مزید پڑھیں...

مارکس کا ڈارون کو تحفہ: سرمایہ

”چارلز دارون کے نام۔ ان کے ایک دلی مداح کی جانب سے“۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کتاب کو چارلز دارون نے پوری طرح نہیں پڑھا کیونکہ کچھ صفحے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے اسی بات کو سنسنی خیز انداز میں پیش کرنے کے لئے سی این این کو یہ خبر دینے کی سوجھی۔
ڈارون نے کتاب وصول ہونے پر شکریہ کا جو نوٹ مارکس کو لکھا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈارون نے یہ کتاب کیوں نہیں پڑھی۔ ڈارون نے لکھا:’سرمایہ‘ پر آپ نے اپنی سابدار تحریر ارسال کی جو میرے لئے ایک اعزاز ہے۔ میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ میں اس تحفے کے لائق نہ تھا کہ میں سیاسی معیشیت بارے زیادہ نہیں جانتا۔
ڈارون نے مزید لکھا:”گو ہماری تحقیق ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتی مگر ہم دونوں سنجیدگی سے یہ چاہتے ہیں کہ علم میں اضافہ ہو کہ طویل المدتی بنیاد پر یہ اضافہ انسانیت کی خوشی میں اضافے کا باعث بنے گا“۔

آسٹریلیا: فلسطین کے لئے 20 ہفتوں سے مسلسل مظاہرے، وزیر اعظم کا حلقے میں داخلہ بند

انہوں نے ”روزنامہ جدوجہد“ سے بات کرتے ہو کہا:”آسٹریلیا میں فلسطین سے یکجہتی کے لئے مسلسل 20 ہفتوں سے ملک بھر میں مظاہرے جاری ہیں۔ ان مظاہرین کی وجہ سے میڈیا کی ساکھ ختم ہو کر رہ گئی ہے“۔
انہوں نے بتایا کہ آسٹریلین میڈیا میں اسرائیل کے حق میں سو فیصد کوریج دکھائی دے رہی ہے۔”آسٹریلیا کے ریاستی براڈ کاسٹر سے ایک صحافی کو فلسطین سے حمایت کی وجہ سے نکال دیا گیا ہے“۔
ان کا کہنا تھا:”ایسے تمام صحافی جنہوں نے جرنسلٹ یونین کی اس اپیل پر دستخط کئے تھے جس میں صحافیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ غزہ بارے صرف سچائی رپورٹ کریں گے،ان کو اب فلسطین بارے میڈیا میں بات کرنے سے روک دیا گیا ہے“۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلین وزیر اعظم کے انتخابی حلقے میں ان کے دفتر کا گھیرا دس دن سے جاری ہے۔”کل (21 فروری) میں بھی وہاں موجود تھا۔ یہ گھیراو دس دن سے جاری ہے۔ دس دن سے وزیر اعظم نے اپنے اس حلقے میں منہ دکھانے کی جرات نہیں کی“۔

راولا کوٹ کا گوردوارہ اور تقسیم کی ری پروڈکشن

وردوارے کی ایک دیوار پر مقبول بٹ شہید اور چے گویرا کے انمٹ امیج کندہ ہیں تو دوسری جانب ہتھوڑے اور درانتی کا انقلابی نشان۔
میرے ساتھ کچھ دوست تھے جن کا تعلق جے کے این ایس ایف سے ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ اس گوردوارے کی بحالی کے لئے کوئی مہم کیوں نہیں چلاتے؟
ان کا جواب سن کر اندازہ ہوا کہ تقسیم صرف 1947 میں نہیں ہوئی تھی۔ ہندوستان،پاکستان کے حکمران اسے روز میڈیا، نصابی کتابوں،فلموں اور دیگر نظریاتی آپریٹس کے ذریعے مسلسل ری پروڈیوس کرتے ہیں۔
”ہم نے ایک آدھ بار مطالبہ کیا،“ ایک کامریڈ نے جواب دیا”جس کی وجہ سے الٹا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہو گیا کہ یہ لوگ مسجد تو بنانے کی بات نہیں کرتے مگر گوردوارہ بنانا چاہتے ہیں“۔

