بجائے حکومت پاکستان نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے نئے بل کی منظوری کو یقینی بنانے اور ایک ہفتے کے اندر صدارتی منظوری حاصل کرنے میں غیر معمولی رفتار کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کو اس طرح سے پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ قانون اسلام آباد میں روز مرہ کی سرگرمیوں میں خلل سمیت اجتماعات کو محدود کرنے یا پابندی لگانے کے حکام کے اختیارات کو بڑھاتا ہے، اور غیر قانونی اجتماع میں حصہ لینے کی زیادہ سے زیادہ سزا 6ماہ سے بڑھا کر 3سال قید تک بڑھا دیتا ہے۔‘
زمینیں خالی کرنے سے انکار، جبری قبضوں کے خلاف جدوجہد کا اعلان
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور انجمن مزارعین پنجاب کی پریس کانفرنس میں مزارعین، بے زمین ھاریوں اور چھوٹے کسانوں نے کہا کہ ہم کوئی بھی زمین خالی نہیں کریں گے اور ہم لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ہم کارپوریٹ فارمنگ کو رد کرتے ہیں، یہ مزارعین، زرعی مزدوروں اور چھوٹے کسانوں کے لیے زہر قاتل ہے اور ہماری زندگیوں کو تباہ کرنے کامنصوبہ ہے۔
غزہ میں اسرائیلی بربریت کے خلاف سب سے زیادہ مظاہرے برطانیہ میں ہوئے
’انٹرنیشنل ویو پوائنٹ‘ کے مطابق برطانیہ میں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کی سب سے بڑی تحریک بنی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 21 قومی سطح کے مظاہرے ہو چکے ہیں اور پولیس کا اندازہ ہے کہ 2700 احتجاج ہو چکے ہیں۔ قومی مظاہرے ایک لاکھ سے پانچ لاکھ افراد پر مشتمل ہوتے رہے ہیں۔
زمینوں پر ریاست کا جبری قبضے کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ہیں: ایچ آر سی پی
جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’ایچ آر سی پی پاکستان کسان رابطہ کمیٹی، انجمن مزارعین پنجاب اور تمام چھوٹے کسانوں اور بے زمین ہاریوں کے ساتھ کھڑا ہے جو اُن زمینوں پر ریاست کے جبری قبضے کی مخالفت کر رہے ہیں جن کے وہ مالک ہیں یا جو اُن کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہیں۔‘
ماہی گیروں کے عالمی دن پر ان کے حقوق اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے مطالبات
سندھ کے سیاسی سماجی رہنماؤں سول سوسائٹی کے نمائندوں نے وفاقی و صوبائی حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ سمندر، دریا سمیت جھلیوں سے مچھلی کا شکار کر کے گذر بسر کرنے والے ماہی گیروں کی سماجی معاشی حالت کو بہتر کرنے کے لیے پائیدار پالیسی بنائی کر مالی پیکیج کا اعلان کیا جائے۔ سندھو دریا پر ڈیم بنانے سمیت کینال نکالنے کے منصوبے کو ختم کر کے ڈیلٹا کی تباہی ماہیگیروں سمیت سندھ کے عوام کا قومی، سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی قتل کی سازش کو بند کیا جائے۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے رہنماؤں کی عوامی تحریک اور سندھیانی تحریک کے رہنماؤں سے ملاقات
دریائے سندھ کا قتل صرف سندھ نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ماحولیاتی تباہی کا باعث بنے گا۔ دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کو بحال کروانے کے لیے سندھیانی تحریک نے مثالی جدوجہد کی ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ، ارسا ایکٹ میں ترمیم، اور 6 نئے کینالوں کے خلاف ملک گیر جدوجہد کے سلسلے میں 16 فروری 2025 کو بھٹ شاہ میں منعقد ہونے والے ہاری کانفرنس کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔
امن و امان کے لیے پریشان اقتدار پر سامراجی تسلط کے اوزار
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دو وزراء نے حال ہی میں جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کے حق میں خصوصی اور ہنگامی ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے اس آرڈیننس کو امن و امان کے لیے انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کو شرپسند اور ذاتی مفادات کی وجہ سے امن و امان تباہ کرنے والے عناصر قرار دیا ہے۔ راولاکوٹ میں پر امن مظاہرین پر پولیس تشدد کی تمام تر ذمہ داری بھی مظاہرین پرعائد کرتے ہوئے اسے خطے کا ماحول خراب کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ تمام سیاسی جماعتوں (اسمبلی میں موجود) کا متفقہ آرڈیننس ہے اور جلد اس کو اسمبلی سے منظور کروایا جائے گا۔
جموں کشمیر: عوامی احتجاج کا موجب بننے والا صدارتی آرڈیننس کیا ہے؟
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی اجتماعات کے انعقاد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے۔ 29اکتوبر کو جاری کیے گئے اس صدارتی آرڈیننس میں عوامی اجتماعات، جلسے، جلوس وغیرہ منعقد کرنے کا عمل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پیشگی اجازت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق کسی فوری مطالبے پر احتجاج کرنے پر تقریباً پابندی ہی عائد کر دی گئی ہے، کیونکہ احتجاج کے لیے 7روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دینا لازمی ہوگا اور مطالبات بھی 7روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو لکھ کر دینا ہونگے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسی شرائط ہیں، جن کو کوئی بھی مظلوم انسان یا پھر وہ شخص جس کا حق چھینا گیا ہو، اس کے لیے پورا کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