اداریہ جدوجہد
ہفتے کی شام علی آباد میں جاری تاریخی دھرنا ایک گومگو کی کیفیت میں ملتوی کر دیا گیا۔ اسیران رہائی کمیٹی، جو بابا جان سمیت 14 بے گناہ قیدیوں کے اہل خانہ پر مبنی ہے، نے جمعے کی رات مقامی مذہبی و سیاسی قیادت کے ہمراہ حکومت سے مذاکرات کئے۔ حکومت کی طرف سے تحریری معاہدہ کیا گیا ہے کہ 30 نومبر تک تمام قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کر دیا جائے گا۔
بظاہر یہ اس دھرنے کی کامیابی ہے۔
اس بظاہر کامیابی کے باوجود، ہماری اطلاعات اور ٹیلی فونک رابطوں کی بنیاد پر، ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہفتے کی شام ہنزہ میں گہری اداسی تھی اور نوجوان، بالخصوص، غصے میں تھے۔ دھرنے میں شریک خواتین بھی دھرنا ختم کرنے پر تیار نہ تھیں۔ بابا جان کی علیل والدہ، جو سخت سردی میں ہر وقت دھرنے میں موجود رہیں، احتجاج ختم کرنے پر بالکل بھی تیار نہ تھیں۔
بے شمار نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر اپنے غصے اور عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ یوں لگتا ہے کہ اکثریت حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ موجودہ نگران حکومت جو نومبر میں انتخابات کے بعد ختم ہو جائے گی، اس کے پاس کوئی اختیار نہیں لہٰذا جن چھ حکومتی وزرا نے معاہدے پر دستخط کئے ہیں وہ غائب ہو جائیں گے۔ ناقدین کے مطابق اصل قوتوں نے تو کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ اس لئے دس سال سے قید اسیران کی رہائی ممکن نہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو تین لوگوں کو رہا کر دیا جائے گا تا کہ غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔ اس معاہدے کا اصل مقصد دھرنا ختم کرانا اور اس تحریک کو دبانا تھا جو اب پورے گلگت بلتستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔
یہ تنقید اور شکوک و شبہات ایسے بے جا نہیں کیونکہ یہ ایک عجوبے سے کم نہ ہو گا اگر تمام قیدیوں کو بلا مشروط رہا کر دیا جائے۔ ہمارے خیال سے مذاکرات میں شریک قائدین مزاحمت نہیں کر پائے۔ حکومت اپنی چال میں کامیاب نظر آتی ہے۔
بابا جان اور دیگر بے گناہ قیدیوں کی رہائی کے لئے اب ایک نئی حکمت عملی بنانی ہو گی۔ یہ درست ہے کہ ہنزہ میں ایک نئی سیاسی روایت قائم ہوئی ہے جس کا اثر آنے والے کئی سالوں تک قائم رہے گا۔ ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہوا کہ بابا جان ہی گلگت بلتستان کے سب سے مقبول رہنما ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ان کو الیکشن لڑنے سے روک دیا ہے۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ پرامن مگر عوامی تحریک حکومت کو مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ یہ اہم سبق بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ تحریک کی قیادت انتہائی اہم ہوتی ہے۔ یوں نظر آ رہا ہے کہ ایک زبردست تحریک قیادت کی وجہ سے وقتی طور پر گومگو کا شکار ہو گئی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ اگر حکومتی وعدے ایفا نہ ہوئے تو تحریک پھر سے جنم لے گی۔ تحریک کے موجودہ مرحلے سے نہ صرف گلگت بلتستان کے لوگوں کو مندرجہ بالا سبق سیکھنے ہوں گے بلکہ اگلی بار پاکستان بھر میں بابا جان کی رہائی کے لئے کوشاں قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
قومی بلکہ عالمی سطح پر ہی یکجہتی پر مبنی ایک عوامی احتجاج اسیران گلگت بلتستان کی رہائی ممکن بنائے گی۔