@RoznamaJ: ہمیں ٹوئٹر پر فالو کریں

اس لئے ’روزنامہ جدوجہد‘ صرف ایک اخبار نہیں، ایک تحریک ہے جس کا مقصد ہے متبادل میڈیا کی تعمیر تا کہ عوام دشمن، عورت دشمن، امن دشمن، ماحولیات دشمن اور رجعتی قوتوں کے بیانئے کو بے نقاب کر کے ایک ایسے پاکستان کا وژن پیش کیا جا سکے جو جمہوری، سوشلسٹ، ماحول دوست، فیمن اسٹ اور سیکولر ہو۔

ہمیں فیس بک پر فالو کریں

’روزنامہ جدوجہد‘ پاکستان کا واحد ابلاغیاتی ادارہ ہے جو بلا ناغہ ترقی پسند، محنت کش اور سوشلسٹ نقطہ نظر کے ساتھ ایسی خبریں، تجزئے اور اطلاعات فراہم کرتا ہے جو مین اسٹریم سرمایہ دارمیڈیا سے یا تو غائب ہوتی ہیں یا اس انداز سے پیش کی جاتی ہیں کہ عوام کو گمراہ کیا جا سکے۔

لال خان تو زندہ ہے انقلاب کے نعروں میں

21 فروری 2024 کو عظیم انقلابی کامریڈ لال خان کی چوتھی برسی ہے۔جسمانی طور پر ہم سے جدا ہونے کے باجود کامریڈ لال خان اپنے نظریات کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔دنیا کی اور بالخصوص پاکستانی کی موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی،ثقافتی اور اخلاقی صورتحال کو سمجھنے کے لیے لال خان کا تجزیہ اور تناظر آج بھی حکمران طبقے کے دانشوروں سے ہزاروں گنا زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے جو لاکھوں رویے تنخواہ لیتے ہیں اور زندہ ہوتے ہوئے بھی سماج کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔لال خان کی تقریریں سن کر اور تحریریں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ابھی بھی زندہ ہیں اور اس کیفیت کا تجزیہ کر رہے ہیں۔پاکستان میں حکمران طبقے کی لڑائی کھل کر منظر عام پر آ چکی ہے۔یہ لڑائی نظریات کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ مختلف سامراجی ممالک کے نمائندہ دھڑوں کے درمیان دولت اور طاقت کے حصول کی لڑائی ہے۔یہ کالےدھن پر پلنے والی مافیا کی سیاسی قتدار میں حصہ داری کی لڑائی ہے۔

لال خان: افکار تیرے ہونے کی گواہی دینگے!

سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی ہر غلاظت کا خاتمے اورایک حقیقی انسانی معاشرے کے قیام کے ذریعے ہی ’ڈاکٹر لال خان‘ کی لازوال جدوجہد کو حقیقی خراج پیش کیا سکتا ہے۔

الیکشن 2024ء: بغاوت لیکن کس کے خلاف؟

پاکستان کے معاشی مسائل کو اگر دو لفظوں میں سمویا جائے تو وہ ہیں: داخلی و خارجی قرضوں کی دلدل اور ملکی وسائل پر حکمران اشرافیہ کا مکمل کنٹرول۔ جس ملک میں قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے مزید قرضے لینا پڑیں اور اصل قرضوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہوں، وہاں اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اسی طریقہ کار کے تحت اصلاح احوال کی کوئی بھی کوشش کیونکر کامیاب ہو سکتی ہے؟

دنیا بھر میں لاکھوں افراد کے فلسطین کے حق میں مظاہرے

وزیراعظم پیڈروسانچیز کی کابینہ کے کم از کم 6وزراء نے بھی مظاہرے میں حصہ لیا۔ ان کے جونیئر اتحادی شراکت داروں میں سے بائیں بازو کی سمر پارٹی کے 5اراکین کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی سوشلسٹ پارٹی کے وزیر ٹرانسپورٹ آسکر پیونٹے نے بھی مظاہرے میں حصہ لیا۔