مارسل کارٹیئر
طالبان کے ہاتھوں کابل کے سقوط سے دو دن قبل میں افغانستان کی سب سے نمایاں خواتین کارکنوں میں سے ایک کا انٹرویو لینے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے طویل عرصے سے نہ صرف صنفی مساوات اور سماجی انصاف کی پالیسیوں کو فروغ دینے میں سیلی غفار کے کردار کی تعریف کی ہے بلکہ امریکہ اور نیٹو کے اپنے ملک پر قبضے کے لیے ان کی پرعزم مخالفت کے لیے بھی انہیں سراہا ہے، جو اکثر انسانی بہانے استعمال کرتے ہوئے جائز قرار دیا جاتا تھا۔
افغانستان میں بائیں بازو کی یکجہتی پارٹی کے ترجمان کے طور پر سیلی غفار کو ملک میں طالبان کی تیزی سے پیش قدمی اور افغان بائیں بازو کے رد عمل اور سامراجیت کے خلاف کچھ وضاحت فراہم کرنے کے حوالے سے سب سے اہم مقام حاصل تھا۔
ہمارے طے شدہ انٹرویو سے تقریبا ً ایک گھنٹہ پہلے سیلی غفار نے مجھے ایک معذرت خواہانہ پیغام بھیجا کہ انٹرویو کو دوبارہ شیڈول کرنے کی ضرورت ہو گی۔ متن میں لکھا تھا کہ ”سکیورٹی کی صورتحال غیر واضح ہے۔“ یہ سوچنا مشکل تھا کہ جہاں میں بیٹھا ہوں وہاں اگلے دو دن کے اندر بغیر گولی چلائے طالبان گشت کر رہے ہوں گے۔
اگلے ہفتوں میں نے کچھ مواقع پر سیلی غفار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن جواب نہیں ملا۔ میں سوچ رہا تھاکہ کیا انہوں نے افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے یا وہ اس بڑی تعداد میں شامل ہو گئی ہیں جو ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے، کیونکہ طالبان اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لیے تیار تھے۔ میں ان کی حفاظت کے لیے پریشان تھا لیکن مجھے امید تھی کہ میرا ان سے رابطہ ہو گا۔
مجھے بالآخر گزشتہ ہفتے سیلی غفار کی طرف سے پیغام ملا کہ وہ محفوظ ہیں اور مجھے انٹرویو دینے کو تیار ہیں۔ سکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے وہ اپنی رہائشگاہ سے متعلق بات نہیں کر سکتی تھیں۔
سیلی غفار کے ساتھ نامعلوم مقام سے لیا جانے والا مکمل انٹرویو درج ذیل ہے:
مارسل: ہم نے ابتدائی طور پر یہ انٹرویو طالبان کے کابل میں داخل ہونے سے صرف 2 دن پہلے 13 اگست کو کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ اس وقت شہر میں کیا صورتحال تھی اور اگلا دن آپ کے لیے کیسا تھا؟
سیلی غفار: سچ پوچھیں تو بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں ایک ہی وقت میں حیران بھی تھی اور حیران نہیں بھی تھی۔ میں صرف اس لحاظ سے حیران تھی کہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ اچانک طالبان بغیر کسی لڑائی کے صوبوں پر قبضہ کر رہے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ مذاق کر رہی تھی کہ شاید آج رات میں سو جاؤں اور صبح جب میں جاگوں تو طالبان کابل پر بھی قبضہ کر لیں گے اور یہ بالکل ایسے ہی ہوا۔
آئی ڈی پیز (داخلی طور پر بے گھر افراد) کے لیے کھانے کی تقسیم کو مربوط کرنے کے لیے اس دن میری ایک میٹنگ تھی، چنانچہ صبح میں نے اپنی بیٹی کو اپنی ماں کے پاس بھیجا، میرا بیٹا اسکول گیا، میرے شوہر کام پر گئے۔ ہم سب نے معمول کی طرح دن کا آغاز کیا۔
ہر کوئی باہر تھا اور میرے کامریڈ ہماری میٹنگ کے لئے راستے پر تھے اور اچانک سڑکوں پر ٹریفک اور بھیڑ میں اضافہ ہو گیا۔ پھر میں نے شہر کے مغربی اضلاع میں سے ایک سے گولیوں کی آوازیں سنیں۔
میں نے اپنے محافظ، جو میرے ساتھ تھا، سے پوچھا کہ اگر وہ کسی سے پوچھ سکے کہ کیا ہو رہا ہے، لوگوں نے بتایا کہ طالبان شہر میں ہیں۔
اچانک میری بنیادی تشویش کسی محفوظ جگہ تک پہنچنا تھی۔ میں اپنے ساتھیوں اور اپنے خاندان کے لیے پریشان ہو گئی کیونکہ وہ باہر تھے، خاص طور پر میری چھوٹی بیٹی جو ابھی ماں کا دودھ پیتی ہے۔ مجھے محفوظ مقام تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے لیکن میں پھر بھی اپنی بیٹی سے الگ تھی۔
