حارث قدیر
آمنہ وحید کہتی ہیں کہ رواں سال ستائیس نومبر کو ہونیوالے طلبہ یکجہتی مارچ میں 13 اپریل کو مشال خان کے نام سے منسوب کرنے کا مطالبہ بھی کریں گے۔ آمنہ وحید لاہور کی بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی (بی این یو) میں لبرل آرٹس کی طالبہ ہیں۔ طلبہ سیاست میں گزشتہ تین سال سے ایک متحرک کردار ادا کر رہی ہیں اور رواں سال بائیں بازو کی طلبہ تنظیم پروگریسیو سٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) کی نائب صدر منتخب ہوئی ہیں۔
پی ایس سی ملک بھر کی ترقی پسند طلبہ تنظیموں پر مشتمل طلبہ ایکشن کمیٹی کی اولین رکن ہے۔ گزشتہ تین سال سے آمنہ وحید بھی ان طلبہ میں شامل ہیں جو طلبہ یکجہتی مارچ منعقد کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز ’روزنامہ جدوجہد‘ نے آمنہ وحید کا ایک خصوصی انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
ستائیس نومبر کو طلبہ کا مارچ کن مقاصد کے تحت کیا جا رہا ہے؟
آمنہ وحید: ہمارا یہ پہلا مارچ نہیں ہے، ہم نے گزشتہ دو سال بھی طلبہ یکجہتی مارچ منعقد کئے ہیں۔ 2018ء میں لاہور سمیت چند شہروں میں یہ مارچ منعقد ہوئے۔ 2019ء میں ہمیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور طلبہ ایکشن کمیٹی کے قیام کی وجہ سے ملک کے 56سے زائد شہروں میں طلبہ یکجہتی مارچ منعقد کئے گئے جن میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی۔ گزشتہ سال کے مارچ کی وجہ سے طلبہ یونین کا مطالبہ نہ صرف مین سٹریم بحث کا حصہ بنا بلکہ سندھ اسمبلی میں طلبہ یونین کی بحالی کیلئے قرارداد بھی پیش کی گئی۔ ہم ایک لمبے عرصے کے بعد طلبہ کے چھینے گئے بنیادی حق کو قومی مباحثوں میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
طلبہ مارچ کے مطالبات کیا کیا ہیں؟
آمنہ وحید: ہمارے مطالبات وہی ہیں، جو پہلے بھی تھے۔ مرکزی مطالبہ طلبہ یونین کی بحالی کا ہے۔ ٹیچرز کی یونینز موجود ہیں، مزدوروں کی یونینز ہیں، تعلیمی اداروں میں کلریکل سٹاف کی بھی ایسوسی ایشنیں موجود ہیں لیکن طلبہ کو یونین سازی کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس لئے ہم اس مطالبہ پر بھرپورجدوجہد کریں گے کہ طلبہ کو یونین سازی کا حق دیا جائے۔
آن لائن کلاسز کے خاتمے اور انٹرنیٹ کی سہولیات کی فراہمی کا نیا مطالبہ بھی اس مرتبہ ہم نے شامل کیا ہے۔ عالمی وبا کی صورتحال کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہوئے اور آن لائن کلاسوں کا اجرا کیا گیا لیکن کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان، سابقہ فاٹا اوردیگر پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک موجود نہیں جس کی وجہ سے انہیں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فیسوں میں اضافہ ختم کرنا، ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتیوں کا خاتمہ کرنا۔ہاسٹل میں طلبا و طالبات کے داخلے کیلئے اوقات کار کی پابندی کا خاتمہ، نسلی اور لسانی بنیادوں پر طلبہ کی پروفائلنگ کا خاتمہ، طالبات کی ہراسمنٹ روکنے کیلئے ہراسمنٹ کمیٹیز کا قیام، یونیورسٹی کیمپس میں اسلحہ کلچر کا خاتمہ اور بالخصوص تیرہ اپریل کو، جس دن مشال خان کو شہید کیا گیا تھا، مشال خان کے نام سے منسوب کرنیکا مطالبہ ہمارے مطالبات میں شامل ہے۔
مختلف شہروں میں مارچ ہو رہا ہے، کیا سب جگہوں پر ایک ہی مطالبات ہیں یا کچھ مختلف ہیں؟
آمنہ وحید:پاکستان کے چاروں صوبوں اور زیر انتظام علاقوں میں مارچ ہو رہا ہے۔ کوشش ہے کہ تمام علاقوں میں طلبہ کو درپیش مسائل کو چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل کیا جائے۔ اس کے باوجود دیگر شہروں میں کچھ مطالبات اضافی بھی رکھے گئے ہیں لیکن مرکزی مطالبات تمام جگہوں پر ایک ہی ہیں۔
گزشتہ دو سال کے مارچ اور موجودہ مارچ میں بڑا فرق کیا محسوس ہو رہا ہے؟
آمنہ وحید: گزشتہ سالوں اور موجودہ سال میں بڑا فرق عالمی وبا ہے۔ طلبہ مسائل پہلے بھی موجود تھے لیکن اس طرح سے کھل کر سامنے نہیں آتے تھے یا طلبہ ان مسائل کو اتنا سنجیدہ نہیں لیتے تھے یا جدوجہد پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ اس مرتبہ طلبہ کو مسائل کا زیادہ کھل کر سامنا کرنا پڑا ہے۔ طلبہ تو گھروں سے دور جا کر انٹرنیٹ کی سہولت حاصل کر سکتے تھے لیکن طالبات کیلئے یہ زیادہ بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ اس وجہ سے اس مرتبہ مسائل کے ساتھ طلبہ کی جڑت زیادہ ہوئی ہے البتہ مہم چلانے میں کچھ مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑا۔ کورونا کی وجہ سے مہم میں وہ تیزی نہیں رہی لیکن ہم نے آن لائن احتجاج کا سلسلہ اور تحریک کو جاری رکھا۔ پہلے آن گراؤنڈ سارا سال کام کرتے تھے لیکن اس مرتبہ آخری چند دنوں میں یہ ساری مہم جاری رکھنے پڑرہی ہے۔
کچھ شہروں میں طلبہ یکجہتی مارچ ہو رہا ہے اور کچھ شہروں میں طلبہ یونین بحالی کے عنوان سے ایسا کیوں؟
آمنہ وحید: طلبہ ایکشن کمیٹی کا قیام صرف ایک مارچ کرنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا، ایکشن کمیٹی کی الگ سے کوئی سرگرمیاں نہیں طے کی گئی تھیں۔ اس مرتبہ جب مارچ کے دوبارہ انعقاد کیلئے کوششیں شروع ہوئیں تو دیگر چند شہروں کی طلبہ تنظیموں نے یونینز کے نام پر مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے گزشتہ دو سال کے تسلسل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے ساتھ ملتان، ڈی آئی خان اور کچھ دیگر شہروں میں جہاں پی ایس سی موجود ہے وہاں طلبہ یکجہتی مارچ کے عنوان سے مارچ ہو رہے ہیں جبکہ دیگر کچھ جگہوں پر طلبہ یونین بحالی کے عنوان سے مارچ ہو رہے ہیں۔ مطالبات ہر جگہ ایک ہی ہیں، صرف نام الگ الگ رکھا گیا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف والی بات بھی نہیں ہے، ایکشن کمیٹی میں شریک تمام طلبہ تنظیموں کا حق بھی ہے کہ وہ اپنے طور پر یہ فیصلہ کر سکیں۔ ہماری یہ جدوجہد مشترکہ ہے اور مشترکہ بنیادوں پر ہی اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
کورونا وائرس کی دوسری لہر کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہو گئے ہیں، مارچ بھی متاثر ہونگے؟
آمنہ وحید: تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے مسائل تو ہیں۔ مارچ کے حوالے سے حتمی فیصلہ سنٹرل کمیٹی کے اجلاس میں ایک یا دو دنوں کے اندر کر دیا جائے گا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے صرف تعلیمی اداروں کو ہی بند کیا جا رہا ہے۔ نجی کاروباری دفاتر اور مارکیٹیں بند نہیں کی جا رہی ہیں،نہ ہی دیگر سرگرمیوں اور اجتماعات پر پابندی عائد کی جا رہی ہے کیونکہ وہاں سے رد عمل آنے کا خدشہ ہے۔ تعلیمی ادارے آسان ہدف ہیں جن کو بند کر کے حکومتی کارکردگی ظاہر کی جا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے طلبہ کو اپنے اپنے علاقوں میں جانا پڑ رہا ہے۔ ہاسٹلز کو خالی کرنے کے نوٹس آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ اس لئے کچھ طلبہ کا یہ اسرار ہے کہ ستائیس نومبر کو آن لائن مہم چلائی جائے اور مارچ کو نو فروری تک ملتوی کیا جائے۔ نو فروری کو طلبہ یونین پر پابندی عائد ہوئی تھی اور اسی دن مارچ کئے جائیں۔ ہمارے پاس یہ آپشن بھی موجود کہ ستائیس نومبر کو جتنی بھی تعداد ہو بھرپور مارچ کیا جائے اور اپنے مطالبات کو حکومتی ایوانوں تک بھرپور طریقے سے پہنچایا جائے۔
طلبہ یونین کی بحالی سمیت دیگر مطالبات دائیں بازو کی تنظیموں کے بھی ہیں انہیں شامل کیوں نہیں کیا جا رہا؟
دائیں بازو کی تنظیموں اور ہمارے درمیان بنیادی فرق نظریاتی ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی بھی بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کو سرگرمیوں سے روکنے کیلئے ہی لگائی گئی تھی۔ جمعیت سمیت دیگر دائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں تو آج بھی تعلیمی اداروں میں موجود ہیں۔ جمعیت کی غنڈہ گردی پنجاب یونیورسٹی میں چل سکتی ہے لیکن اگر ہم سٹڈی سرکل منعقد کریں تو یونیورسٹی انتظامیہ سمیت سب کیلئے مسئلہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم ہراسمنٹ کی بات کرتے ہیں جس پر انکا سخت اختلاف ہوتا ہے۔ طالبات کیلئے ہاسٹل کے اوقات کی پابندی کا خاتمہ کرنے سمیت دیگر ترقی پسند مطالبات اور سوشلزم سے ہی انہیں سخت اختلاف ہے۔ دائیں بازو کی تنظیموں کی انتہا پسند سوچ اور سرگرمیوں کی وجہ سے بھی ہمارا ان کے ساتھ ملنا ممکن نہیں ہے۔ ہم تمام طلبہ تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں، ہمارے مطالبات سے جو طالبعلم یا طالبہ اتفاق کرے اسے ہمارے مارچ میں شریک ہونا چاہیے، اس جدوجہد کا حصہ بننا چاہیے لیکن دائیں بازو کی تنظیموں کو ہمارے مطالبات سے ہی اختلاف ہے۔
طالبات کو درپیش مسائل کیا ہیں اور آپ کے خیال میں کیسے حل ہو سکتے ہیں؟
آمنہ وحید: طالبات کا سب سے بڑا مسئلہ ہراسمنٹ کا ہے، چاہے وہ ٹیچرز کی طرف سے ہو یا طلبہ کی طرف سے ہو، یا پھر انتظامیہ کی طرف سے ہراسمنٹ کی شکایت پر اختیار کیا جانے والا رویہ ہو۔ طالبات کو ہاسٹلز میں اوقات کار کی پابندی عائد کئے جانے کی وجہ سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بجائے اسکے کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کو محفوظ ماحول فراہم کیا جائے، شہروں کو طالبات کے رہنے اور کام کرنے کیلئے محفوظ بنایا جائے، الٹا طالبات پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ مورل پولیسنگ کی جاتی ہے، مثال کے طور پر فیصل آباد کی جی سی یونیورسٹی میں ایک ٹیچر نے پابندی عائد کر دی تھی کہ انکی کلاس میں کوئی طالبہ دوپٹہ اوڑھے بغیر نہیں آسکتی، جینز پینٹ پہن کر بھی کوئی طالبہ نہیں آسکتی، ورنہ وہ نمبر نہیں دینگے۔ یہ تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ بی این یو جیسی جامعات میں بھی ہراسمنٹ کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ کمیٹیزتو بن جاتی ہیں لیکن طالبات کیلئے وہ ماحول مہیا نہیں کیا جاتا جس میں وہ کھل کر اپنے ساتھ ہونے والے مسائل پربات کر سکیں۔ یونیورسٹی آف بلوچستان کا مسئلہ سب کے سامنے ہے، ویڈیوز بھی دکھائی گئیں لیکن انہیں کوئی انصاف نہیں ملا،بالآخر والدین نے انہیں یونیورسٹی سے ہی ہٹا دیا۔ ریپ کیس کی وجہ سے والدین مزید ڈر جاتے ہیں۔ سی پی او لاہور نے جو باتیں کیں وہ پورے ملک کی خواتین کیلئے باعث تشویش ہیں۔ علاقوں کو محفوظ بنانے کی بجائے خواتین اور طالبات پرپابندیاں عائد کرنا امتیازی سلوک ہے اور ہم اس کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔
طلبا و طالبات کیلئے کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
آمنہ وحید: میں یہی پیغام دینا چاہوں گی کہ گزشتہ دو سال سے ہم لوگ نکل رہے ہیں۔ میں ایک پنجابی طالبہ ہونے کے ناطے یہ سمجھتی ہوں کہ ہم بلوچستان، کے پی کے، جی بی اور کشمیرکے طلبا و طالبات کے حقوق کیلئے باہر نکلیں۔ اگر پنجاب سے اس طرح کی آواز ابھرے گی تو اس کا بڑا پیغام جائے گا۔ گزشتہ سال مارچ کی وجہ سے وزیراعظم نے بھی ٹویٹ کیا، سندھ اسمبلی میں بل پیش ہوا، ایک نئی بحث کھلی۔ اگر کوئی طلبہ مارچ میں نہیں بھی آسکتا تو کم از کم مطالبات پر ضرور غور کرے۔ ساٹھ فیصد طلبہ کے پاس یونیورسٹی کیمپس اور تعلیم کی سہولت موجود نہیں ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جب تک سب لوگ آزاد نہیں ہوتے، سب لوگوں کیلئے بہتری نہیں آتی تو چند لوگوں کی آزادی اور چند لوگوں کی بہتری ہمارے لئے بے معنی ہے۔ میری اپیل ہے کہ 27 نومبر کو طلبہ ملک بھر میں نکلیں، ہمارے مطالبات کو پڑھیں اور دیکھیں اگروہ مطالبات درست ہیں توان کے حصول کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ہماری یہ جدوجہد مسلسل ہے، اس کا کوئی اختتام نہیں ہے، اس وقت تک ہم یہ جدوجہد جاری رکھیں گے جب تک یہ تمام مسائل حل نہیں ہو جاتے۔