ارسلان شانی
مظلوم قومیتوں کے کاسا لیس حکمران طبقے کا تاریخی کردار قومی سوال کو اپنی حصہ داری کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی بنیادی انسانی ضروریات کے حصول کے لیے تحریک پنپنا شروع کرتی ہے تو یہ دوست کا روپ دھار کر قومی سوال کو اجاگر کرنا شروع کر دیتا ہے۔
بجلی فری اور ایشیا خوردونوش پر سبسڈی کے حصول کے لیے شروع ہونے والی تحریک میں آئینی ترمیم جیسے مسئلہ کو ابھار کر شناخت کی بحث سے اصل مطالبات پر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ چونکہ مقامی حکمرانوں کے لیے گھمبیر مسائل پیدا ہو رہے تھے تو تمام پارٹیوں نے اس مسودے کی مخالفت شروع کر دی۔ وہاں ہی نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار یہاں کے نام نہاد ترقی پسند بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو گے۔ اکثر قوم پرستوں کی یہ پوزیشن تھی کہ جب روایتی پارٹیوں کے لوگ ہی ہمارے موقف کی حمایت کر رہے ہیں تو ہم کس لئے یہاں تضاد بنانے والی گفتگو کریں۔ اسی وجہ سے اظہارِ رائے پر بہت زیادہ قدغن لگانے کی کوشش کی گئی۔ عوام کا شعوری لیول کیا ہے۔ عوام کس مطالبہ کے گرد مسلسل تحریک میں مداخلت کرتی جا رہی ہے۔ ان تمام سوالات کو سمجھنے میں قاصر یہ مخلوق ”ریاست ہو گی تو سیاست ہو گی“ کہ نعرے کے گرد کاسا لیس حکمران طبقات کے حقوق کی جنگ لڑنے میں مصروف ہو گئے۔ حاصلات پسندی، خوف اور موقع پرستی کا ایندھن بننے والے یہ نام نہاد انقلابی خوشامد کرتے تھکتے نہیں تھے اور ساتھ حقائق بیان کرنے والوں پر اتحاد توڑنے کی سازشوں جیسے الزامات لگاتے ہوئے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ اتنی سی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ تحریک آزادی، انقلاب کی چنگاری میں بدل سکتی ہے، ہمیں اس کو روکنے یا سچ کو بیان کرنے سے کترانے کے بجائے مزید تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو عوام غم و غصے کا اظہار کر رہی تھی وہ کوئی روایتی پارٹیوں کی وجہ سے نہیں تھی (جیسے تاثر دینے کی مسلسل کوشش ہوتی رہی) بلکہ اس نظام کا حاشیہ برداروں کے ظلم کے ستائے لوگ تھے۔ نارمل حالات میں حکمران طبقات کی ہی نفسیات لوگوں کے شعور پر اثرانداز ہوتی ہیں جس وجہ سے لوگ ووٹ کے ذریعے سے مختلف پارٹیوں میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن تحریکوں میں وہ نجات دہندہ کسی حکمران کو نہیں سمجھ رہے ہوتے بلکہ متبادل کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں ہمیں مکمل نظریاتی پوزیشن کے ذریعے عوام کو متبادل فراہم کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ یہی واحد طریقہ کار ہوتا ہے کہ آپ وسیع تر عوام کو مروجہ نظام کے خلاف منظم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ فوری نوعیت کے مطالبات کے گرد بننے والی تحریک ایک دم سے کوئی انقلاب برپا کر دیتی ہے اور یہ بھی کہنا غلط ہے کہ یہ تحریک کسی بڑی انقلابی طوفان کو دعوت نہیں دے سکتی۔ ایسے میں انقلابیوں کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ ایگریسو بنیادوں پر وسیع تر عوام کو حقائق سے روشناس کراتے ہوئے مسلسل جدوجہد کے راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کریں۔
جلد بازی ہی حاصلات جیسے خیالات کو جنم دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسی وجہ سے ایسی تحریکوں میں دائیں بازوں اور فاشسٹ رحجان کو مداخلت کرنے کا آسان راستہ ملنا شروع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے لیے مذاکرات کے عمل سے گزارنا حکومت کے لئے ناگزیر تھا۔ پیپلز رائٹ فورم کا دھرنا دینے کا فیصلہ ہی تحریک کو زائل کرنے کی کوشش لگتی ہے۔ ایک الائنس جس کے بنائے جانے کا مقصد ہی ریاست اور شہریوں کے درمیان پیدا ہونے والی لڑائی کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا ہے تو اس سے مذمتی سیاست کی امید رکھنا بھی نظریاتی دیوالیہ پن کا عمومی اظہار ہے۔ اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو حکومتی کمیٹی اور پیپلز رائٹ فورم کی قیادت کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کا تو واضح حکومتی کمیٹی کی برتری نظر آتی ہے۔
بلآخر حکومت عوامی تحریک کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور ہوئی تو اس فورم نے مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے کا اعلان کیا۔ یہی سے مصلحت کا واضح اظہار ہوا ہے۔ پہلے تو لیاقت حیات کی موجودگی کے بغیر کسی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکاری تھے لیکن اچانک سے اپنی ہی ہٹ دھرمی سے دستبردار ہو جانا بھی مصلحت کی طرف پہلا قدم لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی مطالبات تھے اگر ایک ایک پوائنٹ کو بغور پڑھیں تو واضح حکومتی کمیٹی کی برتری نظر آتی ہے۔ پندرہویں ترمیم موجودہ تجاویز میں رد و بدل کر کے اسمبلی میں پیش ہو سکتی ہے، پوری تحریک میں ایک ہی گھڈ کے مقام پر پر تشدد واقع پیش آیا تو مذاکرات میں وہ مطالبہ بھی نہ مانا گیا اور تحقیقاتی کمیٹی کا جھانسا دے دیا گیا۔ اسی طرح بجلی کا مطالبہ اور آٹے پر سبسڈی کے حوالے سے بھی کمیٹیاں ہی بنائی گئی ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان مذاکرات میں حکومت سے زیادہ اس الائنس کی قیادت عوامی تحریک سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔ چونکہ تحریک اب پورے پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر میں تیزی سے پھیل رہی تھی۔ مختلف مقامات پر دھرنے شروع ہو گئے تھے۔ ”مفت بجلی ہمارا حق ہے“ کا نعرہ ہر طرف گونجنے لگا تھا۔ پیہہ جام ہڑتال میں ٹرانسپورٹرز نے خود سے گاڑیوں کو چلانے سے انکار کر دیا۔ شٹر ڈاؤن کی کال پر وہ چھوٹے شہر بھی مکمل بند تھے جہاں کوئی انجمن موجود ہی نہیں تھی۔ جہاں ایک طرف اس عوامی منظم طاقت نے حکومت وقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا وہاں ہی الائنس کی قیادت کے لئے بھی خوف کا باعث بنا۔ دونوں طرف کے خوف کا اظہار طے پانے والا معاہدہ ہے جس میں واضح طور پر حکومت اور الائنس دونوں ہی فیس سیونگ کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ عوام اندھی ہے اور وہ اپنے تلخ تجربات سے سیکھ نہیں رہی۔ ان مذاکرات کے ذریعے تحریک کا راستہ روکنے کی کوشش ضرور ہوئی ہے لیکن تحریک کو پسپا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بنیادی مسائل کے گرد بننے والی اس تحریک نے سماج میں بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
ایک طرف تو عام عوام کے شعور پر کافی اثرات مرتب ہوئے تو دوسری طرف ڈیڈ سیاسی کارکنان کے لیے بھی حوصلے کا باعث بنی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وقتی تحریک میں ٹھہراؤ آ جائے لیکن تحریک جاری ہے اور رہے گی۔ کیونکہ یہ مذاکرات ایسا لولی پاپ ہے جو بہت لمبے عرصے تک عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ناکافی ہے۔ ہمارا فریضہ یہی ہے کہ اس لڑائی کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں۔ جہاں حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کے میدان میں منظم ہونے کی ضرورت ہے وہاں ہی ہمیں موقع پرستوں پر بھی کڑی تنقید کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ لڑائی ظالم اور مظلوم کی لڑائی ہے جو ناقابل مصالحت ہے۔ تحریکوں میں اتار چڑھاؤ ناگزیر ہوتے ہیں۔ سیدھی لکیر میں تحریکیں کبھی نہیں چلتیں۔ ہمیں گہرائی سے تحریکوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب حکمرانوں کے تمام ہتھکنڈوں کو پھلانگ کر انقلابی طوفان اٹھے گا۔ جو سرمائے کے ظالم نظام کو قائم رکھنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے موت کا پیغام لائے گا۔