دانش ارشاد
حال ہی میں پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے الیکشن کمیشن نے قوم پرست جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کی ہے۔ اس منسوخی کی وجہ پاکستانی زیر انتظام کشمیرکے الیکشن رولز میں ترمیم ہے۔ الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے نئے قوانین متعارف کروائے گئے ہیں جن کے مطابق صرف وہی جماعتیں رجسٹرڈ ہو سکتی ہیں جو الحاق پاکستان کے نظریہ پر یقین رکھتی ہوں اور کوئی ایسی جماعت رجسٹرڈ نہیں ہو سکتی جس کے آئین میں نظریہ الحاق پاکستان پر ایمان شامل نہ ہو۔
رجسٹریشن کی منسوخی کا نشانہ بننے والی ایک جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے وائس چیئرمین سلیم ہارون کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے نئے قوانین کے تحت رجسٹریشن کیلئے اپلائی نہیں کیا تھا کیونکہ ان کی جماعت انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنتی۔ تاہم الحاق پاکستان پر یقین نہ رکھنے والی جماعت جموں کشمیر لبریشن لیگ کی رجسٹریشن کی گئی ہے اس حوالے سے جب لبریشن لیگ کے راہنما سے پوچھا کہ کیا انہوں نے الحاق پاکستان پر یقین کا حلف نامہ جمع کروایا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے ایسا کوئی حلف نامہ نہیں جمع کروایا۔ ان کی جماعت کا منشور ہے کہ ’آزاد حکومت‘کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروایا جائے اور حق خود ارادیت دیا جائے۔ الحاق پاکستان، الحاق ہندوستان اور خود مختاری حق خود ارادیت ملنے کے بعد کی باتیں ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ایک اہلکار کے مطابق الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کیلئے چالیس کے قریب سیاسی جماعتوں کی درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 25 جماعتوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے، باقی جماعتوں پر مختلف اعتراضات یا دستاویزات کی کمی کی وجہ سے رجسٹریشن نہیں دی گئی۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن میں 51 جماعتیں رجسٹرڈ تھیں جن میں کئی قوم پرست جماعتیں شامل تھیں کیونکہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1987ء میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی۔ تاہم ’آزاد حکومت‘کی سرکاری ویب سائٹ پر اب بھی پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی 37 سیاسی جماعتوں کے نام موجود ہیں جن میں کئی قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں۔
پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین میں تیرہویں آئینی ترمیم کے بعد عبوری آئین کی دفعہ 28 کے تحت الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کے لوازمات میں بنیادی سوال ”کیا پارٹی الحاق پاکستان اور نظریہ پاکستان پر یقین رکھتی ہے…؟“ رکھا گیاہے۔ عبوری آئین کی دفعہ 28 کی ذیلی دفعہ 4 کے تحت پارٹی رجسٹریشن کی منسوخی کی وجوہات میں لکھا ہے کہ ”پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے گی اگرپارٹی نظریہ پاکستان اور نظریہ الحاق پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہے نیز پاکستان کی سالمیت، پاکستان اور آزاد کشمیر کی عدلیہ و مسلح افواج کے خلاف تضحیکانہ رویہ اختیار کر رہی ہے۔“
حالیہ رجسٹریشن کے عمل سے قبل الیکشن کمیشن میں خود مختار ریاست کی حامی کئی قوم پرست جماعتیں بھی شامل تھیں۔ تاہم انہیں اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کیلئے نظریہ الحاق پاکستان کا حلف دینا لازمی شرط ہے لیکن الیکشن رولز کی حالیہ ترمیم سے قبل سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کیلئے ایسی شرط نہیں تھی۔
پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کوئی بھی امیدوار جب کاغذات نامزدگی جمع کرواتا ہے تو اس وقت الحاق پاکستان پر یقین کے حلف نامے پر دستخط کرنے ہوتے ہیں اگر الحاق پاکستان پر یقین سے انکار کر دیا جائے تو کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے جاتے ہیں۔ الیکشن رولز میں یہ شق سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان نے 1974ء میں اپنے دور حکومت میں اسمبلی کی منظوری سے شامل کروائی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل 1960ء میں جب پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں انتخابات ہوئے تو اس وقت پاکستان کی جانب سے دیے گئے الیکشن رولز میں کوئی ایسی شرط شامل نہیں تھی لیکن پہلی منتخب حکومت نے الیکشن رولز میں ترمیم کرتے ہوئے ”الحاق پاکستان پر یقین“ کو کاغذات نامزدگی اور اسمبلی ممبر کے حلف نامے میں شامل کیا۔ یوں ’آزاد ریاست جموں و کشمیر‘کی اسمبلی میں منتخب ہونے والا شخص ریاست جموں کشمیر کے بجائے پاکستان سے وفاداری کا حلف لیتا ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت متنازع ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام نے کرنا ہے۔ اس کے باوجود الحاق پاکستان کے علاوہ بات کرنے کو پاکستان مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ سینئر قانون دان جسٹس ریٹائرڈ مجید ملک کہتے ہیں کہ ”انتخابات میں یہ شرط عائد کرنا اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف اور بنیادی انسانی حقوق کی نفی بھی ہے اور جب اسمبلی میں یہ ترمیم لائی جا رہی تھی تو ہماری جماعت لبریشن لیگ نے اس کی مخالفت کی تھی۔“
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے الیکشن رولز میں شامل کی گئی ان شرائط کی وجہ سے ریاست میں ایک مخصوص طبقے کی آواز کے سوا سب کو دبایا گیا ہے اور لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع نہیں مل پاتا۔