خبریں/تبصرے

جانی خیل: 10 ہزار مظاہرین کا 4 لاشوں کے ہمراہ لانگ مارچ، پولیس نے رکاوٹیں لگا دیں

لاہور (جدوجہد رپورٹ) خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں کے علاقہ جانی خیل میں گزشتہ ہفتے 4 نوجوانوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد ہونے کے بعد احتجاجی دھرنے میں شامل قبائلی افراد اور ہلاک ہونیوالے نوجوانوں کے لواحقین نے لاشوں کے ہمراہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کر دیا ہے۔ اتوار کے روز مارچ کے شرکا نے 2 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ پولیس نے دریائے تونچی کے مقام پر مارچ کے شرکا کو روکنے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ کئی گھنٹوں تک پولیس نے مظاہرین کو روکے رکھا گیا، تاہم بعد میں انہیں اپنے راستے پر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

پولیس نے لانگ مارچ کا راستہ روکنے کیلئے مختلف شاہرات پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں، موبائل فون سروس بھی معطل کی گئی تھی، جبکہ مظاہرین کے ساتھ مارچ میں شریک ہونے کیلئے جانیوالے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کو بھی پولیس نے حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔

مظاہرین گزشتہ اتوار کو 4 نوجوانوں کے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، گزشتہ اتوار کو جانی خیل میں احمد اللہ خان، محمد رحیم، رفعام اللہ اور عاطف اللہ، جن کی عمریں 13 سے 17 سال کے درمیان تھیں، کی گولیوں سے چھلنی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ یہ نوجوان 3 ہفتے قبل لاپتہ ہو گئے تھے۔

مظاہرین نے 6 روز تک لاشیں مقامی تھانے کے سامنے رکھ کر احتجاجی دھرنا دیا، مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت اتوار کے روز چاروں نوجوانوں کی لاشوں کے ہمراہ اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا گیا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو شہدا پیکیج دینے، ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے، خطے میں امن اور استحکام بحال کرنے کے لیے اقدامات کئے جائیں۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے مارچ میں شامل لطیف وزیر نے بتایا کہ ”مارچ شروع میں پرامن اور آرام سے جاری تھا لیکن جب ٹوچی پل کے پاس پہنچے تو رکاؤٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے روکا گیا۔ مظاہرین کو زبردستی روکا گیا اور منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کیا گیا، مارچ کو روکنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ صوبائی حکومت سے مایوس جانی خیل قبیلے کے بڑوں نے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا فیصلہ کیا اور قاتلوں کی گرفتاری تک تدفین نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔“

بنوں شہرمیں کئی مقامات پر پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات ہے۔ مظاہرین نے اتوار کی صبح 9 بجے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا۔ مظاہرین نے مقتول نوجوانوں کی لاشیں ٹریکٹر ٹرالی پر رکھی ہیں اور اس قافلے میں تقریباً 10 ہزار افراد کاروں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہیں۔

دوسری جانب کوہاٹ پولیس نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو اس وقت اپنی تحویل میں لے لیا جب وہ مظاہرے میں شرکت کرنے کے لیے جا رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق کرک پولیس نے ایم این اے محسن داوڑ کو بھی کرک ٹول پلازہ پر روک لیا ہے۔ محسن داوڑ بھی بنوں جانی خیل امن مارچ میں شرکت کے لیے آ رہے تھے۔

مظاہرین کی قیادت کرنیوالے ملک موید خان وزیر نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”بنوں پولیس کی جانب سے سڑکوں پر لگائی گئی کچھ رکاوٹیں ہٹائی ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اس وقت پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین کو روکا ہوا ہے اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جاری ہے۔ قبائل پولیس ایکشن کے سبب سخت غصے میں ہیں اور مشران نے ان کو قابو کیا ہوا ہے۔ ہم حکومت سے کہتے ہیں کہ ہمارا راستہ نہ روکے، ہم پر امن لوگ ہیں اور احتجاج ہمارا بنیادی حق ہے، یہ حق ہم سے نہ چھینا جائے۔ مشران، حکومتی اور انتظامیہ کے نمائندے پہنچ چکے ہیں اور ان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ’جرگہ کامیاب ہوگا یا نہیں اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔“

ملک موید کا کہنا تھا کہ ”سات دن سے ہم لاشیں رکھ کر بیٹھے تھے اور ہمیں قتل ہونے والے لڑکوں کے بدلے پیسے لینے کا کہا جا رہا تھا لیکن ہم نے ان سب کو انکار کیا ہے کیونکہ ہمیں پیسے نہیں امن چاہیے۔ 2009ء سے اب تک ہم نے تقریباً 1000-1100 لاشیں اٹھائی ہیں، ہمارے نوجوانوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو کبھی کسی بہانے سے اور کبھی کسی بہانے سے مارا جا رہا ہے۔ ہم آئے روز لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ جانی خیل ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اور یہاں فوج کی 9-10 چیک پوسٹیں بنائی گئی لیکن امن پھر بھی نہیں ہے۔“

ان کا کہنا تھا کہ’’ہمارے مطالبات بڑے واضح ہیں۔ ہمیں گڈ اور بیڈ طالبان کی ضرورت نہیں ہے یہ سب ریاست کی پیداوار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علاقے سے فوج کی چیک پوسٹیں ختم کی جائیں پھر ہم خود اپنے علاقے میں امن قائم کر لیں گے۔“

Roznama Jeddojehad
+ posts