لاہور (جدوجہد رپورٹ) پنجاب کے ضلع سرگودھا میں ایک ہجوم نے احمدی برادری سے تعلق رکھنے والی عبادت گاہ پر حملہ کر کے اس کے کچھ حصوں کو مسمار کر دیا ہے۔
’ٹربیون‘ کے مطابق کمیونٹی کے ترجمان عامر محمود نے الزام عائد کیا کہ واقعے کے وقت مقامی پولیس اہلکار موجود تھے، لیکن انہوں نے مشتعل ہجوم کو رکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ڈی پی او سرگودھا فیصل کامران کا کہنا ہے کہ معاملے کی درخواست موصول ہونے کے بعد حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس قانون پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔
احمدی کمیونٹی کی یہ عبادت گاہ 1905ء میں سرگودھا کی تحصیل بھیرہ کے گاؤں گھوگھیاٹ میں بنائی گئی تھی اور آج تک یہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ مقامی پولیس کے مطابق 16 اور 17 اپریل کی درمیانی شب 11 بجے کے قریب 200 سے 250 افراد عبادت گاہ کے باہر پہنچے۔ پولیس کے مطابق ہجوم کے کچھ ارکان نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے اور وہ نعرے لگا رہے تھے۔
چند مشتعل افراد عبادت گاہ کے چھت پر گئے اور گنبد سمیت عمارت کے کچھ حصوں کی بے حرمتی کی۔ ترجمان احمدی کمیونٹی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب سے افسوسناک بات یہ تھی کہ پولیس کی موجودگی میں عبادگاہ کی بے حرمتی کی گئی۔ انکا کہنا تھا کہ عبادت گاہ بہت پرانی تھی اور احمدیوں اور دیگر مقامی باشندوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمیونٹی پولیس سے حملہ آوروں کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست کر رہی ہے، لیکن خدشہ ہے کہ ان کی درخواست پر توجہ نہیں دی جائے گی اور کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس واقعے سے قبل مقامی مسجد کے امام قاری خلیل الرحمان نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ احمدی عبادت گاہ کے اندر بچوں کو قرآن پڑھایا جا رہا ہے اور وہ قانونی طو رپر ایسا نہیں کر سکتے۔
ضلعی انتظامیہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے، جس پر ضلعی امن کمیٹی کے اجلاس میں پہلے ہی بات ہو چکی ہے۔ کمیٹی نے متفقہ طو پر عبادت گاہ کے باہر ایک بورڈ لگانے کی منظوری دی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ مقام احمدیوں کی عبادت گاہ ہے۔