اس رات مجھے اپنے دوستوں اور بیرون ملک حامیوں کی طرف سے بہت سے پیغامات اور ای میل موصول ہوئیں: ”کیا آپ محفوظ ہیں؟ ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟“
اس قسم کے یکجہتی پیغامات نے مجھے بہت طاقت دی لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے لوگوں سے مدد کے لیے اور سلامتی کے لیے بہت سارے پیغامات موصول ہو رہے تھے۔
یہ ایک خوفناک احساس تھا، کیونکہ میں نہیں جانتی تھی کہ کیسے ان کی مدد یا سپورٹ کی جائے۔ میں پوری رات ہیلی کاپٹروں کی آواز کے ساتھ جاگتی رہی۔ ہم نے سوچا کہ شاید یہ لڑائی ہو رہی ہے، لیکن بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ سب انخلا کیلئے تھا۔ اگلی صبح سویرے میں اس جگہ سے دوسرے محفوظ گھر کی طرف روانہ ہوئی۔
یہ کتنا خوفناک تھا کہ امریکہ کتنی بے شرمی سے چلا گیا لیکن پھر اس نے اپنے لوگوں کو نکالنے کیلئے فوجیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس سب کے ذریعے افغان عوام طالبان سے نفرت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور ہوائی اڈے کی طرف دوڑ رہے تھے۔
شاید اس لیے بھی نہیں کہ وہ خوفزدہ تھے، لیکن اس لیے کہ انھیں طالبان سے اتنی نفرت ہے کہ وہ اس طرح کی حکومت کے تحت نہیں رہنا چاہتے تھے۔
مارسل: آپ نے ذکر کیا کہ آپ واقعی حیران تھیں کہ طالبان کتنی جلدی اقتدار پر قابض ہوئے۔ کیا آپ کی یہ توقع تھی کہ جیسے ہی امریکہ اور نیٹو ممالک افغانستان سے چلے گئے تو اشرف غنی کی حکومت لامحالہ گر جائے گی؟
سیلی: کابل طالبان کے قبضے میں آنے سے تقریبا ًایک ہفتہ قبل ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران میں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ابھی جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ طالبان کو دوبارہ اقتدار میں لا رہا ہے۔ یہ بالکل وہی ہے جس کی ہم نے توقع کی تھی اور ہم جانتے تھے کہ 2020ء میں دوحہ میں جو معاہدہ ہوا تھا وہ اس کا باعث بنے گا۔
ایک بات جو اب ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ طالبان کامیاب ہوئے اور امریکہ ناکام، میں یہ نہیں کہوں گی، امریکہ نے ابھی اپنی کٹھ پتلی حکومت کو تبدیل کیا ہے۔ چاہے وہ اشرف غنی ہو یا طالبان، یہ دونوں امریکہ کی کٹھ پتلی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ طالبان ایک مقبول قومی قوت تھی جس نے قابضین کو شکست دی۔ یہ ویت نام کی طرح نہیں تھا۔ کوئی اس کا موازنہ ویت نام سے نہیں کر سکتا۔ امریکہ صرف ایک طرف سے دوسری طرف بدل گیا، یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔
افغان امن مذاکرات کے دوران امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے یہ بات بالکل واضح کر دی جب انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ منتقلی محفوظ اور پرامن طریقے سے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا یہ منصوبہ طالبان کو اقتدار دینے کے لیے تھا اور ہم اپنے تجزیے میں درست تھے کہ کیا ہو گا۔
اشرف غنی نہیں رہ سکے کیونکہ وہ ایک کٹھ پتلی تھے اور انہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ فوج گر رہی تھی، سب کچھ منہدم ہو رہا تھا، کیونکہ یہ سب امریکہ کے بجٹ پر مبنی تھا۔ اسی وجہ سے امریکہ نے طالبان کو اس قبضے کے لیے تیار کیا۔
افغانستان میں ہم نے یہ سب دیکھا۔ ہم نے قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان اپنے 5000 قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ دیکھا۔ اس سے طالبان کی ٹوٹی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کو ایک بار پھر طاقت ملی۔ گوانتاناموبے سے خودکش حملہ آوروں کو رہا کرنے اور انہیں دوحہ میں دفتر دینے جیسے واقعات انہیں سرکاری طور پر دہشت گرد نہیں بلکہ ایک سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کرنے کے مترادف تھے۔
