اداریہ جدوجہد
ہر سنگین جرم کے بعد پاکستانی معاشرہ سکتے میں آ جاتا ہے اور پھرسخت سزاؤں کا شور بھی اٹھتا ہے۔ موٹر وے پر ہونے والے ریپ کیس نے ایک مرتبہ پھر لٹکا دو، سر عام پھانسی دو، والے بیانئے کو بڑھاوا دیا۔ اس بار البتہ خطرناک بات یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم (گو ان سے اسی کی توقع تھی) نے بھی اس بیانئے کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے تو نہ صرف ریپ کے مجرم کے لئے پھانسی بلکہ نامرد بنانے کی بھی تجویز دی ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر ضیا آمریت کے نظریاتی بچے ڈس انفارمیشن کا ایک سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ضیا دور میں مجرموں کو سر عام پھانسیاں دی گئیں اور ملک سے ریپ کا خاتمہ ہو گیا۔
پہلے ذرا عمران خان کے بیانئے کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ بیانیہ مالیخولیا کا نتیجہ ہی ہو سکتا ہے۔ ابھی تین سال بھی نہیں ہوئے کہ قصور میں ہونے والے زینب نامی بچی کے مجرم کو پھانسی دی گئی مگر ویسے ہی درجنوں واقعات اس کے بعد ہو چکے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب بچوں سے زیادتی کے واقعات، بالخصوص مسجد و مدرسے کے حوالے سے، سامنے نہ آئیں۔
دوم، 2014ء میں پاکستانی سینٹ کو بتایا گیا تھا کہ گذشتہ پانچ سال میں ایک بھی ریپ کے ملزم کو سزا نہیں دی جا سکی۔ جس ملک میں عدالتی نظام کا یہ حال ہو وہاں عمران کس کو نا مرد بنائیں گے؟ ریپ کے ملزم کو سزا دینے سے بھی قبل یہ بڑا مسئلہ ہے کہ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون اور اس کا خاندان مقدمہ ہی درج نہیں کرانا چاہتے۔
سوم، ان وجوہات کا خاتمہ کیا جائے جو جرم کو جنم دیتی ہیں۔ ریپ کلچر پدر سری نظام میں اپنی جڑیں رکھتا ہے۔ نہ صرف اس نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ خواتین اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ریاست کو عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
رہی بات سخت سزاؤں کی تو ہم انہی صفحات پر بارہا دہرا چکے ہیں کہ سخت سزاؤں سے جرائم کا خاتمہ نہیں ہوتا البتہ ان کے نتیجے میں مجرم زیادہ درندگی کے ساتھ جرائم کرنے لگتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر مرنا ہی ہے تو پھر آر یا پار۔
عالمی سطح پر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جن ممالک میں سخت سزائیں نہیں وہاں لوگ زیادہ امن کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ایران، سعودی عرب، پاکستان اور چین وغیرہ جہاں پھانسیاں عام سی بات ہیں، وہاں نہ تو جرم رکتا ہے نہ لوگ خوف سے آزاد زندگی گزارتے ہیں بلکہ عام طور پر سیاسی مخالفین کو پھانسی گھاٹ بھیج دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تو ملک کا پہلا منتخب وزیر اعظم بے گناہ پھانسی چڑھا دیا گیا تھا۔ عام شہریوں کی بات تو چھوڑہی دیجئے۔
اب آئیے ذرا اس بیانئے کی طرف جس میں ضیا آمریت کو گلوریفائی (Glorify) کیا جاتا ہے۔
اس دور کے شروع میں ہی ملک کی سب سے بڑی فلم سٹار شبنم کو ان کے گھر میں ان کے بیٹے اور شوہر کے سامنے ریپ کیا گیا۔ ریپ کے مجرم با اثر اور نام نہاد جاگیردار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں پھانسی تو کیا، سزا بھی نہیں ہوئی۔ ایک مجرم، فاروق بندیال، کو گذشتہ انتخابات میں عمران خان نے الیکشن ٹکٹ جاری کر دیا تھا (احتجاج کے بعد ٹکٹ واپس لے لیا گیا)۔ اس مجرم کی عمران خان کے ساتھ تصویر آج بھی ملک کی خواتین کا منہ چڑاتی ہے۔ ریپ کا شکار بننے والی لیجنڈری فلم سٹار یہ ملک ہی چھوڑ گئی۔
یہ ضیا آمریت ہی تھی کہ ملتان کے علاقے نواب پور میں خواتین کی بے حرمتی کا شرمناک واقعہ پیش آیا اور یہ بھی ضیا آمریت ہی تھی جس نے حدود آرڈیننس متعارف کرایا جس کا مطلب ہے اگر عورت ریپ ہونے کے بعد چار گواہ پیش نہ کر سکے تو وہ زنا کی مرتکب ہو گی جس کی سزا سنگساری ہے۔
جملہ معترضہ کے طور پر ہم اپنے قارئین کو یہ بھی یاد دلاتے جائیں گے کہ سخت سزاؤں کے علمبردار بنگلہ دیش سے معافی مانگنے پر بہت جز بز ہوتے ہیں اور ڈاکٹر شازیہ کے کیس میں، بقول شخصے، ان سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