خبریں/تبصرے

کابل بھوتوں کا شہر بنتا جا رہا ہے

یاسمین افغان

سقوط کابل کو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ پنجشیر کے علاوہ پورے افغانستان میں طالبان کا کنٹرول ہے۔ غیر یقینی صورتحال عوام پر سخت اثر ڈال رہی ہے۔ پورے افغانستان سے لوگ بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ یا تو انہیں سزائیں دی جائیں گی یاپھر انہیں طالبان کے زیر سایہ سخت حالات میں زندگی گزارنی پڑے گی۔ افغان میڈیا بالخصوص ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر منظر وقت کے ساتھ تبدیل گیا ہے۔ کوئی موسیقی آن ایئر نہیں چلائی جاتی اور افغانستان کے جنوب میں طالبان کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ کوئی موسیقی اور خواتین کی آوازیں آن ایئر نہیں ہونی چاہیے۔ بہت کم خواتین سڑکوں پر دیکھی جا سکتی ہیں کیونکہ بہت سی گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ مردوں اور عورتوں نے زیادہ روایتی لباس پہننا شروع کر دیا ہے حالانکہ طالبان نے کہا ہے کہ اب تک کپڑوں کے لیے کسی طرح کے قوانین کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن کچھ لوگوں کو جینز اور سوٹ پہننے پر پہلے ہی مارا پیٹا گیا یا ذلیل کیا گیاہے۔

کابل کے مغرب کی رہائشی فاطمہ (فرضی نام) نے مجھے بتایا کہ ”جیسا کہ میں اپنی یونیورسٹی واپس نہیں جا سکتی، میں نے اپنا وقت گزرنے کے لیے سلائی شروع کر دی ہے۔ اگر میں مصروف نہ ہوئی تو جو کچھ ارد گرد ہو رہا ہے اس کی وجہ سے میں پاگل ہو سکتی ہوں۔“

طالبان نے اعلان کیا ہے کہ یونیورسٹیاں الگ الگ کلاسوں کے ساتھ دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں اور مرد و خواتین طلبہ کو الگ الگ کلاسوں میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور خواتین اساتذہ صرف طالبات یا بزرگ مردوں کو پڑھا سکتی ہیں۔

عزیزہ (فرضی نام) نے مجھے بتایاکہ ”یہ میرا یونیورسٹی کا آخری سال ہے۔ میں انگریزی زبان کی ٹیچر بننا چاہتی تھی۔ بہت کم خواتین اساتذہ ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک غیر یقینی مدت تک انتظار کرنا پڑے گا۔“

کابل کی رہائشی ناجیہ (فرضی نام) نے مجھ سے گفتگو کے دوران کہاکہ ”یہ خواتین کو عوامی زندگی سے خارج کرنے کا محض ایک بہانہ ہے۔ یہ حکمت عملی 1996ء سے 2001ء کے دوران بھی نافذ کی گئی تھی۔“

کابل کے مغرب میں رہنے والے ابراہیم (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ”ہم ان پر کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟ وہ پہلے ہی بہت سے وعدوں سے پھر چکے ہیں۔ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پرانے وقت پر واپس آ گئے ہیں۔“

اس وقت سکول چھٹی جماعت تک کھلے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ ایک غیر یقینی وقت تک اسی طرح رہے گا۔

ایک دکاندار اجمل نے مجھ سے کہا کہ ”مجھے اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے کوئی امید نہیں ہے۔ میں سخت محنت کر رہا تھا تاکہ میری بیٹیاں یونیورسٹی جا سکیں لیکن اب وہ نہیں جا سکیں گی۔ ان میں سے ایک نے یونیورسٹی کے داخلے کا امتحان پاس کیا لیکن اب اسے گھر پر ہی رہنا پڑے گا۔“

ایک اور دکاندار ہادی کا کہنا تھا کہ ”کیا یہ سب وہ ہے جس کے افغان حقدار ہیں؟ خوف ہمیں جکڑ رہا ہے۔ یہ ایک بھوتوں کا شہر ہے۔ کسی نے ہم سے نہیں پوچھا کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا چاہتے ہیں۔ وہ صرف لوگوں کو ہم پر مسلط کررہے ہیں۔“

Yasmeen Afghan
+ posts

’یاسمین افغان‘ صحافی ہیں۔ وہ ماضی میں مختلف افغان نیوز چینلوں کے علاوہ بی بی سی کے لئے بھی کام کر چکی ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان کا قلمی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