اداریہ

فیض آباد سے چوک یتیم خانہ تک: کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی

اداریہ جدوجہد

معروف شاعر عبیداللہ علیم نے 1971کے پس منظر میں کہا تھا:

میں کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قیل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں

نوے کی دہائی میں وہ یہ غزل سناتے تو کہتے کہ یہ غزل ابھی تک تازہ ہے۔ تب وہ کراچی کے حالات کے حوالے سے یہ کہتے۔ زندگی نے انہیں گیارہ ستمبر کے بعد کا پاکستان دیکھنے کہ مہلت نہیں دی ورنہ وہ اس بات پر شدید افسردہ ہوتے کہ ان کی یہ غزل تازہ کی تازہ ہے۔

گذشتہ روز جوسانحہ لاہور کے چوک یتیم خانہ میں رونما ہوا اس کے بعد بہت سے لوگوں نے اس غزل کے چند اشعار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پرشائد یہ جانے بغیرشئیر کئے کہ اس غزل کا پس منظر کیا تھا۔ یہ کہ عبیاللہ علیم کی یہ غزل تازہ کی تازہ ہے دراصل پاکستان کا اصل المیہ ہے۔

اس ریاست کے بدقسمت شہری نہ جانے کس جرم کی سزا پا رہے ہیں کہ ایک ہی خونی اسکرپٹ بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ فرینکنسٹائن پیدا کئے جاتے ہیں،پالے جاتے ہیں۔ کبھی’افغان جہاد‘اور’کشمیر کی آزادی‘کے نام پرفرینکنسٹائن کو شہریوں کا خون پلا کر جوان کیا جاتا ہے۔ پھر فرینکنسٹائن قابو سے باہر ہو جاتا ہے تو مزید خون خرابہ ہوتا ہے۔ کبھی فرقہ واریت کی شکل میں۔ کبھی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے روپ میں۔

تازہ فرینکنسٹائن تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی شکل میں تشکیل دیا گیا۔ اگر ماضی کے فرینکنسٹائن خارجی پالیسیوں کے لئے تشکیل دئیے گئے تھے تو ٹی ایل پی کا مقصد داخلی مقاصد کا حصول تھا۔ انجام ایک ہی ہوا۔

جس ٹی ایل پی کو فیض آباد چوک سے پیسوں بھرے لفافے دے کر رخصت کیا گیا، کل یتیم خانہ چوک پر اسے اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں۔ یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا کہ کیا یتیم خانہ چوک عمران خان کی حکومت کے لئے لال مسجد ثابت ہو گا۔۔۔بہت سی مماثلتیں ابھی بھی تلاش کی جا سکتی ہیں۔

دریں اثناء ٹی ایل پی نے ریاستی سرپرستی کے مختصر سے دور میں سیاست، عوامی بیانئے اور مذہبی جذبات کے اظہار کو جس قدر ریڈیکلائز کر دیا ہے اس کا خمیازہ پہلے سے بے گناہ لوگ بھگت رہے ہیں اور ایک عرصے تک بھگتتے رہیں گے۔ ستم ظریفی اور حکمران طبقے کا دانشوارانہ دیوالیہ پن دیکھئے کہ اسلاموفوبیا کا شور مچانے والا وزیر اعظم اور خود کو ختم نبوت کا مجاہد قرار دینے والا وزیر داخلہ چند ہی روز میں ’یہود و ہنود‘ کے ایجنٹ قرار پا گئے ہیں۔ ادہر مسلم لیگ نواز کی موقع پرستی ملاحظہ کیجئے۔ جس ٹی ایل پی کے ہاتھوں ان کی حکومت ٹوٹی، احسن اقبال پر گولی چلی اور دو سابق وفاقی وزیر آج تک چھپتے پھر رہے ہیں، ان کے ایک ایم این اے نے قومی اسمبلی کے فلور پر ٹی ایل پی کے مطالبات کی حمایت میں تقریر کی۔

