لاہور (جدوجہد مانیٹرنگ) پاکستان خون کے رشتوں کے اندر شادیوں میں سرفہرست ہے اور ملک میں جینیاتی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد کا تخمینہ 14 سے 16 ملین کے درمیان ہے۔ پاکستان میں 16 لاکھ میوٹیشنز پائے گئے ہیں۔ پاکستان میں 73 فیصدشادیاں کزنوں کے مابین ہوتی ہیں اور ملک میں بہرے بچوں کی سب سے بڑی کمیونٹی موجود ہے۔
یہ انکشاف ’دی نیوز‘ پر شائع ہونے والی جرمنی کے نیورولوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر آرنڈٹ رالفز کی تحقیق کے مندرجات میں کیا گیا ہے۔
پاکستان اور جرمنی کے درمیان سفارتی تعلقات کی 70 سالہ تقریبات کے موقع پر شیئر کی گئی اپنی تحقیق سے متعلق انکا کہنا تھا کہ 55 ہزار سے زائد مریضوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے صرف لاہور میں جینیاتی امراض کے 15000 سے زائد مریضوں کی تشخیص کرتے ہوئے کہا کہ بیماریوں کے اس بڑھتے ہوئے تناسب کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ”یہ پوسٹ جینومک دور ہے، ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پربہتری آئی ہے۔ 5 سال پہلے تشخیص کی لاگت 15 ہزار ڈالر تھی، جو اب کم ہو کر 5 ہزار ڈالر ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس پر 100 سے 120 ڈالر تک لاگت آئے گی۔“
انکا کہنا تھا کہ ”کچھ ایسی بیماریاں ہیں جن کا علاج 5 ڈالر سے بھی کم میں کیا جا سکتا ہے۔ مریضوں کو پاکستان میں ٹیسٹ کیلئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور وہ تقریباً 6 سے 8 سال تک تشخیص میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، جلد تشخیص بہت اہمیت کی حامل ہے۔ میٹابولک امراض پاکستان میں سب سے زیادہ ظاہر ہو رہے ہیں۔“
انہوں نے جینیاتی امراض کے علاج کیلئے نایاب امراض کا مرکز قائم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان میں ڈاکٹروں کی طرف سے تجویز کردہ 80 سے 90 فیصد تشخیص غیر ضروری ہوتی ہے، جس سے صرف پیسہ بنایا جا رہا ہے۔ جینیاتی خدمات کی بدولت 70 فیصد پیدائشی نقائص کو روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں جینیاتی جانچ کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”پاکستان میں سالانہ 40 لاکھ سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں۔ زیادہ تر نوزائیدہ بچوں کی سکریننگ نہیں ہوتی جس کی قیمت محض 10 ڈالر سے بھی کم ہوتی ہے۔ نوزائیدہ بچے کا خون ایڑی سے لیا جاتا ہے اور مختلف ٹیسٹ کئے جاتے ہیں، لیکن یہاں کوئی منظم نوزائیدہ سکریننگ نہیں ہے۔ یہ سکریننگ دنیا میں ایک معیاری عمل ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کے ایک مطالعہ کے مطابق جینیاتی بیماریوں کی وجہ سے پاکستان کو ہونے والا نقصان کینسر اور کورونا پر ایک ساتھ خرچ ہونے والے سرمائے سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں اسے حل کرنے کیلئے سرفہرست مسئلہ ہونا چاہیے۔