دوسری طرف افغان حکومت کمزور تھی۔ ملک کے اندر بدعنوانی، ناانصافی، بے روزگاری اور ان سب چیزوں نے طالبان کے اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی۔ لوگ حکومت کی حمایت کے حق میں نہیں تھے، لیکن وہ طالبان کو بھی نہیں چاہتے تھے۔
مارسل: طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان اب ایک آزاد ملک ہے، اس کے برعکس جو آپ نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ وہ امریکہ کی کٹھ پتلی ہیں۔ کیا آپ کو ان کے دعوے میں کوئی حقیقت نظر آتی ہے؟ کیا ان کی فتح کم از کم 40 سال کی جنگ کے بعد پائیدار امن کے امکان کو سامنے لاتی ہے؟
سیلی: ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں کیونکہ فوجی قبضہ حل نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ امریکہ اور ان کے نیٹو اتحادیوں کے افغانستان میں اپنے اسٹریٹجک، معاشی اور سیاسی مقاصد تھے۔ وہ یہاں افغانیوں کے لیے یا افغانستان میں خوشحالی لانے کے لیے نہیں آئے تھے۔ یہ دنیا کے لیے بہت واضح تھا کہ ان کے اپنے مفادات ہیں۔
قبضے کے یہ 20 سال ہماری زندگی کے سیاہ ترین دن تھے۔ یہ ہمارے ملک کا سیاہ ترین دور تھا کیونکہ اس عرصے کے دوران لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس عرصے کے دوران کئی خطرناک دہشت گرد گروہوں کو بااختیار بنایا گیا ہے۔ افیون اور ہیروئن کی سب سے زیادہ پیداوار اور اسمگلنگ کے ساتھ افغانستان دنیا کا بدعنوان ترین ملک بن گیا ہے۔ ہماری بہت سی معدنیات لوٹ لی گئی ہیں۔
امیر اور غریب کے درمیان بہت بڑا فرق رہا ہے، کیونکہ افغانستان پہنچنے والی تمام رقوم ان لوگوں نے لوٹ لیں جو اقتدار میں تھے۔ ہماری خواتین پر وحشیانہ جبر ہوا اور امریکہ نے افغانستان میں ان کی موجودگی کو جائز قرار دینے کے لیے ہماری مصیبتوں کا غلط استعمال کیا۔
ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افواج وہاں سے چلی جائیں اور اپنی کٹھ پتلیوں کو بھی ساتھ لے جائیں، چاہے وہ طالبان ہوں، ٹیکنو کریٹس، جہادی جماعتیں یا دیگر دہشت گرد گروہ جنہیں انہوں نے بنایا، سپورٹ کیا اور مالی اعانت فراہم کی۔ یہ صرف افغانستان میں نہیں ہو رہا تھا بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں جیسے شام اور عراق میں بھی ہو رہا تھا۔ انہیں اپنے ساتھ لے جاؤ! ملک کو افغانوں پر چھوڑ دو، اسے جمہوری اور ترقی پسند قوتوں پر چھوڑ دو۔ ہم اپنے ملک کی تعمیر کریں گے۔
ہم چاہتے تھے کہ وہ چلے جائیں لیکن ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ دوبارہ اقتدار طالبان کے حوالے کریں۔ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ طالبان امریکہ کی تخلیق تھے۔ بے نظیر بھٹو (سابق وزیراعظم پاکستان) نے ایک بار کہا تھا کہ طالبان بنانے کا خیال برطانیہ سے آیا تھا اور امریکہ نے اس خیال کی حمایت کی۔ سعودی عرب نے ان کی مدد کی اور پاکستان نے ان کی تربیت کی۔ جب ایک کٹھ پتلی اپنے مالک سے کہتی ہے کہ ”ہمیں تنہا چھوڑ دو“، یہ محض جعلسازی ہے۔ یہ سب کچھ انہیں حقیقی قومی آزادی کی تحریک نہیں بناتا۔
یہ صرف یکطرفہ بات ہے۔ دوسری طرف اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا طالبان دوسرے ممالک کی بھی کٹھ پتلی ہیں، تو میں ہاں کہوں گی اسکا مطلب یہ ہے کہ روس کے اپنے مفادات ہیں، چین کے اپنے مفادات ہیں، یہاں تک کہ ایران کو بھی طالبان کی حمایت کرنے میں اپنے مفادات ہیں۔
یقینا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کا اب افغانستان میں بھاری اثر و رسوخ ہے اور وہ فیصلہ ساز بھی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کی کمان میں تھا۔ جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو ان سے ملنے کے لیے سب سے پہلے افغانستان آنے والا پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا سربراہ تھا۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ 2014ء میں جب امریکہ نے انخلا شروع کیا تو انہوں نے کافی مقدار میں فوجی ساز و سامان تباہ کر دیا اور ان میں سے بہت سارا سامان افغانستان کے حوالے کرنے کی بجائے پاکستان کو دے دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ایک آزاد ملک، ایک مستحکم ریاست نہیں چاہتے تھے یا یوں کہہ لیں کہ وہ کبھی بھی ایک مقبول ریاست نہیں چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی کٹھ پتلیاں رکھتے ہیں۔
