لاہور (جدوجہد رپورٹ) بین الاقوانی تحقیقی ادارے Ipsos نے پاکستان کے 5 اہم شعبوں میں سالانہ 956 ارب روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ میں رئیل اسٹیٹ، چائے، سگریٹ، ٹائر، آئل لبری کنٹس اور فارما سیوٹیکل انڈسٹریز میں ہونے والی ٹیکس چوری پر روشنی ڈالی ہے۔
’پی کے ریونیو‘ کے مطابق Ipsos نے انکشاف کیا ہے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں 500 ارب روپے، سگریٹ انڈسٹری میں 240 ارب روپے، چائے کے شعبہ میں 45 ارب روپے اور فارماسیوٹیکل سیکٹر میں 65 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائرز اور آئل لبری کنٹس کے سیکٹر میں مجموعی طور پر 106 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف ان 5 شعبوں میں ٹیکس چوری کی وجہ سے سالانہ 956 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ٹیکس چوری کی بنیادی وجہ کمزور قانون سازی، لین دین میں ہیرا پھیری اور کیش ڈیلنگ بتائی جاتی ہے۔ مناسب دستاویزات اور قانون کے نفاذ کے ساتھ رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے ٹیکس ریونیو کی مد میں ایک اندازے کے مطابق 500 ارب روپے اضافی جمع کئے جا سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سگریٹ انڈسٹری میں بھی ٹیکس چوری خطرناک حد تک ہے۔ سمگل شدہ سگریٹ کا مارکیٹ کا 38 فیصد حصہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سگریٹ کی غیر قانونی تجارت نے کل مارکیٹ کا 48 فیصد گھیر لیا ہے، جس کی مالیت تقریباً 40 ارب روپے سالانہ ہے، جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر فروخت ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مارکیٹ کا 65 فیصد ٹائر غیر قانونی یا سمگل شدہ ہے، جبکہ صرف 20 فیصد مقامی طور پر تیار کئے جاتے ہیں اور 15 فیصد قانونی طور پر درآمد کئے جاتے ہیں۔
ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق قانونی ٹائر انڈسٹری نے 2022ء میں ٹیکس ریونیو میں 25 فیصد حصہ ڈالا تھا۔
آئل لبریکنٹس کی صنعت نے گزشتہ مالی سال کے دوران 187 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔ یہ صنعت 70 فیصد قانونی طور پر کام کرتی ہے، جبکہ باقی 30 فیصد غیر قانونی مارکیٹ میں کام کرتی ہے۔ غیر قانونی تجارت کو کنٹرول کرنے سے حکومتی خزانے میں 56 ارب روپے اضافی آنے کی صلاحیت موجود ہے۔ مجموعی طور پر ٹائر اور اٹو لبریکنٹس کے شعبہ میں ٹیکس چوری 106 ارب روپے ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر قانونی ادویات کی فروخت سے قومی خزاے کو تقریباً 65 ارب روپے سالانہ نقصان ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر چائے فروش ملک کی چائے کی طلب کا تقریباً 60 فیصد پورا کرتے ہیں، جبکہ چھوٹے تاجر بقیہ 40 فیصد پورا کرتے ہیں۔ جائے کے شعبہ میں 45 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف ان 5 شعبوں میں ٹیکس چوری روکنے سے حاصل ہونے والی رقم 956 ارب روپے سے پاکستان کے پی ایس ڈی پی کی کل لاگت پوری کی جا سکتی ہے۔ یہ رقم بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے مکمل مالی مدد فراہم کر سکتی ہے۔ ان شعبوں میں ٹیکس چوری کی روک تھام سے وفاقی تعلیمی بجٹ میں 10 گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