لاہور (جدوجہد رپورٹ) سوئٹزرلینڈ حکومت نے ایک مسودہ قانون پارلیمنٹ کو بھیجا ہے جس میں عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے یا نقاب پہن کر قومی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر ایک ہزار ڈالر (ایک ہزار سوئس فرانک) جرمانہ عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
تاہم کابینہ نے برقع پابندی پر ضابطہ فوجداری کے تحت عملدرآمد کرنے اور ایک ہزار فرانک جرمانے کی سزا کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔
’الجزیرہ‘ کے مطابق مسودہ قانون بدھ کو بھیجا گیا تھا۔ چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی کا فیصلہ گزشتہ سال مارچ میں ایک ریفرنڈم کے بعد کیا گیا تھا۔ ’برقع پابندی‘ کے نام سے مقبول پابندی کی اس تجویز کو 51.2 فیصد ووٹروں کی حمایت ملی تھی۔ تاہم اس وقت اسے اسلاموفوبک اور جنس پرست قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
کابینہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’چہروں کو ڈھانپنے پر پابندی کا مقصد عوامی تحفظ اور امن کو یقینی بنانا ہے، سزا ترجیح نہیں ہے۔‘
چہرے کو ڈھانپنے پر پابندی کی یہ تحریک دائیں بازو کی ’ایگرکنجن کمیٹی‘ کی طرف سے شروع کی گئی تھی، جس میں سوئس پیپلز پارٹی کے سیاستدان بھی شامل ہیں۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ سوئٹزرلینڈ میں سیاسی اسلام کے اقتدار کے دعوؤں کے خلاف مزاحمت کو منظم کررہے ہیں۔
اس بل میں برقع یا نقاب کا نام نہیں دیا گیا، لیکن لوگوں کو عوامی مقامات جیسے پبلک ٹرانسپورٹ، ریستوران یا سڑک پر چلنے پر اپنا چہرہ چھپانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہ آنکھیں، ناک اور منہ نظر آنا چاہیے۔
مثال کے طور پر ایک مسلمان عورت اپنے بالوں کو ڈھانپنے کیلئے حجاب پہن سکتی ہے، لیکن وہ نقاب نہیں پہن سکتی، ایسا لباس جو صرف آنکھیں دکھاتا ہے، یا برقع، یا پورے جسم کا پردہ جو چہرے کو بھی ڈھانپتا ہو۔ تاہم عبادت گاہوں میں ایسے لباس کی اجازت ہے۔
اس قانون میں دیگر مستثنیات بھی ہیں، جن میں سکیورٹی، آب و ہوا یا صحت کی وجوہات کی بنا پر چہرے کو ڈھانپنا شامل ہے، یعنی لوگوں کو کورونا سے حفاظت کیلئے فیس ماسک پہننے کی اجازت ہے۔
مسلم گروپ اس پابندی کی مذمت کر رہے ہیں۔ فیڈریشن آف اسلامک آرگنائزیشنز نے کہا کہ ’آئین میں ڈریس کوڈز کومتعین کرنا خواتین کیلئے آزادی کی جدوجہد نہیں، بلکہ ماضی کی جانب ایک قدم واپس جانا ہے۔ اس بحث میں غیر جانبداری، رواداری اور امن قائم کرنے کی سوئس اقدار کو نقصان پہنچا ہے۔‘
8.6 ملین افراد پر مشتمل سوئس آبادی کا پانچ فیصد مسلمان ہیں، جن میں سے زیادہ تر ترکی، بوسنیا، ہرزیگووینا اور کوسوو سے یہاں منتقل ہوئے ہیں۔
لوسرن یونیورسٹی کے اندازوں کے مطابق ملک بھر میں صرف 30 خواتین ہی نقاب پہنتی ہیں۔
سوئٹزرلینڈ ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے، جہاں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی ہے۔ فرانس نے 2011ء میں عوامی مقامات پر پورے چہرے کے نقاب پہننے پر پابندی عائد کی تھی، جبکہ ڈنمارک، آسٹریا، نیدرلینڈز اور بلغاریہ میں عوامی مقامات پر چہرے کو ڈھانپنے پر مکمل یا جزوی پابندی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نقاب پر پابندی کو ایک خطرناک پالیسی قرار دیا ہے، جو آزادی اظہار اور مذہب سمیت خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