طالبان نے افغانستان کے آزاد ہونے کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ہے، یہ آزاد نہیں ہے۔ اسٹریٹجک تبدیلی ہے، وہ آئی ایس آئی، سی آئی اے اور بہت سے دوسروں کے کنٹرول میں ہیں۔
کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے امن کبھی نہیں آئے گا، خاص طور پر جیسا کہ وہ قرون وسطی کے ذہن کے ہیں، وہ پدرشاہی کے حامل ہیں، وہ غیر انسانی اورسفاک قاتل ہیں۔ امن کبھی نہیں آئے گا کیونکہ وہ یہاں افغانستان کی خوشحالی یا افغانستان کے لوگوں کے لیے کوشاں نہیں ہیں۔
اسکے علاوہ میں نے کئی بار کہا ہے کہ طالبان کے سفید جھنڈے کی جگہ دولت اسلامیہ کے سیاہ جھنڈے کو لے لیا گیا ہے۔ ایک طرف امریکہ نے طالبان کو دوبارہ اقتدار میں لانے میں مدد کی جبکہ دوسری طرف افغانستان میں دولت اسلامیہ کی حمایت کی۔ جنگ ابھی جاری رہے گی جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ہم طالبان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے، جس کا مطلب اب افغانستان میں داعش ہے۔ اس کے ساتھ ان کے پاس افغانستان میں رہنے کا بہانہ ہو گا، خاص طور پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے چین اور روس جیسے اپنے حریفوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، کیونکہ وہ اپنے حریفوں کی معاشی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں۔ اس وقت چین اور روس بھی طالبان کے ساتھ سفارتی کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے ممالک میں دہشت گردی برآمد ہونے سے خوفزدہ ہیں اور یقینا یہ داعش کا منصوبہ ہے۔
خلاصہ یہ کہ ہم صرف اس وقت امن اور خوشحالی کی بات کر سکتے ہیں جب جمہوری اور سیکولر نظام ہو۔
مارسل: آپ افغانستان پر حملے اور قبضے کے معمار جارج ڈبلیو بش جیسوں کو کس نظر سے دیکھتی ہیں، جو کہتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کا انخلا ایک غلطی ہے اور وہ آپ کے ملک کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے خوفناک ہے؟
سیلی: میرے خیال میں وہ افغان خواتین کی توہین کر رہے ہیں۔ وہ افغان عوام کی توہین کر ر ہے ہیں کیونکہ وہ وہی شخصیت ہیں جس نے بیس سال پہلے میرے ملک پر قبضہ کیا اور میرے ملک کو تباہ کیا۔ اس قبضے کی وجہ سے دوبارہ طالبان نے قبضہ کر لیا۔ (20سال قبل) اس وقت امریکہ اور نیٹو نے ایک ہفتے کے اندر اندر خونخوار طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا، لیکن اس سب کے ساتھ وہ ان کے ارد گرد چکر لگاتے رہے، بالخصوص دوحہ میں ان کے ساتھ مذاکرات کے لئے چکر لگاتے رہے۔ انہوں نے اپنے کرائے کے فوجیوں کو دوبارہ اقتدار میں لایا۔
لیکن یہ بش کے ساتھ شروع نہیں ہوا، یا صرف بیس سال پہلے شروع نہیں ہوا۔ اس سب کو 40 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے جب سوویت یونین اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ نے سرد جنگ کے دوران مجاہدین کا ساتھ دے کر ہمارے ملک کو ہماری ملکی تاریخ کے تاریک ترین دور میں دھکیل دیا۔
جب بش، کلنٹن، اوباما اور دیگر جو اقتدار میں تھے تب وہ اس تباہی اور سیکڑوں، ہزاروں اموات کے ذمہ دار تھے اور آج کے انتشار کے ذمہ دار ہیں اور اب انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ تاریخ کے سب سے بڑے جھوٹے ہیں اور انہیں اپنے ملک کی تاریخ میں اسی طرح لکھا جانا چاہیے۔
11 ستمبر (2001ء) کے بعد آپ کے پاس افغانستان پر قبضہ کرنے کا بہانہ تھا اور جب آپ نے ایسا کیا تو آپ نے جو کٹھ پتلی حکومت قائم کی وہ شمالی اتحاد کے تمام قاتلوں سے بھری ہوئی تھی۔ آپ ایک قصاب گلبدین حکمت یار کو اس امن عمل کے تحت واپس کابل لے آئے۔ چلیں یہ کہہ دیتے ہیں کہ بنیاد پرست عورتوں کے پہلے دشمن ہیں اور بش، اوباما، کلنٹن، ٹرمپ نے ان کی حمایت کی، یہاں تک کہ ہیلری کلنٹن نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے اس بنیاد پرست حکومت کی حمایت کی۔ آپ کبھی بھی افغان خواتین کی طرف نہیں تھے، آپ نے 2001ء میں خواتین کی آزادی کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی۔ افغانستان پر حملہ کرنا محض جھوٹ تھا اور اب آپ خواتین کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔
بنیاد پرستی اور سامراج ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ سامراجی ممالک کو ترقی کی منازل طے کرنے اور دنیا کو فتح کرنے کے لیے اور خاص طور پر امریکہ کو اصولی سپر پاور بننے کے لیے جنگوں کو پیداکرنا تھا، سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کا مقصدہی جنگوں کو پیدا کرنا ہے، یقینا امریکہ نے اس کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ دہشت گردی کو بطور آلہ استعمال کیا ہے۔
آج وہ چین، روس اور ایران جیسے اپنے حریفوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر آپ نے کوئی بھی حرکت کی تو ہمارے پاس یہ تمام ہتھیار موجود ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا کہ انہوں نے افغانستان میں مدر آف آل بم (MOAB) کا استعمال کیا تاکہ ان ممالک کو دکھایا جائے کہ اس قسم کے ہتھیار ان کی سرحدوں پر ہیں۔
افغان عوام آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ 2001ء سے اب تک افغانستان میں ڈرون حملوں سے سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان جرائم کو دستاویزی شکل دی گئی ہے اور ان جرائم کے لیے ان پر مقدمہ چلایا جانا ہے، چاہے وہ ڈرون حملوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ جب بات یکجہتی کی ہو اور اگر آپ واقعی افغان عوام کی حمایت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ان چیزوں پر کام کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر انہیں اس قتل عام پر استثنیٰ دے دیا جائے گا۔
مارسل: کیا امریکہ اورنیٹو کے قبضے کے دوران افغانستان میں خواتین کی صورتحال کسی معنی خیز طریقے سے تبدیل ہوئی؟ رجعت پسند حکومت کے نفاذ کے باوجود، جس کا آپ نے ذکر کیا ہے، کیا بیرونی مبصر کے سامنے ایک خاتون کا کردار حکومت اور معاشرے میں نمایاں طور پر ظاہر ہو گا؟
سیلی: ہم نے ہمیشہ یہ کہا کہ امریکہ اور مغرب نے اپنے لوگوں کو افغان خواتین کو آزاد کرنے کا دعویٰ کر کے دھوکہ دیا ہے۔ حقیقت میں افغان عورت کے خلاف بربریت اور ظلم میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ انہوں نے طاقت کو بنیاد پرستوں کو واپس دے دیا اور جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ بنیاد پرستی خواتین کا پہلا اور خطرناک دشمن ہے۔
اس 20 سالہ عرصے کے دوران خواتین پر پتھراؤ کیا گیا، خواتین تیزاب حملوں کا شکار ہوئیں۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح عورتوں کے سر قلم کیے گئے اور عورتوں پر ہولناک ظلم کی وجہ سے بہت سی خواتین نے خود کشیاں کیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف 2019ء میں افغانستان خواتین کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا۔ خواتین کو ہراساں کیا گیا اور جنسی تعلقات کی وجہ سے جیلوں میں ڈالا گیا، حالانکہ حقیقت میں ان خواتین کا ریپ ہوا تھا۔
جب خواتین کے انصاف کی بات کی گئی تو ہر سطح پر استثنیٰ تھا، کیونکہ وہ تمام لوگ مجرم تھے جو اقتدار میں بیٹھے تھے، چاہے وہ عصمت دری کے مقدمات ہوں یا عورتوں کے خلاف کسی بھی قسم کے تشدد کے واقعات ہوں، جو لوگ اقتدار میں تھے، ان کے خاندان، جماعتیں ان سب واقعات میں ملوث تھیں۔
