خبریں/تبصرے

فیصل آباد شہری انتظامیہ نے عورت مارچ روک دیا

لاہور (نامہ نگار) فیصل آباد میں اتوار کے روز منعقدہونے والا عورت مارچ انتظامیہ کے دباؤ پر منسوخ کر دیا گیا ہے۔ سٹی انتظامیہ نے مارچ کے انعقاد کیلئے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ نہیں جاری کیا۔ عورت مارچ کے انعقاد کے خلاف مبینہ طور پر ایک کالعدم تنظیم کے ذمہ داران نے پریس کانفرنس کرکے مارچ منسوخ کرنے کا مطالبہ بھی کر رکھا تھا۔

عورت مارچ کے انعقاد کے لئے طلبہ، سول سوسائٹی اور خواتین نے منصوبہ بندی کی تھی اور عورت مارچ کے انعقاد کا مقصد خواتین کے وحشیانہ قتل کے واقعات کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانا تھا۔

عورت مارچ فیصل آباد کے مطابق احتجاج کے 20 مطالبات اور مقاصد میں صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد بالخصوص خواتین اور دیگر صنفی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے، خواتین اور ٹرانسپرسن کے حقوق کے تحفظ، خواتین یا ٹرانس پولیس کی قیادت میں صنفی تشدد کی رپورٹنگ کے لئے خصوصی مرکز کے قیام، گھریلو تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ کیلئے ٹول فری ہاٹ لائن، زیادتی کا شکار افراد کیلئے خصوصی مراکز، خواتین کے ساتھ زیادتی، کم عمر بچوں کی شادیوں اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے خاتمے کیلئے قوانین کے نفاذ کے اقدامات کے مطالبات شامل تھے۔

عورت مارچ کے منتظمین نے آن لائن مارچ کے انعقاد کیلئے آن لائن مہم شروع کر رکھی تھی اور ضلعی انتظامیہ کو بھی درخواست دی گئی تھی کہ اتوار کو عورت مارچ کے انعقاد کیلئے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔

اسسٹنٹ کمشنر فیصل آباد نے مارچ کے انعقاد کی اجازت نہیں دی، منتظمین نے مارچ کو منسوخ کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر مارچ کی منسوخی کے خلاف آن لائن مہم شروع کی۔

عورت مارچ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کہا گیا کہ ”عورت مارچ کو سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا ہے، نئی اپ ڈیٹ جلد شائع کی جائیگی۔“

فیس بک پر عورت مارچ فیصل آباد کی جانب سے لکھا گیا کہ ”یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ انتظامیہ نے طلبہ کے پر امن اور جمہوری مارچ کے خلاف اس طرح کا ردعمل ظاہر کیا۔ انتظامیہ شہر کے لوگوں کی مقبولیت اور یکجہتی سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے اور پرامن احتجاج کیلئے کسی بھی قسم کی جگہ اور تحفظ فراہم کرنے سے انکاری ہے، بلکہ منتظمین کو ہراساں کرنیا ور دھمکی دینے کا سہارا لیتی ہے۔ خواتین کے حقوق کیلئے ہماری آوازیہیں ختم نہیں ہو گی، یہ صرف ایک قطرہ ہے اور ہم اپنی لڑائی میں آگے بڑھیں گے۔ ایونٹ ابھی کیلئے ملتوی کر دیا گیا ہے جس کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں لیکن تعاون کرنے والے سب دوستوں کے شکرگزار ہیں۔“

حقوق خلق موومنٹ کے سربراہ عمار علی جان نے عورت مارچ کے منتظمین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے انتظامیہ کے اس عمل کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ”اسسٹنٹ کمشنر فیصل آباد نے منتظمین کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی اور نوجوان طالبات کو ڈرایا دھمکایا۔ یہ ایک واضح مثال ہے کہ ریاست کس طرح خواتین کی تحریکوں کو دبا دیتی ہے۔“

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ”ایک دن پہلے ایک کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے ارکان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عورت مارچ کے منتظمین کو دھمکیاں دیں لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ ریاست عوام کو کسی بھی بربریت کے خلاف احتجاج کرنے کا اپنا بنیادی حق نہیں دے رہی ہے۔“

عورت مارچ کے ایک منتظم نے بھی یہ کہا کہ ”گزشتہ 24 گھنٹوں کے اندر کچھ فرقہ وارانہ تنظیموں نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جو عورت مارچ کے خلاف تھی۔ 2 گھنٹے کے طویل مذاکرات کے دوران اسسٹنٹ کمشنر فیصل آباد نور مقدم کو مورد الزام ٹھہرانے کے جواز تراشنے کی کوشش کرتے رہے، عورتوں کے حقوق پورے کئے جانے کے دعوے کرتے ہوئے وہ وجوہات بتاتے رہے جن کی وجہ سے عورت مارچ کی اجازت کی ریکوائرمنٹ پوری نہیں ہو رہی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ محرم کی وجہ سے این او سی نہیں دی جا سکتی جو ابھی تک شروع ہی نہیں ہوا۔ ہم نے اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“

Roznama Jeddojehad
+ posts