لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایک سینئر مغربی سفارتکار نے کہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے حوالے سے کسی بھی مرحلے میں یا کسی بھی سطح پر پاکستان سے فوجی اڈوں کیلئے نہیں کہا ہے۔
’دی نیوز‘کے مطابق سفارتکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”پوری امریکی انتظامیہ میں سے کسی نے بھی اڈے نہیں مانگے اور ابھی تک پاکستان میں اس معاملے پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”پاکستان میں بار بار چلنے والے مباحثوں اور ’ہیش ٹیگ‘ کی مہم نے امریکہ میں ہر ایک کو سر کھجانے پر مجبور کر دیا ہے۔“
’دی نیوز‘ کے ذرائع کے مطابق امریکہ نے فوجی اڈوں کے مطالبے کے بارے میں اسلام آباد کو اپنے تحفظات باضابطہ طور پر بھی پہنچا دیئے ہیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے پاکستان میں فوجی اڈوں کیلئے مبینہ طور پر امریکی درخواست کے حوالے سے پاکستان میں پالیسی حلقوں میں ایک بحث چھڑ رہی ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جے برنز نے اس موضوع پر پاکستانی فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے براہ راست گفتگو کی۔ تاہم یہ مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہوئے جب امریکیوں نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ مئی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ میں یہ اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں رہنے تک کسی بھی امریکی اڈے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
تاہم ایک اور سینئر مغربی سفارتکار کا کہنا ہے کہ ”یہ ایسا مسئلہ پیدا کرنے کے مترادف ہے جوموجود ہی نہیں ہے۔“
ایک اور سینئرمغربی سفارتکار نے کہا کہ ”اس بحث پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے کہ طالبان کابل میں موجودہ حکومت کے ساتھ سیاسی تصفیے کی اجازت دینے کے لئے وقت پر مذاکرات شروع کرنے میں ناکام کیوں ہوئے۔“
فروری 2020ء میں طالبان اور امریکہ کے ذریعے طے شدہ دوحہ معاہدے کے تحت اگر طالبان نے کچھ شرائط پر عمل کیا تو تمام امریکی اور اتحادی فوج کا مکمل انخلا 14 ماہ کے اندر ہو گا، جس میں القاعدہ سے تعلقات ختم کرنا اور دولت اسلامیہ کو افغانستان میں جگہ نہ دینے جیسی شرائط شامل ہیں۔ تاہم بین الافغان بات چیت، جو دوحہ امن مذاکرات کا ہی حصہ تھی، رک گئی اور تقریباً ایک سال سے اس سلسلے میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