نقطہ نظر

انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پہلے سے موجود تھیں: نصیر الدین شاہ

انٹرویو: جیشا مینن

اقتباس و ترجمہ: قیصر عباس

بالی وڈ کے شہر ہ آفاق اداکار نصیر الدین شاہ کا کہنا ہے کہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور تعصب کی بنیادیں پہلے سے موجود تھیں۔ آج چونکہ ان متعصبانہ رویوں کو سیاسی پشت پناہی حا صل ہے یہ اب معاشرے میں ابھر آئے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ قوم سے میری وفاداری پر آج جو سوال اٹھائے جا رہے ہیں وہ پہلے سے موجود ہیں یا ایک نئی چیز ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بٹوارے کے دوران تشدد کی کہانیاں اب بھی سرحد کے دونوں جانب لوگوں کے دلوں میں موجود ہیں لیکن اب انہیں با ہر آنے کا موقع ملک گیا ہے۔

نصیر الدین شاہ امریکی یونیورسٹی سٹنفورڈ کے ایک ورچوئل پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے جس کا اہتمام سنٹر فار ساؤتھ ایشیا نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ”میرا تعلق ان لوگوں سے ہے جو صدیوں سے ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ میں یہا ں پیدا ہوا ہوں اور میں خود کو اس ملک کا شہری سمجھتا ہوں۔ اسے ثابت کرنے کے لئے مجھے اور کس چیز کی ضرورت ہے؟ میں یہ واضح کر دوں کہ میں قدامت پسند مسلم یا عملی مسلمان نہیں۔ ذاتی طور پر مجھے اس تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فلم انڈسٹری میں مجھے کبھی آگے بڑھنے سے روکا نہیں گیالیکن میرے اپنے ملک میں جب میری شہریت پر سوال کیا جاتا ہے تو مجھے غصہ آتا ہے۔“

پروگرام کی ناظم جیشا مینن اور ناظرین نے اداکار کی زندگی، فن، اردو زبان اور بالی وڈ فلم انڈسٹری پر کئی سوالات کئے۔ اس انٹر ویو کا اقتباس روز نامہ جدوجہد کے قارئین کے لئے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

ساحر لدھیانوی کی نظم ”آؤ کہ کوئی خواب بنیں“ آپ کی پسندیدہ نظم ہے۔ اس نظم کی اہمیت آج کے ماحول میں کیا ہے؟

نظم کا پہلا بندہے:

آؤ کہ کوئی خواب بنیں کل کے واسطے
ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی دل و جان کو ایسے کہ جان و دل
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں

ہندوستان نے ایک سپنا دیکھا تھا جو وقت گرزنے کے ساتھ اب ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ساحر نے یہ نظم آزادی کے بعد لکھی جب فیض سمیت دیگر شعرا بھی لکھ رہے تھے کہ وہ آزادی نہیں جس کی وہ امید کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ بھی امید تھی کہ اجالے ایک نہ ایک دن ضرور آئیں گے۔ ساحر کی یہ نظم بھی اسی تصور کو اجاگر کرتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ نظم آج کے ماحول میں بھی اسی طرح تازہ ہے جس طرح آزادی کے بعد تھی۔

ہم میں سے اکثر لوگ سکولوں میں اپنی مادری زبان سے پہلے انگریزی سیکھتے ہیں۔ آپ کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے۔ یہ بتائیے کہ ا ٓپ کا اپنی مادری زبان تک واپسی کا سفر کیسا تھا؟

ایک زمانے میں میرا خیال تھا کہ اچھے مصنف، شاعر اور اچھے ڈرامہ نگا ر صرف انگریزی زبان میں ہی ہوتے ہیں۔ ایک عرصے کے بعد میں اپنے ملک کی ادبی میراث سے واقف ہوا۔ جب میں نے اپنے ملک کے لکھاریوں، منشی پریم چند، کرشن چندر، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں پڑھیں تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ دراصل اردو میری مادری زبان ہے جو میرے گھر میں بولی جاتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ میں اور میرے بھائیوں کو بورڈنگ سکول بھیج دیا گیا جہاں ہماری تعلیم انگریزی میں ہوئی۔ اس دوران اردو ہمارے لاشعور میں کہیں پیچھے چلی گئی اور انگریزی ہماری روزمرہ کی زبان ٹھہری۔ اس دوران ہم جب گھر جاتے تو سب بھائی انگریزی میں بات کرتے اور ہماری والدہ، جو ناخواندہ تھیں، ہماری بات چیت میں شامل نہیں ہو سکتی تھیں۔ سکول پاس کر کے مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میں انگریز ہوں۔ علی گڑھ یونیورسٹی پہنچ کر اردو سے میری دوبارہ واقفیت ہوئی۔ میں نے یہاں اردو لکھنا اور بولنا سیکھا۔ اس دوران اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں والدہ کو خط لکھتا تو مجھے یقین ہے وہ ضرور ہنستی ہوتی ہوں گی۔

اس طرح میں نے اپنی زبان کو دوبارہ دریافت کیا۔ خوش قسمتی سے اداکاری میرا پیشہ بن گئی اور اس طرح میں نے اردو میں مزید مہارت حاصل کی۔ ٹی وی سیریزمرزا غالب کے ذریعے میں نے اردو ادب اور شاعری کے بارے میں بہت کچھ سیکھا، نہ صرف غالب کی شخصیت بلکہ ان کی شاعری، ان کے خیالات، غم اور خوشیاں اور سب سے بڑی بات اردو زبان کی باریکیوں کا ادراک۔ اس سے پہلے میرا خیال تھا کہ اردو شاعری صرف عاشقوں اور شرابیوں کی کہانیاں ہیں۔ اس طرح علی گڑھ اور پھر مرزا غالب کے مطالعے نے مجھے اردو ادب سے روشناس کرایا۔

آپ کے نزدیک آرٹ کا مقصد کیا ہے؟ کیا اسے زندگی کا عکاس ہونا چائیے یا پھر اسے زندگی کے غموں سے نجات دلانے کے لئے ایک متبادل میڈیم کے طور پراپنا کردار ادا کرنا چاہیے؟

ایک وقت ایسا بھی تھا جب میرا خیا ل تھا کہ آرٹ برائے آرٹ ہونا چا ہیے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ شاعر اور لکھاری اپنے احساسات کا اظہار کر سکتے ہیں لیکن اداکاروں کے لئے یہ ممکن نہیں کیوں کہ وہ اپنی اداکاری کے ذریعے دوسروں کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے خیال میں انہیں ایسا کردار کرنا چائیے جس میں وہ اپنے نظریات اور اپنے اردگرد کے حالات کو پیش کر سکیں۔ اگروہ اپنے فن کے ذریعے یہ نہ کر سکے تو وہ اداکار نہیں ہیں۔ ایک اداکار کو اپنے جذبات کے اظہار کے مواقع نہیں ملتے مگر وہ ایسے آرٹ کا انتخاب ضرور کر سکتاہے جس میں اس کے نظریات کی نمائندگی ہو سکے۔ میرے خیال میں اداکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لئے وہ کردار اور ماحول منتخب کرے جس میں اس کے نظریات کو جگہ مل سکے۔ فلمی دنیا کے لکھاریوں کا فرض بھی ہے کہ وہ اپنے ماحول کی سچائی سے عکاسی کریں۔ اداکار کوایک سماجی کارکن بھی ہونا چاہئے۔ اگرچہ آرٹسٹ انقلاب نہیں لا سکتا مگر وہ اردگرد کے مسائل کی عکاسی کر سکتا ہے۔

ایک طرف جب ملک میں ترقی پسند ی زوال پر ہے کیا آپ کے خیال میں فلم انڈسٹری میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں؟ کیا آپ پر امید ہیں کہ اس پس منظر میں فلم معاشرے کے لئے امید اور نئے امکانات کا ذریعہ بن سکتی ہے؟

میں ہندی فلم انڈسٹری سے اتنا پر امید نہیں ہوں جس کا واحد مقصد لوگوں کو تفریح مہیا کرنا ہے۔ میں تفریحی فلموں کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سینما تفریح سے آگے کچھ اور بھی ہے جو آج کی ہندی فلم میں مجھے یہ نظر نہیں آتا۔ مستقبل میں اگر کوئی یہ جاننا چاہے گا کہ ہندی فلم کیا تھی اور اسے سلمان خان کی فلموں سے واسطہ پڑے تو یہ ایک بہت بڑا المیہ ہو گا۔ لیکن میں آج کی نوجوان نسل سے پر امید ہوں۔ انہوں نے کووڈ کے دوران بہت کچھ لکھا اور سوشل میڈیا پر تخلیقی جوہر دکھائے۔ مجھے امید ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری ایک دن یہ سوچنا شروع کر دے گی کہ فلمیں صرف منافع کمانے کا ذریعہ نہیں ہیں۔

کیا یہ جنوبی ایشیا کے باسیوں کی مشترکہ ذمہ داری نہیں کہ وہ سرحدوں کی لکیر کو پھلانگ کر مشترکہ آرٹ کی تخلیق کریں؟

یہاں سے اداکاروں، شاعروں اور ہدایت کاروں کی ایک بڑی تعداد بٹوارے کے بعد پاکستان چلی گئی اور اس نے فن کے اعلیٰ معیار قائم کئے۔ لیکن وقت کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہاں سند ھ کی سیکولر اور لبرل مو سیقی کو دبایا گیااگرچہ اسے پوری طرح ممنوع نہیں قرار دیا گیا۔ سرحدوں کے پار فنی دنیامیں تعاون پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بچپن میں ہمارا خیال تھا کہ اگرانڈیا اور پاکستان کی مشترکہ کرکٹ ٹیم بن جائے تو دنیا کی کو ئی ٹیم اسے ہرانے کے خواب نہیں دیکھ سکے گی۔ سیاست کی دنیا میں بھی ایسا ہو سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس شعبے میں متعصب رہنماؤں نے حالات بہت بگاڑ دیے ہیں۔

اس ضمن میں، میں نے تھوڑا بہت اپنے طور پر کچھ کیا ہے۔ میں نے دو پاکستانی فلموں میں کام کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ ’خدا کے لئے‘ میری زندگی کی سب سے اہم فلم تھی۔ کیوں کہ اس نے ان تمام مسائل کا احاطہ کیا جن سے میں بھی ایک قدامت پسند خاندان کا فرد ہونے کے ناطے اپنے لڑکپن میں دو چار ہوا تھا۔ میں کئی بار پاکستان جا چکا ہوں جہاں مجھے بہت پذیرائی بھی ملی۔ اگر دونوں ملکوں کے درمیان کوئی مشترکہ فلم بنی تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔

آپ نے فلم اور تھیٹر کے شعبوں میں بہت لازوال کردار ادا کئے ہیں لیکن نوجوانوں کی تربیت میں آپ نے جو کام کیا ہے اس پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟

اداکاری کی ٹریننگ کے دوران مجھے صرف یہ بتا یا گیا کہ اپنے کردار سے مخلص رہیں، محنت کریں اور سگریٹ نوشی بند کریں اور یہ کہتے ہوئے ٹیچر خود سگریٹ پھونک رہے ہوتے تھے۔ لیکن کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ آواز کو کس طرح کنٹرول کیا جائے، اپنی جسمانی نشوونما کیسے کی جائے، جو کہ اداکاری کی بنیادی ضروریات ہیں۔ جو چیزیں ہمیں پڑھائی جا رہی تھیں وہ میرے لئے بے معنی تھیں اور میں ان کلاسوں سے بھاگنے لگا کہ وہ میرے لئے بہت بورنگ تھیں۔ میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ٹیچر بنوں گا۔ میرا خیال تھا کہ میں مشہور ایکٹر بنوں گا، پیسے کماؤں گا اور اچھی گاڑیا ں خریدوں گا۔ فلم انسٹیٹیوٹ میں آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ پروفیسر تنوجا وہ پہلے ٹیچر تھے جنہوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ میں کچھ کر سکتا ہوں۔ ہم نے دوسرے ملکوں کی جو فلمیں دیکھیں وہ حیران کن تھیں بلغاریہ، کوریا، جرمنی، اٹلی اور جاپان کی فلموں نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں نے یہاں ایک ٹیچر کی حیثیت سے نوجوانوں کوان امور پر تربیت دینا شروع کی جو اداکاری کی جان تھیں۔ جب وہ پوچھتے کہ اداکاری کا ریاض کیسے کیا جاتا ہے تو میں کہتا کہ زندگی کا بغور مطالعہ کریں اور اسے اپنی ذات سے منسلک کریں۔ غریب آبادی کو صرف دور سے دیکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک آپ اس کی سرگرمیوں میں شامل نہ ہوں۔

کیا آپ کی اداکاری میں ابتدا سے اب تک تبدیلیاں آئیں؟

میں این ایس ڈی (National Drama Institute) میں بہت اونچی ہواؤں میں تھا۔ اوم پوری میرے کلاس فیلو تھے جو واقعی اداکاری سیکھنا چاہتے تھے۔ بیس سالہ نوجوان کی حیثیت سے میں نے ادارے سے کچھ نہیں سیکھا لیکن اوم نے اس ادارے کا صحیح فائدہ اٹھایا۔ اس وقت تو مجھے اندازہ نہیں ہوا لیکن ایک عرصے بعد میں نے اوم پوری کے کام سے بہت کچھ سیکھا۔ میں نے میتھڈ ایکٹنگ (Method Acting) سے اداکاری کے اسرار و رموز سیکھے جو امریکی اداکاری کا ایک طریقہ کار ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ کردار میں سما جانا بہت ضروری ہے جو میرے نزدیک ناممکن ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کو یہ کس طرح بتائیں کہ آپ کا کردار ہے کیا اور وہ کس طرح زندگی گزار رہا ہے، کیا سوچتا ہے۔

ساحر نے کہا تھا ’آؤکچھ خواب بنیں‘ تو یہ تخیل یا ’Imagination‘ کا عمل اداکاری میں کہاں تک فائد ہ مند ہے؟

میں نے اپنے مطالعے اور اداکاری کے تجربے سے بتانے کی کوشش کی کہ بہتر اداکار بننے کے لئے ہمیں اپنے تخیلات (Imagination) کا استعمال کرنا ہو گا کہ اداکاری میں تخیل بہت اہم ہے۔ پہلے تو یہ کہ خود کو لوگوں کے کردار میں رکھ کر دیکھیں۔ اردگرد کی زندگی کو دیکھنا بہت اہم ہے۔ آپ کے گھر میں صفائی والی، آپ کا خانساماں، وہ آدمی جو مین ہو ل میں اتر کر اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے۔ سوچئے کہ وہ کس طرح یہ سب کرتے ہیں۔ تخیل ایک بڑی طاقت ہے اور اداکار اس کے ذریعے اپنا فن نکھار سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ایک اداکار کیلئے ضروری ہے کہ سماجی کارکن کے طور پر بھی کام کریں اور اسے زندگی کا حصہ بنائیں۔ سماجی مسائل سے ہم آہنگی اداکاری کو نکھارتی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts