خبریں/تبصرے

طالبان جنگی جرائم کا سلسلہ جاری: سابق افغان فوجی جان بچانے کیلئے روپوش

راولا کوٹ (حارث قدیر) طالبان کی جانب سے عام معافی کے اعلانات کے باوجود امریکہ نواز حکومت کے ساتھ کام کرنے والی سکیورٹی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے اہلکاران اور افسران کے گھروں پر چھاپوں اور تلاشیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز کے ہزاروں ارکان گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دوسرے ملکوں میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فورسز کی ایک بڑی تعداد ہتھیار ڈال کر گھروں کو چلی گئی اور کچھ نے طالبان کے ساتھ شمولیت اختیار کر لی تھی۔

بکتر بند گاڑیوں اور پک اپ ٹرکوں میں سوار افغان فوجیوں کے دستے صحرا سے ہوتے ہوئے ایران پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس کے علاوہ فوجی پائلٹوں نے متعدد ارکان کو ازبکستان اور دیگر علاقوں میں پہنچایا ہے۔

تاہم ہزاروں افغان سپاہی، کمانڈوز اور جاسوس جو آخر تک لڑتے رہے وہ اب بھاگ رہے ہیں اور طالبان انکی گرفتاریوں کیلئے چھاپے مارنے میں مصروف ہیں۔ ایک افغان کمانڈو نے ایک امریکی فوجی کو بھیجے گئے پیغام میں کہا کہ ”اس وقت باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، میں مشرقی افغانستان کے پہاڑوں میں چھپا ہوا ہوں اور بچنے کی دعا کر رہا ہوں۔“

سابق افغان عہدیداروں کے مطابق طالبان جنگجو انکے خاندان کے افراد کو گرفتار کرنے یا سزا دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ امریکی سپیشل فورسز کے ایک سابق مترجم کا کہنا ہے کہ اس نے ایک شخص کو محض اس شبہ پر گولی لگتے دیکھا کہ اس نے غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کیا ہے۔

ازبک حکام کے مطابق درجنوں افغان پائلٹ فرار ہو کر ازبکستان پہنچے، مجموعی طور پر 22 طیارے اور 24 ہیلی کاپٹر تقریباً 600 افراد کو لے کر ازبکستان پہنچے ہیں۔ تاہم ایران پہنچنے والے فوجیوں کی تعداد معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

افغان سکیورٹی فورسز کی تعداد 3 لاکھ کے لگ بھگ تھی لیکن امریکی حکام کے مطابق اس تعداد کا محض چھٹا حصہ ہی طالبان کے خلاف لڑائی میں موجود رہا ہے۔ یاد رہے ہتھیار ڈالنے والے فوجی کو اذیت پہنچانا یا ہلاک کرنا عالمی قانون کے مطابق جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts