التمش تصدق
جب بھی کسی معاشرے میں غربت، جہالت، ظلم، جبر، زیادتی، نا انصافی اور دیگر جرائم بڑھ جاتے ہیں تو ایسے معاشرے کو حیوانیت سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اس کے قانون کو جنگل کا قانون کہا جاتا ہے۔ آج جس قسم کے جرائم انسانی معاشرے میں عام ہیں وہ دیگر جانوروں سے اخلاقی برتری کے سارے دعوےٰ مسترد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیا دیگر جانور بھی بچوں سے ریپ کرنے کے بعد قتل کر دیتے ہیں، یا وہ مردہ جانوروں سے ریپ کرتے ہیں؟ آج ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں وہ ایک غیر فطری، بیمار اور گھٹن زدہ معاشرہ ہے، جس میں اکثریتی محنت کش طبقے کا دم گھٹ رہا ہے۔ انسان مہذب اس وقت ہوتا ہے جب اس کی تمام ضروریات پوری ہوں۔ اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ جب یہ ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں تو انسان سے بڑا درندہ کوئی نہیں ہوتا، جو آدم خوری، چوری اور ریپ سمیت دیگر جرائم کرنے سے دریغ نہیں کرتا ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی:
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
کوئی بھی معاشرہ جب زوال پذیر ہوتا ہے تو وہ اکثریتی انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا اہل نہیں رہتا، یہ زوال اکثر انقلابات کی کامیابی کی صورت میں ایک نئے نظام کے قیام کے ساتھ نئے عروج کو جنم دیتا ہے۔ جب کوئی نظام تاریخی طور پر زوال پذیر ہو جائے تو اسے بدلنے کے حوالے سے انقلابی تحریکوں کی عدم موجودگی میں نظام کا زوال اور بحران زندگی کے تمام شعبوں میں گراوٹ اور پستی کی صورت میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ، ملاوٹ، رشوت، قتل و غارت اور دیگر جرائم عام ہو جاتے ہیں۔ افراد انفرادی طور پر اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہر جائز اور نا جائز راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے رکے ہوئے سماج میں بہت سے نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں، جس کی وجہ سے انسان دوسرے انسان کو تکلیف اور اذیت دے کر خود خوشی محسوس کرتا ہے۔ جیسا کہ لینن نے کہا تھا ”غربت جب انقلاب پیدا نہیں کرتی ہے تو جرائم پیدا کرتی ہے“۔
آج سرمایہ دارانہ معاشرے پر نظر دوڑائی جائے تو ساری دنیا میں ہمیں ہر طرف اس نظام کی غلاظتیں، تعفن اور بیماریاں نظر آتی ہیں۔ اس نظام کا یہ زوال جہاں سرمایہ داری کی بے ہنگم ترقی ہوئی ہے ان معاشروں پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب کر رہا ہے۔ معاشی گراوٹ کے ساتھ ثقافتی اور اخلاقی گراوٹ بھی آسمان کوچھو رہی ہے۔ ان ممالک میں ہر قسم کے جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں ہر روز ٹیلی ویژن چینلوں پر کسی بچے یا بچی کے ریپ کے بعد قتل کی خبریں چل رہی ہوتی ہیں۔ بڑھتے ہوئے یہ جنسی جرائم گھٹن اور ان محرمیوں کا اظہار ہیں جو معاشرے میں بڑے پیمانے میں پائی جاتی ہیں۔
پاکستان میں غیر سرکاری تنظیم احل کی تحقیق کے مطابق گزشتہ برس صرف بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی رپورٹ شدہ تعداد 2960 تھی جو 2019ء کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ تھی، رواں سال اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ وہ جرائم ہیں جو رپورٹ کئے جاتے ہیں جبکہ سماجی بے عزتی کے خوف کی وجہ سے اس سے کئی گنا زیادہ جرائم ایسے ہیں جو پولیس کو رپورٹ کئے ہی نہیں جاتے ہیں۔
ان جرائم کی کیا وجوہات ہیں اور ان کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ دائیں بازو کے قدامت پرستوں کی نظر میں یہ سب جنسی جرائم عورتوں کی بے حیائی اور انسان کی دین سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ ان کے پاس اس کا بڑا آسان حل موجود ہے، نصف آبادی کو یعنی عورتوں کو چار دیواری میں مقید کر کے اور سخت سزاؤں کو رائج کر کے ان جرائم کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان کی یہ دلیل مان لی جائے تو پاکستان اکثریتی طور پر مسلم آبادی والا ملک ہے، جہاں بہت بڑی تعداد میں قدامت پسند رحجانات پائے جاتے ہیں، پھر یہاں تو ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جنوبی ایشیا کی دیگر ریاستوں کی نسبت پاکستان میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی شرح زیادہ کیوں ہے؟ جو لوگ ریپ کا ذمہ دار عورتوں کے لباس کو قرار دیتے ہیں، وہ دوسرے لفظوں میں جنسی جبر کا شکار ہونے والے کو ہی قصور وار قرار دیتے ہیں۔ انکی یہ منطق آج تک کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ بچوں اور بچیوں کے ریپ سے عورتوں کے لباس کا کیا تعلق ہے؟
لبرل خواتین و حضرات کے پاس بھی قدامت پسندوں سے زیادہ مختلف حل موجود نہیں ہے، وہ بھی جنسی جرائم کو سخت ترین قوانین اور سزاؤں کے ذریعے ختم کرنے کا حل تجویز کرتے ہیں اور اس کی وجہ قانون کی حاکمیت نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں ریپ کے واقعات بڑھنے کے بعد زینب الرٹ بل اور ریپ کے مختلف قوانین بنائے گئے ہیں لیکن جنسی جرائم کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھی ہے۔ ہو سکتا ہے سخت سزاؤں سے ان جرائم میں معمولی کمی واقع ہو لیکن اعداد و شمار اس کے برعکس ہیں اور یہ کوئی مستقل حل بھی ہر گز نہیں ہے۔
جنسی جرائم سمیت دیگر جرائم کو محض جبر اور سزاؤں کے ذریعے روکنا ایسے ہی ہے، جیسے بیماری کے خاتمے کے لیے مریض کو قتل کر دیا جائے۔ حکمران طبقہ اور دائیں بازو کے دانشور انفرادی طور پر مجرم کو سخت ترین سزا دینے پر اس لیے زیادہ زور دیتے ہیں تاکہ ایسے جرائم کو کسی فرد کا ذاتی فعل قرار دے کر اس نظام کی محرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے نفرت کے بجائے مریض سے نفرت کی جائے۔ حکمران طبقے کے زر خرید دانشور اور میڈیا اس نظام پر نظر نہیں پڑنے دیتے، جو نظام غربت، جہالت اور جرائم کو جنم دے رہا ہے۔
کارل مارکس نے کہا تھاکہ”فساد کی جڑ انسان کی ذہنی کمزوری نہیں بلکہ خود غرضانہ سماجی نظام ہے، جس نے انسان سے اس کی انسانیت چھین کر اسکی شخصیت کو برباد کر دیا ہے۔“ یہ توڑ پھوڑ اس وقت ہوئی جب معاشرہ طبقات میں تقسیم ہوا۔ طبقاتی معاشرے کے آغاز کے بعد محکوم طبقات کو حکمران طبقے نے جہاں دیگر ضروریات سے محروم رکھا، وہاں جنسی ضروریات سے بھی ان کو محروم رکھا گیا۔ غلام داری میں غلاموں پر حکمران طبقے کی اجازت کے بغیر جنسی عمل پر پابندی عائد تھی، جبکہ حکمران طبقے کے پاس درجنوں بیویوں کے علاوہ لونڈیاں بھی تھیں۔ طبقاتی معاشرے کے آغاز کے بعد عورت کے تمام جذبات کے اظہار پر پابندی عائد کر کے اس کو انسان کی بجائے حکمران طبقے کی ملکیت بنا دیا گیا۔ سرمایہ داری میں بھی دیگر بنیادی ضروریات کی طرح جنسی ضروریات کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ انسانی محنت کی طرح انسانی جسم کو بھی بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ دیگر صنعتوں کی طرح جسم فروشی کی صنعت بھی خوب منافع بخش ہے۔
جب سرمائے اور دولت کی بنیاد پر جنسی ضروریات کو خریدا اور بیچا جاتا ہے، تو سرمائے سے محروم محنت کش اور بے روزگار ان ضروریات سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ جب کوئی انسان معاشی مجبوری کے باعث اپنا جسم کسی کے حوالے کرتا ہے، تو یہ اس کا بھی ریپ ہی ہوتا ہے، جسے جائز تصور کیا جاتا ہے۔ پیشہ ور جسم فروشی کے علاوہ دولت اور طاقت کی بنیاد پر کسی کو قانونی طریقے سے حاصل کرنا بھی مہذب انداز میں خرید و فروخت ہے۔ انسان اپنی خواہشات پر قابو تو کر سکتا ہے لیکن جبلی ضروریات پر قابو نہیں پا سکتا ہے۔ جب اکثریت کے لیے بنیادی ضروریات کی تکمیل کے تمام جائز راستے بند ہو جاتے ہیں تو وہ ناجائز طریقے سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریپ کی ایک وجہ پورن انڈسٹری بھی ہے، جو اپنے منافعوں کے لیے غیر فطری جنسی تصورات قائم کرتی ہے، جس میں جنسی عمل کو جنسی تشدد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
پسماندہ ممالک میں مشترکہ اور غیر ہموار سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کی وجہ سے یہاں کا معاشرہ زیادہ تضادات کا شکار ہے۔ جدت اور پسماندگی کا مادی تضاد خیالات میں بھی اپنا اظہار کرتا ہے۔ ایسے ممالک میں سرمایہ داری نے پرانے طریقہ پیدوار کا تو خاتمہ کیا لیکن جدید سماج کی تعمیر نہیں کر سکی جس کی وجہ سے فرسودہ تصورات اور قدیم روایات ختم نہیں ہوئیں، بلکہ سرمائے کی مداخلت نے ان فرسودہ روایات کو زیادہ بے ہودہ اور مشکل بنا دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے اکثریت کے لیے خاندان کی کفالت کرنا ناممکن ہے۔ اگر کوئی شخص کفالت کے قابل بھی ہے تو قدیم روایات کے مطابق شادی جدید سرمایہ داری میں اتنی مہنگی ہے کہ محنت کش قرض میں ڈوبے بغیر ان روایات پر عمل نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان معاشروں میں محرومیاں اور جنسی گھٹن زیادہ ہے۔
ان محرومیوں کے خلاف آج جو انفرادی لڑائی جاری ہے اور وہ جرائم کی صورت میں اپنا بے ہودہ اظہار کر رہی ہے، اس سے اجتماعی طور پر لڑا جائے گا، تو انقلاب کی صورت میں ان جرائم کی مادی وجوہات کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ذرائع پیدوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ کر کے وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ایسا سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے، جہاں محرومیاں، مجبوریاں اور جرائم نہ ہوں، جہاں انسان کی ضرورتوں کا کاروبار نہ ہو۔