دوسری طرف پارلیمنٹ یا کابینہ میں خواتین کی شمولیت کے نام پر کچھ سطحی شوپیس تھے۔ ہمارے پاس ایسی خواتین بھی تھیں جنہوں نے باہر کام کرنا شروع کیا۔ خواتین کے لیے کچھ چیزیں تھیں جیسے تعلیم اور اپنے طور پر باہر جانے کے قابل ہونا وغیرہ، لیکن یہ سب ایک مناسب انفراسٹرکچر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھا اور اکثر مکمل طور پر این جی اوز یا امریکہ کے پیسوں پر منحصر ہوتا تھا، جو خواتین کے حقوق کے نام پر افغانستان کو لوٹ رہے تھے۔
یہ درست ہے کہ کچھ حقیقی فوائد حاصل ہوئے، چاہے وہ خود ملک کے بنیادی ڈھانچے میں ہی کیوں نہ ہوں، لیکن پھر ان کا استعمال مغربی لوگوں کو یہ سمجھانے کے لیے کیا گیا کہ ان کے ممالک کو افغانستان میں اپنا فوجی آپریشن جاری رکھنا ہے۔ پارلیمنٹ اور کابینہ موجود خواتین میں سے بیشتر خواتین دراصل سامراجی ممالک اور قابضین کی لاؤڈ اسپیکر تھیں۔ وہ افغان انقلابیوں کی حقیقی مزاحمت اور ترقی پسند تحریک کی راہ میں کھڑی حقیقی رکاوٹیں تھیں۔
اس سب میں خواتین کیلئے کچھ نہ کچھ بہتری ضروری موجود تھی لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ آزادی تھی، نہ ہی واقعی میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ وہ حقوق تھے۔ میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ حقوق جدوجہد سے حاصل کرنے پڑتے ہیں اور پھر انہیں اتنی آسانی سے چھینا نہیں جا سکتااور نہ ہی انہیں تحفے میں دیا جا سکتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت میں بیٹھی یہ تمام خواتین کہہ رہی تھیں کہ جب امریکہ چلا جائیگا تو ہماری تمام حاصلات ختم ہو جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ افغان عورت سے کہتے ہیں کہ وہ ان بنیاد پرست گروہوں کے خلاف جدوجہد کرے، مزاحمت کی ایک مضبوط تحریک کے لیے اپنی آواز بلند کرے، ہمیں اپنے حقوق اپنے ہاتھوں سے لینے ہونگے۔
اگر ہم تاریخ اور ان حقوق پر نظر ڈالیں جو مغرب میں عورتوں نے جیتے ہیں تو یہ کئی دہائیوں یا صدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ہم روزا لکسمبرگ جیسی خواتین کی مثالیں دیکھ سکتے ہیں، یا اگر ہم آئس لینڈ اور خواتین کی پوزیشن پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایک طویل تاریخ نظر آتی ہے جہاں انہوں نے سماجی اصلاحات کے مطالبات سے آغاز کیا اور وہ بالآخر اپنے بہت سے حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اگر ہم آج کردستان میں عورتوں کو دیکھیں تو ان کی خود ارادیت ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ 20 سالوں کے دوران حقیقی ترقی پسند تنظیمیں موجود رہی ہیں جنہوں نے افغانستان میں خواتین اورعوام کے درمیان سخت محنت کی۔ اسی لیے ابھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ افغانستان میں یہ تمام مظاہرین، یہ تمام بہادر خواتین جو سڑکوں پر آئی ہیں، وہ ان 20 سالوں کی نسل سے ہیں۔ وہ تمام نوجوان خواتین ہیں جنہوں نے بیداری حاصل کی ہے اور یہاں تک کہ سیاسی طور پر بہت باخبر ہیں۔
مارسل: آپ کے خیال میں افغانستان کس قسم کے دور میں داخل ہو رہا ہے، خاص طور پر طالبان کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے؟ اگر تمام اپوزیشن پر مؤثر طریقے سے پابندی لگائی جائے تو ترقی پسند قوتوں یا خواتین کی تحریک کا کیا کردار ہو گا؟
سیلی: یہ کہنا ضروری ہے کہ بدقسمتی جب 40 سال قبل سوویت یونین کی کٹھ پتلی حکومت مسلط کی گئی تھی، تب سے ہی بائیں بازو، ترقی پسند قوتوں، دانشوروں اور انقلابیوں کے لیے جگہ ہمیشہ محدود رہی ہے۔ ان پر پابندی عائد کی گئی ہے، حملہ کیا گیا ہے اور ہمیشہ رکاوٹیں رہی ہیں۔ ان پر ہر طرف سے حملہ کیا گیا اور ہر دور کی اپنی تاریخ ہے۔
