لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے تقریباً تمام 30 موبائل فون اسمبلی یونٹس بند ہو گئے ہیں۔ ان اسمبلی یونٹس میں 3 غیر ملکی برانڈز کے ذریعے سے چلائے جا رہے تھے۔ یہ اسمبلی یونٹس بند ہونے کی وجہ سے تقریباً 20 ہزار سے زائد ملازمیں کا مستقبل داؤپر لگا ہوا ہے۔ مینوفیکچررز کا کہنا ہے کہ درآمدی پابندیوں کی وجہ سے ان کے پاس خام مال ختم ہو گیا ہے۔
’ڈان‘ کے مطابق زیادہ تر کمپنیوں نے ملازمین کو اپریل کی تنخواہوں کا نصف ایڈوانس ادا کرنے کے بعد فارغ کر دیا ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ پروڈکشن دوبارہ شروع ہوتے ہی انہیں واپس بلایا جائے گا۔ موبائل فون بنانے والی ایک کمپنی کے ذمہ دار کا کہنا تھا کہ ہمیں افسوس ہے کہ کمپنیوں کو رمضان میں ملازمین کو گھر بھیجنا پڑ رہا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ’میرے خاندان کے تین موبائل پروڈکشن یونٹس ہیں اور سب بند ہیں۔ وزارت خزانہ کی پالیسیاں نااہلی پر مبنی اور عجیب و غریب ہیں۔‘ انکا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے درآمد کنندگان کیلئے لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سی) حاصل کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اس سے موبائل فون مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے اہم آلات اور پرزوں کی درآمد روک دی گئی ہے۔
پاکستان موبائل فون مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے بھی ایک خط میں وزارت آئی ٹی کو آگاہ کیا کہ مقامی موبائل سپلائی تقریباً بند ہو چکی ہے اور مارکیٹوں میں بھی موبائل فون کی قلت کا سامنا شروع ہو چکا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال سے صارفین کو بھی مشکلات کا سامنا ہے، جنہیں مقامی طور پر تیار کئے جانے والے موبائل سیٹ کیلئے کافی زیادہ قیمتیں ادا کرنی پڑ تی ہیں۔
موبائل مینوفیکچررز کے مطابق اس صنعت کے پوری صلاحیت سے کام کرنے کیلئے ہر ماہ 170 ملین ڈالر کی درآمدات درکار ہوتی ہیں، لیکن حکومت ڈالر کی قلت کی وجہ سے ایل سی کھولنے کی اجازت نہیں دے رہی اور دسمبر کے آخری ہفتے سے کوئی ایل سی نہیں کھولی گئی۔
پاکستان گزشتہ سال اپریل سے اوسطاً ہر ماہ 25 لاکھ سے زیادہ فون تیار کر رہا ہے، جو کل طلب کا تقریباً 90 فیصد پورا کرتا ہے اور صرف اعلیٰ درجے کے سیٹ ہی درآمد کئے جاتے ہیں۔ ایسوسی ایشن نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ مناسب مقدار میں پرزہ جات کی درآمد کی اجازت دے، جو کم از کم صنعت کو نصف صلاحیت پر چلنے کیلئے کافی ہو۔