لاہور (جدوجہد مانیٹرنگ)توانائی، خوردنی تیل اور بیجوں سے متعلق 10اشیا پر حکومت پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں میں درآمدی ٹیکس کا ایک تہائی یا 409ارب روپے سے زائد جمع کیا ہے۔ ان 10اشیا پر درآمدی ٹیکسوں میں بھاری اضافے کی وجہ سے قیمتوں میں مسلسل اضافہ بھی سامنے آیا ہے۔
’ٹربیون‘ پر شائع ہونے والے ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا نومبر2021کے دوران 409ارب روپے کی یہ آمدنی گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں کی گئی وصولیوں کے مقابلے میں 137فیصد زیادہ ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گزشتہ اتوار کو ٹیکس شرح میں 6روپے فی لیٹر سے زائد کا اضافہ کر کے پٹرول کی قیمتیں 146روپے فی لیٹر کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھی تھیں۔
رواں مالی سال کے جولائی تا نومبر کے دوران ایف بی آر نے پٹرول، قدرتی گیس، خام تیل، ہائی سپیڈ ڈیزل، بٹومینس کوئلہ، آر بی ڈی پام آئل، پام اولین، فرنس آئل، بیج اور کپاس کی درآمدات کے دوران 409ارب روپے ٹیکس جمع کیا۔
بڑا فرق خام تیل پر 17فیصد سیلز ٹیکس، پٹرول کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 5فیصد سے بڑھا کر 10فیصد کرنے اور پام آئل پر ٹیکس کی شرح میں تبدیلی کی وجہ سے پڑا، اس کے علاوہ خام تیل پر ایک نیا ٹیکس بھی عائد کیا گیا ہے۔
409ارب روپے کی آمدن گزشتہ 5ماہ کے دوران درآمدی مرحلے پر جمع کئے گئے1.2ہزار ارب روپے کے کل ٹیکس کے 33فیصد کے برابر تھی۔ یہ آمدن مالی سال 2021-22میں جولائی تا نومبر کی مدت میں وصول کئے گئے کل ٹیکس2.3ہزار ارب روپے کے 17فیصد کے برابر تھی۔
ایف بی آر کی جانب سے درآمدی مرحلے پر جمع کی گئی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں سے متعلق ڈیٹا میں بھاری بلواسطہ(ان ڈائریکٹ) ٹیکسوں کو نمایاں کیا گیا ہے، جو صارفین اوربالخصوص کم آمدنی والے لوگوں کو بری طرح سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ڈومیسٹک سیل کے دوران حاصل کئے جانے والے ٹیکس409ارب روپے کی وصولی سے بھی زیادہ ہیں۔
درآمدی ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے حصہ کی وجہ سے مجموعی ٹیکس وصولی میں بالواسطہ ٹیکسوں کا حصہ 67فیصد تک پہنچ گیا ہے، جس سے غریب اور متوسط آمدنی والے طبقے کو امیر طبقے سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔
اقتصادی سرگرمیوں میں توسیع اور ملکی پیداوارمیں کمی کی وجہ سے خوراک کی زیادہ درآمدات جیسے مختلف عوامل پاکستان کی درآمدات کو بھی نمایاں طور پر بڑھا رہے ہیں۔ مرکزی بینک نے رواں مالی سال کیلئے61ارب ڈالر کی درآمدات کا تخمینہ لگایا تھا لیکن وزارت تجارت نے 72ارب ڈالر کی ریکارڈ درآمدات کا تخمینہ لگایا تھا اور وہ بھی اب کم تخمینہ نظر آرہا ہے۔
صرف نومبر میں درآمدات تقریباً 7.9ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ ریکارڈدرآمدات کی وجہ سے جولائی تا اکتوبر 2021ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 5.1ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے، جو وزارت منصوبہ بندی اور ترقی کے سالانہ پلان2021-22میں دیئے گئے سالانہ تخمینے سے 122فیصد زیادہ ہے۔
ایل این جی کی درآمد پر سب سے بڑا ریونیو جمع کیا گیا ہے۔ گیس کی درآمد پر ٹیکس کی مد میں 79ارب روپے اکٹھے کئے گئے جو گزشتہ سال اسی مدت کے مقابلے میں 176فیصد یا 50.3ارب روپے زیادہ ہیں۔ ایل این جی کی درآمد ات کی مالیت دگنا سے بھی بڑھ کر 322ارب روپے ہو گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے بجٹ میں خام تیل کی درآمدات پر 17فیصد جی ایس ٹی لگانے کے بعد خام تیل کی درآمدات سے درآمدی مرحلے پر ٹیکسوں کی مد میں 71.5ارب روپے سے زائد کی وصولی ہوئی جو کہ 588فیصد یا تقریباً61ارب روپے زیادہ ہے۔
جولائی سے نومبر کے عرصہ میں ایف بی آر نے پٹرول کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کی مد میں 56.5ارب روپے ٹیکس وصول کیا۔ یہ 50فیصد یا 19ارب روپے زیادہ تھا۔ درآمدی مرحلے میں پٹرول تیسرا سب سے زیادہ ریونیو جمع کرنے کا موجب بنا۔
ہائی سپیڈ ڈیزل کی درآمد پر ٹیکس کی مد میں 42ارب روپے کی وصولی درآمدی مرحلے میں ٹیکس وصولی میں چوتھے نمبر کی وصولی تھی، جو 93فیصد یا 20فیصد زیادہ تھی۔
ایف بی آر کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں تاریخی طور پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی اہم وجہ درآمدی ٹیکس ہے، اورامریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی جلتے پر تیل کا کام کر رہی ہے۔
ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے اور ان علاقوں میں جہاں نہری پانی دستیاب نہیں تھا، وہاں زرعی پیداوری لاگت میں اضافے کی وجہ سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
نومبر کے دوران ٹرانسپورٹ گروپ کے افراط زر میں گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 24فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔
بٹومینس کوئلے کی درآمد درآمدی مرحلے میں پانچویں سب سے ریونیو اکٹھا کرنے والی درآمد تھی، جس نے 40.2ارب روپے مالیت کے ٹیکس جمع کروائے، جو کہ 25.2ارب روپے یا 168فیصد زیادہ تھے۔
پام اولین کی درآمدات سے 5ماہ میں 32ارب روپے درآمدی ٹیکس جمع ہوا، جو 44فیصد یا 10ارب روپے زیادہ ہے، اسی طرح آر بی ڈی پام آئل کی درآمدات سے 101فیصد یا 14.6ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 29ارب حاصل ہوئے۔
خوردنی تیل کے مختلف برانڈز نے اپنی قیمتیں 390سے 410روپے فی لیٹر تک بڑھا دی ہیں، جس سے ہر گھر متاثر ہوا ہے، کیونکہ حکومت وعدہ کرنے کے باوجود خوردنی تیل پر ڈیوٹی اور ٹیکس کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
فرنس آئل کی درآمدات سے 5ماہ کی مدت میں 22.4ارب روپے ٹیکس جمع ہوا، جو کہ 15.2ارب روپے یا 210فیصد زیادہ ہے۔ بیچوں کی درآمد سے حکومت کے ٹیکسوں کی مد میں 19.4ارب روپے حاصل ہوئے جو تقریباً 100فیصد زیادہ ہیں۔ کپاس کی درآمدات سے 17ارب روپے کی آمدن ہوئی جو کہ 11.7ارب روپے یا 219فیصد زیادہ ہے۔