مثال کے طور پر بے شمار دانشور تھے جو سوویت کٹھ پتلی حکومت کے ہاتھوں صرف اپنے نظریے کی وجہ سے مارے گئے۔ بعد میں مجاہدین حکومت کے دوران، دانشوروں یا اساتذہ کو محض اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ پڑھ لکھ سکتے تھے۔ ان میں سے بہت سے ملک سے فرار ہو گئے۔ یہ سچ ہے کہ کرزئی اور غنی حکومتوں کے تحت جمہوریت کے نام پربہت سی جماعتیں یا تنظیمیں دوبارہ کھل گئیں، لیکن ان پر ہمیشہ حملہ کیا گیا، ان کو کام کرنے سے روکنے کے لیے ہمیشہ قوانین اور ضابطے بنائے گئے اورانہیں ہمیشہ دھمکیاں ملتی رہیں۔
میں انقلابی اور ترقی پسند تحریک کی طرف ہوں۔ مجھے ہمیشہ اپنے کام کی وجہ سے دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔ محض چند ماہ قبل مجھے بہت سنگین دھمکی ملی۔ مجھے جہادی جماعتوں کی طرف سے کئی بار دھمکیاں دی گئی ہیں کیونکہ میں ان کے خلاف بہت واضح تھی، لیکن اس بار یہ القاعدہ گروپ، حقانی نیٹ ورک کی طرف دھمکی تھی اوراب سراج الدین حقانی وزیر داخلہ ہیں۔
جس شخص نے مجھے قتل کرنا تھا اس کی شناخت افغان انٹیلی جنس سروس نے کی تھی، دراصل انہوں نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ اب اس شخص کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ جب آپ آواز اٹھاتے ہیں تو وہ آپ کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ آپ کو بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ طالبان نے صرف دنیا سے پہچان حاصل کرنے اور اپنے آپ کو ”اعتدال پسند“ ظاہر کرنے کے لیے کہا کہ وہ زیادہ برداشت کرنے والے بنیں گے، لیکن پھر جب عورتوں نے سڑکوں پر نکلنا شروع کیا، جب لوگ سڑکوں پر نکلنے لگے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگے تو انہوں نے آہستہ آہستہ ان پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے انہیں دبانا شروع کیا، انہوں نے فائرنگ شروع کر دی تاکہ وہ بکھر جائیں اور اب آواز بلند نہ کریں۔
انہوں نے 3 صحافیوں کوگرفتارکیا اور ان پر صرف اس لیے تشدد کیا کہ وہ خواتین کے احتجاج کی خبروں کو کور کر رہے تھے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس قسم کی پالیسی مسلط کر رہے ہیں، جب صحافیوں کو وزارت داخلہ اور اس قاتل حقانی سے اجازت لینی ہو گی کہ کس سے انٹرویو لیا جائے۔
ہم نے ہمیشہ انقلابی قوتوں کے لیے بہت محدود جگہ کے ساتھ جدوجہد کی ہے، لیکن اس سب سے قطع نظر ہم نے مختلف علاقوں میں اور مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھی ہے۔ افغانستان میں یہ مزاحمت جاری رہے گی، کیونکہ یہاں خواتین کی تنظیمیں، انجمنیں اور بعض جماعتیں بھی ہیں۔
یقینا وہ اپنی حکمت عملی تبدیل کریں گے تاکہ ان پرمزید حملے نہ ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ اچھے کیلئے نہیں ہو گا، آپ جانتے ہیں کہ آپ دشمنوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ مجھ پر حملہ کریں، لیکن وہ جاری رکھنے کے طریقے تلاش کریں گے اور ابھی ان کے لیے سب سے اہم کام لوگوں کو سیاسی شعور دینا ہے۔ یہ تمام قومی ترقی پسند قوتوں کے اکٹھے ہونے، منظم ہونے اور عوام کو منظم کرنے کا وقت ہے۔
ابھی تک تمام خواتین کے احتجاج اور ملک بھر میں احتجاج کرنے والے لوگ خود رو طریقے سے منظم ہیں، وہ ایک مضبوط اور ترقی پسند قیادت کے تحت نہیں ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ اگر ان کے پاس مضبوط قیادت نہیں ہے تو وہ یقینی طور پر اس تحریک کو جاری نہیں رکھ سکیں گے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مصر میں کیا ہوا، عرب سپرنگ اور باقی سب میں مضبوط جمہوری قیادت کی وجہ سے کیا ہوا۔ یہ بہت اہم ہے، اگر اس قسم کی بغاوتوں اور تحریکوں میں جمہوری، ترقی پسند اور انقلابی قیادت ہو تو اس کا اثر پڑے گا اور یہ ایک دن ضرور کامیاب ہونگی۔
لہٰذا بائیں بازو کو خود کو منظم کرنا ہوگا، لوگوں کو متحرک کرنا ہوگا، لوگوں کو یہ شعور دینا ہوگا، عوام کے درمیان کام کرنا ہوگا، یہاں تک کہ ان تمام لوگوں کو انسانی مدد فراہم کرنا ہوگی جو ضرورت مند ہیں۔
خاص طور پر خواتین کے لیے ہمیں سیکولرازم کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہوگا کیونکہ سیکولر حکومت کے بغیر خواتین کے حقوق کا حصول ناممکن ہو گا۔ سیکولرازم حکومت کے ماتحت عورتوں کے حقوق کی کسی نہ کسی طرح ضمانت دیتا ہے اور مذہب کو بنیاد پر اقلیتوں پر ظلم کرنے اور عورتوں پر ظلم کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کرنے سے روکتا ہے۔
مارسل: اتنے سب کچھ کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے آپ نے ابھی بھی امید کا احساس برقرار رکھا ہے۔؟
سیلی: جب تک مجھے امید ہے میں اپنی جدوجہد جاری رکھوں گی۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ اگر ہمیں امید نہیں ہے تو ہم اپنی جدوجہد کیسے جاری رکھ سکتے ہیں؟ ہمیں ان تمام ممالک سے سیکھنا ہے جنہوں نے کئی دہائیوں تک جدوجہد کی اور آخر کار وہ کامیاب ہو گئے۔ جدوجہد صرف آج کی بات نہیں ہے۔ گزشتہ 20 سالوں میں جب میں اور میرے ملک کے بیشتر نوجوان سیاسی اور سماجی طور پر فعال رہی ہوں، ہم نے تبدیلی کا مطالبہ کیا اور توقع کی کہ بہت جلد تبدیلی آئے گی۔
یہ آسان نہیں ہے۔ لوگوں کو باہر جانے اور لوگوں کو منظم کرنے پر قائل کرنا آسان نہیں ہے، کیونکہ افغانستان میں بہت سارے مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر جب انقلابی خیالات کی بات آتی ہے یا جب آپ انقلابی کے طور پر کام کرتے ہیں تو لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا مشکل ہوتاہے کیونکہ وہ کہیں گے کہ”اوہ! لیکن یاد رکھیں کہ کمیونسٹوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟“
یا یہاں تک کہ اگر آپ بطور مسلمان منظم ہوتے ہیں، تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ”لیکن طالبان نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟“
یا جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں، خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہ حامد کرزئی یا اشرف غنی حکومتوں کی طرف اشارہ کریں گے۔
بہت سے لوگ کسی بھی چیز پر یقین نہیں کر رہے ہیں، وہ خواتین کی تنظیموں پر یقین نہیں کر رہے ہیں، وہ پارٹیوں پر یقین نہیں کر رہے ہیں اور وہ ان تمام نظریات پر یقین نہیں کر رہے ہیں، اسکی وجہ ماضی میں ان نظریات کے استعمال کا طریقہ ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں نسلی مسئلہ اور نسلی گروہوں کا آپس میں جھگڑا ہے اور یہ تمام جنگجو ہمیشہ ان نسلی جھڑپوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام لوگوں کو اکٹھا کرنا مشکل تھا، یہی وجہ ہے کہ ہمیں مذہب، نسل، جنس یا یہاں تک کہ طبقے سے قطع نظر تمام لوگوں کا اتحاد حاصل کرنا ہے۔
میرے لیے اور میری جیسی بہت سی خواتین کے لیے افغانستان میں رہنا مشکل ہے، کیونکہ میں خود سڑکوں پر نہیں چل سکتی، میں کام نہیں کر سکتی، خاص طور پر جب ایک عوامی شخصیت ہونے کے ناطے یہ تمام دھمکیاں مل رہی ہیں اور یہ پتہ چل رہا ہے کہ وہ مجھے تلاش کر رہے ہیں۔ میں لوگوں کو منظم نہیں کر سکتی اور نہ ہی اپنے کام کو جس طرح چاہتی ہوں کر سکتی ہوں۔ جب آپ کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے، موبائل فون تک رسائی نہیں ہے، آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ بہت سی خواتین کارکنوں نے ملک چھوڑنے کا انتخاب کیوں کیا اور بہت سے انقلابیوں نے ملک کیوں چھوڑ دیا۔
ہمیں پر امید رہنا ہے لیکن سمجھ لیں کہ یہ سب چیزیں مشکل ہیں اور ان میں وقت لگتا ہے۔ یہ آسان نہیں ہے اور میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ میں جنگ کی نسل سے ہوں۔ میں 1983ء میں جنگ کے دوران پیدا ہوئی اور میں اس جنگ میں بڑی ہوئی۔ میں نہیں جانتی، شاید میں اس جنگ میں مر جاؤں گی، لیکن مجھے امید ہے کہ کم از کم میری بیٹی ایک پرامن ملک میں رہے گی اور اپنے تمام حقوق سے لطف اندوز ہو گی۔
بشکریہ گرین لیفٹ