وہ دن بھی دور نہیں کہ جب ان حساس جگہوں پر بھی لبیک کے نعرے لگ سکتے ہیں جن کا تذکرہ کرنا میڈیا کے بس میں نہیں۔ گذشتہ روز ایک غازی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کی جا رہی تھی جس میں خادم رضوی کے لئے جان دینے کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔

لبرل حلقے ایسے مواقع پر ریاستی تشدد استعمال کرنے اور لا اینڈ آرڈر کی بات کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ امن قائم کرنے کے لئے تشددکا استعمال طاقتور کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس توازن کو درست کرنے کے لئے عدالت اور آئین کا سہارا لیا جاتا ہے۔ گو طبقاتی معاشرے میں آئین اور عدالت بھی طاقتوں کے توازن کا ہی پرتو ہوتے ہیں لیکن گولیاں برسانا، ماورائے عدالت ہلاکتیں، جبری گمشدگیاں اور پولیس مقابلے ناقابل قبول ہیں چاہے اس کا شکار سیکولر سیاسی کارکن ہوں یا مذہبی جنونی۔ریاست اور سیاست میں گولی کا شکار کوئی بھی بنے، خون آلود سول سوسائٹی ہوتی ہے۔ سیاسی کلچر بربریت کا نمونہ بنتا ہے۔

ہم بار بار دیکھ چکے ہیں کہ عدالت اور آئین سے ماورا متشدد کاروائیوں کا انجام اچھا نہیں نکلتا۔ اسی طرح ملک کی ترقی پسند قوتیں بار بار اس بات کا اظہار کر چکی ہیں کہ مذہبی جنونی قوتوں کا خاتمہ محض لا اینڈ آرڈر کا سوال نہیں۔ ان حالات اور موقع پرست پالیسیوں کا خاتمہ ضروری ہے جن کے نتیجے میں خادم رضوی ایسے لوگ راتوں رات ملکی سیاست میں سنٹر سٹیج اور مین سٹریم ہو جاتے ہیں۔

اس لئے ہمارا واضح موقف ہے کہ ہم ٹی ایل پی یا اس قسم کے دیگر گروہوں سے کسی قسم کی نظریاتی و سیاسی ہمدردی رکھے بغیر، انکے متشدد بیانئے اور اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے ریاستی بربریت کے بھی شدید خلاف ہیں۔

ایک دھرنے کو ختم کرانے کے لئے مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلانا بربرانہ نا اہلیت کے سوا کچھ نہیں۔ ریاستی اداروں کی ذمہ داری انسانی جانوں کا تحفظ ہے نہ کہ انسانی جان لینا۔ ٹی ایل پی کا دھرنا متشدد ضرور تھا مگر بغیر اندھا دھندگولیاں چلائے بھی یہ دھرنا ختم کیا جا سکتا تھا۔

یہی کچھ لال مسجد کے آپریشن میں ہوا۔ ایک بار جب مولانا عبدالعزیز کو برقعے میں فرار ہوتے گرفتار کر لیا گیا تو لال مسجد کے حامی انتہائی غیرمقبول ہو گئے مگر اس کے بعد بجلی پانی کی بندش یا اس قسم کے دیگر اقدامات کی بجائے کمانڈو آپریشن کیا گیا۔

اب بھی یہی دیکھنے میں آیا۔ اپنے متشدد دھرنوں کی وجہ سے ٹی ایل پی بہت غیر مقبول ہوئی البتہ گذشتہ روز یتیم خانہ چوک میں پولیس آپریشن کے بعد ٹی ایل پی،کم از کم اپنے ہندردوں میں، ایک وکٹم بن کر سامنے آئے گی اور صورتحال کسی حد تک تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔

ٹی ایل پی کی یہ مظلومیت سیاسی طور پر اس کے کتنے کام آئے گی، معلوم نہیں۔ یہ بات طے ہے کہ یہ خونی باب اتنی جلدی بند نہیں ہو گا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts