اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی واقع ہے، جو گلگت بلتستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے، جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغور علاقہ واقع ہے۔ جنوب مشرق میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر، جنوب میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر، جبکہ مغرب میں پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہے۔
کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور کوہ قراقرم کے دامن میں واقع گلگت بلتستان کا یہ پہاڈی علاقہ نہ صرف اپنی قدرتی خوبصورتی، بلند بالا پہاڑی چوٹیوں اور معدنیات کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ جیو اسٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ایشیاء کا مرکز کہلاتا ہے۔
ماضی میں یہ خطہ عالمی طاقتوں کے درمیان گریٹ گیم کا مرکز رہا ہے.John Keay اپنی مشہور کتاب "دی گلگت گیم” میں لکھتے ہیں کہ ” گلگت ریجن کی اہم اسٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی عالمی طاقتوں نے گریٹ گیم کو گلگت بلتستان کی پہاڑی وادیوں میں لائیں، جہاں انڈیا ،چین، روس، افغانستان اور پاکستان کی طویل سرحدیں ملتی ہیں اور اس خطے کی خصوصیات اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ اسے ریڑھ کی ہڈی،محور ، مرکز، تاج کا گھونسلا، فلکرم، اور چائنہ کے لکھاریوں نے اسے ایشیاء کا محور قرار دیا ہے۔“
انتہائی اہمیت کی حامل جیو سٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی یہ علاقہ قدیم دور سے بیرونی تسلط اور جارحیت کا شکار رہا ہے۔ تبت اور چین کی جنگ 745 صدی عیسوی سے لیکر نلت کی جنگ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔
1840 کے بعد سے گلگت بلتستان سکھ، ڈوگرہ افواج اور تاج برطانیہ کے براہ راست زیر تسلط رہا ہے اور بالآخر یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی کے نتیجے میں گلگت بلتستان سے ڈوگرہ تسلط ختم ہوا۔
بقول Martin Sokefeld یہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1840 کے وسط کے بعد کئی دہائیوں تک کشمیر کے حکمرانوں نے گلگت میں اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لئے مقامی حریف حکمرانوں کے خلاف جنگ کی، خاص طور پر یاسین ویلی کے حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی لیکن راجہ گوہر امان کی زندگی میں ڈوگرہ افوج گلگت پر قبضہ کرنےمیں ناکام رہیں۔
گلگت کے لوگ اس طاقت کی رَسا کَشی کی وجہ سے بے انتہا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ جنگ و جدل اور غلامی نے ان کی آبادی ختم کردی ہے۔”
تاہم اس کے باوجود علی شیر خان انچن اور راجہ گوہر امان کے دور سے ہی اس خطے کے عوام نے اپنی قومی بقاء اور شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی اور بیرونی تسلط کے خلاف مزاحمت جاری رکھی بالآخر یکم نومبر 1947 کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں تاج برطانیہ اور ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ ممکن ہوا، لیکن تنازعہ کشمیر کی وجہ سے مکمل آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔
چنانچہ 16 نومبر 1947 کے بعد سے یہ علاقہ وفاق پاکستان کے زیر انتظام ہے اور تنازع جموں کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا۔ اسی پالیسی کے تحت ہی میجر براؤن کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ہیرو قرار دیا گیا۔ حالانکہ وہ جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل مہاراجا کشمیر کی ریاست کا ایک ملازم تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ تاریخ میں فرد کا رول اہم ہوتا ہے مگر انقلاب گلگت میں مقامی ہیروز اور عوام کے کردار کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے.
ولیم براؤن جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ایک اہم مگر متنازعہ کردار رہا ہے جس کی وفات کے 14 سالوں بعد اس کی یادداشت "گلگت ریبیلین” Gilgit Rebellion (بغاوت گلگت) کے نام سے انگریزی زبان میں شائع کروائی گئی اور سرکاری دانشوروں نے اس کتاب کو بنیاد بنا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کے متعلق سرکاری بیانیہ ترتیب دینے میں بنیادی کردار ادا کیا اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت قرار دیا گیا۔
جسطرح انڈیا میں انگریز سرکار کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ کو انگریزوں نے غدر یا بغاوت کا نام دیا تھا ۔
ہندوستانیوں نے چونکہ انگریز سامراج کے خلاف جنگ کی تھی اور ان کے جبری قبضہ اور تسلط کو چیلنچ کیا تھا۔ اس لئےتقریبا تمام برطانوی اور یورپی لکھاریوں نے اسے بغاوت کا نام دیا ہے۔
دوسری طرف مشہور جرمن فلسفی کارل مارکس نے سب سے پہلے اس جنگ کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا تھا۔ پھر ہندوستان کےمقامی تاریخ دانوں اور دانشوروں نے اس بغاوت کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا ۔
حالانکہ 1857 کی جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈیا کے شاہی افواج کو بری طرح شکست دیکر بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا، لیکن وہ جنگ سامراج کے خلاف ایک ناکام جدوجہد آزادی تھی۔
اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو براہ راست تاج برطانیہ کے سپرد کردیا.
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سب سے پہلے 1857 میں انڈیا میں تعینات انگریز سیکریٹری اف سٹیٹ فار انڈیا Earl Stanley نے برطانوی پارلیمنٹ کو اس واقعے کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوۓ اسے بغاوت کا نام دیا۔ اس کے بعد برطانوی لکھاریوں نے اسی اصطلاح کا استعمال کیا.
بلکل اسی طرز پر جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بھی بغاوت گلگت کا نام دیا گیا اور اسی بیانیہ کے تحت ہی بغاوت گلگت نامی کتاب لکھوائی گئی، جوکہ تاریخی حقائق کے برخلاف اور ایک نوآبادیاتی بیانیہ کا تسلسل ہے۔
اگرچہ 1857کی جنگ آزادی ہند میں ہندوستانی افواج اور مزاحمت کاروں کو شکست فاش ہوئی اور انڈیا پر انگریز سرکار کا مکمل قبضہ ہوا۔ تاہم اس کے باوجود اسے جنگ آزادی ہند کہا جاتا ہے، جبکہ دوسری طرف اس کے برعکس جنگ آزادی گلگت بلتستان میں ڈوگرہ افواج کو شکست ہوئی اور گلگت بلتستان سے ڈوگرہ اقتدار کا مکمل خاتمہ ہوا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ انڈیا کی انگریز سرکار کے خلاف ناکام جنگ 1857کو جو لوگ جنگ آزادی ہند قرار دیتے ہیں، وہی لوگ یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت کا نام دیتے ہیں، جو درحقیقت نوآبادیاتی بیانیہ کا تسلسل ہے اور قابل چیلنج ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میجر بروان کے وفات کے 14 سال بعد ان کے دوستوں کے وسیع حلقے نے ان کی یادداشتوں کو مرتب کیا اور کتاب کا نام بغاوت گلگت رکھا اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت کے طور پر دنیا کے سامنے بطور ایک بیانیہ پیش کیا۔
حالانکہ ایک ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اس خطہ کے مقامی لوگوں نےگلگت سکاؤٹس کے فوجیوں کے ساتھ مل کر ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کی تھی، نہ کہ اکیلے میجر براؤن نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ البتہ بغاوت کے نام پر آزادی گلگت بلتستان کو تنازعہ جموں کشمیر پر قربان کیا گیا اور گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا۔
جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل ہی ریاست جموں کشمیر پر 22 اکتوبر 1947 کو قبائلیوں نے حملہ کیا تھا۔ جس کی وجہ سے 26 اکتوبر 1947 کو مہاراجا ہری سنگھ نے مشروط بنیادوں پر ریاست جموں کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ کیا تھا۔ گلگت بلتستان نے ڈوگرہ حکومت سے آزادی کا اعلان یکم نومبر 1947 کو اس وقت کیا تھا، جب کرنل حسن خان ،بابر خان ، شاہ خان ،فدا علی ان کے ساتھیوں نے عوامی مدد سے ڈوگرہ گورنر برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو بمقام گلگت گرفتار کرکے پہلے دارلخلافہ کو آزاد کروایا، پھر بونجی استور اور بلتستان میں ڈوگرہ افواج کے ساتھ باقاعدہ جنگ کرکے آزادی حاصل کی گئی۔ اس جنگ میں گلگت بلتستان کے عوام اور گلگت سکاؤٹس کے مجاہدین کے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ نے انڈیا کے ساتھ دستاویز الحاق نامے پر انقلاب گلگت بلتستان سے پہلے دستخط کیے تھے، جب کہ گلگت بلتستان کے عوام نے گلگت سکاؤٹس کے ساتھ مل کر آزادی بعد میں یکم نومبر 1947 کو حاصل کی ہے۔ لہذا انڈیا کے گلگت بلتستان پر دعوی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ چونکہ گذشتہ 75 سالوں سے یہاں ڈوگرہ حکومت یا انڈیا کا کوئی نام نشان تک نہیں لیکن اس کے باوجود ایک پالیسی کے تحت گلگت بلتستان کو تنازعہ جموں کشمیر میں اس لئے الجھایا گیا ہے کہ گلگت بلتستان پر حکومت پاکستان اور انڈیا کا دعوٰی ہے ۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان پر پاکستان انڈیا کے علاوہ کشمیریوں کا بھی دعوی ہے کہ گلگت بلتستان سابقہ ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے، لیکن حیرت کی بات ہے گلگت بلتستان کے عوام اور لیڈرشپ اس بارے میں مجرمانہ خاموشی کا شکار ہیں ۔
گلگت بلتستان کے متعلق جو بیانیہ ترتیب دیا گیا ہے اس کا مقصد اس خطے پر نوآبادیاتی قبضہ کو دوام دینا ہے۔
حالانکہ دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قومی جنگ آزادی میں جب دارالخلافہ سے بیرونی تسلط کا خاتمہ ہوتا ہےتو قومی آزادی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یکم نومبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاستی افواج کے برگیڈیر گھنسارا سنگھ، جو اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر تھے، کو گلگت میں گرفتار کرنے کے بعد ڈوگرہ حکومت سے آزادی کا اعلان کیا گیا اور پھر اس خطے کےدیگر علاقوں کو آزاد کرایا گیا۔ مثلاً انقلاب گلگت کے نتیجے میں ہی بلتستان کو 1948 میں آزاد کرایا گیا. اس کا واضع مطلب یہ ہے کہ یکم نومبر کو آزادی گلگت بلتستان کے اعلان کا اطلاق صرف گلگت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق پورے گلگت بلتستان پر ہوتا تھا، جہاں ڈوگرہ حکومت کا قبضہ برقرار تھا۔ چنانچہ یہ کہنا کہ گلگت بلتستان میں جنگ آزادی نہیں بلکہ بغاوت ہوئی تھی ایک نوآبادیاتی بیانیہ اور نوآبادیاتی پالیسی کا تسلسل ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کی وجہ سے ہی یہاں سے ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ ہوا اور گزشتہ 75 سالوں سے گلگت بلتستان میں ڈوگرہ حکومت کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے۔
اس کے باوجود جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت قرار دینےکا واحد مقصد گلگت بلتستان کی آزادی کو متنازعہ بنانا اور تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔ تاکہ یہاں کے مقامی لوگ بین الاقوامی مروجہ قوانین کے تحت دنیا کے دیگر آزاد اقوام کی طرح اپنے بنیادی انسانی، جمہوری حقوق کے مطالبے سے دستبرار ہوجائیں ۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میجر برؤان کی وفات کے 14 سالوں بعد شائع کی گئی کتاب کا نام بھی بغاوت گلگت کیوں رکھا گیا۔
اس کا واحد مقصد نوآبادیاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر ایک بیانیہ ترتیب دینا تھا تاکہ تنازعہ جموں کشمیر کی آڑ میں آزادی گلگت بلتستان کو متنازعہ بنایا جائے۔
چنانچہ اسی پالیسی کے تحت گذشتہ چند سالوں سے کچھ نام نہاد لکھاری بھی جنگ آزادی گلگت بلتستان کو میجر براؤن کی اس کتاب کو بنیاد بنا کر بغاوت گلگت اور اپریشن دتہ خیل کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ اس جعلی نام نہاد مشن کا کوئی دستاویز سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ فرضی کہانی تخلیق کرائی گئی اور میجر برؤان کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ہیرو قرار دیا گیا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا بیانیہ پیش کیا گیا، جو نوآبادیاتی قوتوں کے مفادات کے عین مطابق تھا۔
براؤن کی اس نام نہاد کتاب میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کرنل حسن خان گلگت بلتستان کی آزادی کا اعلان کر چکے تھے اور آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کو برقرار رکھنا چاہتے تھے، لیکن میجر براؤن نے ان کے منصوبہ کو ناکام بنایا۔
لہٰذا یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے اصلی ہیرو کرنل حسن خان ، راجہ بابر خان، شاہ خان، فدا علی اور ان کے ساتھی مجاہدین اور گلگت بلتستان کے عوام ہیں، جنہوں نے اس جنگ میں ڈوگرہ افواج کو شکست دیکر گلگت بلتستان کو بیرونی تسلط سے آزاد کرایا تھا۔ گلگت بلتستان کے مقامی افراد کو ہیرو کا درجہ دینے کے بجائے میجر برؤان کو ہیرو بنانے کا مقصد دراصل بین الاقومی سطح پر ایک بیانیہ ترتیب دینا تھا۔
یہ الگ بحث ہے کہ برؤان کی شازش کامیاب رہی اور محض 16 دنوں کے بعد گلگت بلتستان پر پاکستان کے نائب تحصیلدار سردار محمد عالم کی حکمرانی قائم ہوئی۔
میجر براؤن کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب Gilgit Rebellion انگریزی کتاب کے preface لکھا گیا ہے کہ براؤن کے مرنے کے 14 سال بعد یہ کتاب لکھوائی گئی، جس کو مرتب کرنے میں اس کے دوستوں کے وسیع حلقے نے کردار ادا کیا۔ کتاب میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ میجر براؤن کی اصلی ڈائری تو کھو گئی تھی یا بادی النظر میں چوری ہو چکی تھی۔ کتاب کے ابتدایہ میں واضح طور پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ میجر براؤن برطانیہ کے ایک چھوٹے شہر میں گھوڑوں کا ٹرینر یعنی گھوڑے سدھارنے والا استاد تھا۔
یہاں یہ ذکر کرنا لازمی ہے کہ نام نہاد آپریشن دتہ خیل کا سیکرٹ دستاویز آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہے، جس کی بنیاد پر جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت قرار دیا گیا ہے۔
حالانکہ برطانیہ میں سیکرٹ ڈاکومنٹس چند سال بعد Declassified ہوتے ہیں اور پبلک کئے جاتے ہیں۔ آپریشن دتہ خیل کے متعلق آج تک کوئی اس طرح کا دستاویز سامنے نہیں آیا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے اس طرح کا کوئی خفیہ دستاویز سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔
یہ ایک فرضی کہانی تھی، جسے ان لوگوں نے تخلیق کیا تھا، جنہوں نے میجر براؤن کی وفات کے 14 سال بعد اس کتاب کو ترتیب دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے سابق جنرل احمد شجاع پاشا نے بھی اپنی کتاب بعنوان "مسئلہ کشمیر” میں جنگ آزادی گلگت بلتستان میں کرنل حسن خان اور بابر خان کو ہیرو قرار دیا ہے، جس میں میجر براؤن کا نام تک نہیں، نہ آپریشن دتہ خیل کا کوئی ذکر ہے۔
گلگت بلتستان میں بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ”بغاوت گلگت” کوئی مستند تاریخی کتاب نہیں ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کے اردو ترجمہ میں یہ زکر تک نہیں کیا گیا ہے کہ اس کتاب کے لکھنے میں میجر براؤن کے دوستوں نے کردار ادا کیا تھا۔
بغاوت گلگت نامی کتاب دراصل ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو گلگت میں تعینات ایک برٹش پولیٹکل ایجنٹ تھا، جس نے بطور اسٹنٹ پولیٹکل ایجینٹ چلاس میں ڈیوٹی بھی سر انجام دیی تھی۔
درحقیت یہ کتاب ولیم براؤن کی اصلی ڈائری پر بھی مشتمل نہیں ہے، نہ ہی اسے انہوں نے اپنی زندگی میں شائع کروایا تھا۔ تو پھر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس کتاب کا نام بغاوت گلگت رکھا، اس کتاب کی تدوین کی اور میجر براؤن کو انقلاب گلگت کے ہیرو اور آپریشن دتہ خیل کے موجد کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا؟ حالانکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اہم کردار گلگت سکاؤٹس کے مقامی فوجی جوانوں اور عوام نے ادا کیا تھا، جنہوں نے اپنےوطن کو بیرونی تسلط اور ڈوگرہ افواج کی غیر قانونی قبضہ سے آزاد کروایا تھا، جبکہ جنگ آزادی گلگت بلتستان میں میجر براؤن کا کردار مشکوک رہا ہے۔ وہ ایک غیر مقامی نوابادیاتی ایجنٹ تھے، جس کی بنیادی ڈیوٹی اس علاقے کے عوام کو غلام بناۓ رکھنا تھی، نہ کہ ان کو آزادی دلانا۔ اس لئے ان اہم سوالوں کا جواب تلاش کرنے سے قبل یہ جاننا لازمی ہے کہ اس شخص کا گلگت ایجنسی میں بنیادی رول کیا تھا؟
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ سال1941 کو ولیم براؤن نے برٹش انڈیا میں فرننٹیر فورس رجمنٹ میں بحثیت سکینڈ لفٹیننٹ کمیشن حاصل کیا اور انہیں افغان بارڈر کے ساتھ جنوبی وزیرستان میں ٹرانسفر کیا گیا۔
1943 کے ابتدائی ایام میں انہیں گلگت ایجنسی ٹرانسفر کیا گیا، جہاں انہوں نے بحثیت اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجینٹ براۓ چلاس تین سال تک ملازمت کی اور وہاں ایک پولوگروانڈ بھی تعمیر کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کا قومی کھیل پولو بہت شوق سے کھیلتے تھے اور شینا زبان بھی سیکھ لی تھی۔
1946 میں انہیں Tochi Scouts شمالی وزیرستان ٹرانسفر کیا گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد انہیں بحثیت اسسٹنٹ کمانڈنٹ سکاؤٹس کے طور پر چترال ٹرانسفر کیا گیا۔
مختصر وقت چترال میں گزارنے کے بعد انہیں کمانڈنٹ آف گلگت سکاؤٹس کا عہدہ آفر کیا گیا، جو انہوں نے قبول کیا اور انہیں ایکٹنگ رینک آف میجر کا عہدہ دیا گیا۔ اسطرح میجر براؤن 29 جولائی 1947 کو گلگت پہنچے۔ یہ گلگت کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا، جب گلگت لیز ایگریمنٹ 1935 کو تاج برطانیہ نے ختم کیا اور یکم اگست 1947 کو گلگت ایجنسی مہاراجا ہری سنگھ کو واپس کردی۔ گلگت ایجنسی سے تاج برطانیہ کا جھنڈا اتارا گیا اور مہاراجا کی ریاست کا جھنڈا لہرایا گیا۔ حالانکہ لیز ایگریمنٹ کے مطابق اس کے 49 سال باقی تھے.
اس طرح گلگت ایجنسی میں تعینات آخری برٹش پولیٹکل ایجینٹ کرنل بیکن واپس چلے گئے اور ان کی جگہ مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم پر ریاست جموں کشمیر کے نمائندے کے طور پر بریگیڈیر گھنسارا سنگھ نے بطور گورنر گلگت بلتستان چارج سنبھال لیا.
اگست 1947 سے لیکر جنوری 1948 تک جو واقعات گلگت میں رونما ہوئے، ان کے نتیجے میں گلگت بلتستان سے ڈوگرہ راج کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا، لیکن جنگ آزادی گلگت بلتستان کے متعلق میجر براؤن کا کردار متنازعہ رہا ہے۔
چنانچہ ایک مکتبہ فکر نے انہیں ایک سازشی اور غدار ریاست کے طور پر پیش کیا ہے، جبکہ پاکستان میں انہیں سرکاری سطح پر ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس عمل میں میجر براؤن کی بیوہ مارگریٹ نے کلیدی کردار ادا کیا۔
کہا جاتا ہے کہ جس وقت انقلاب گلگت رونما ہورہا تھا، اس وقت ولیم براؤن کی عمر صرف 24 سال تھی۔ انہوں نے اپنا 25 واں جنم دن گلگت میں منایا تھا اور انقلاب گلگت کے وقت وہ گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے۔ انقلاب گلگت کے بعد گلگت سے واپسی پر جولائی 1948 کو ولیم براؤن کو فرنٹیر کانسٹبلیری میں ملازمت دی گئی، جو صوبہ سرحد میں نارتھ وزیرستان پولیس فورس کہلاتی تھی۔اگلے دو سالوں تک انہوں نے وہاں مختلف عہدوں پر کام کیا۔
فرنٹیر کانسٹبلری چھوڑنے کے بعد ولیم براؤن نے کامرس کے شعبے میں عہدہ حاصل کیا اور اسی دوران 1957 میں ولیم براؤن کی ملاقات Margaret Rosemary Cookslay سے ہوئی تھی، جو اس وقت کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر تھیں۔1958 میں انہوں نے شادی کی اور اسی دوران ولیم براؤن کو ہمالین سوسائٹی میں حکومت پاکستان کا سیکریڑی بنایا گیا .
1959 میں براؤن اور ان کی فیملی واپس برطانیہ چلی گئی اور 1960 میں انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک Livery Yard کھول دیا اور Ridding yard سکول بھی کھول دیا اور وہاں اگلے 24 سالوں تک انہیں گھوڈوں کے استاد کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔
1948 سے لیکر 1958 تک ولیم براؤن پاکستان میں مختلف نوکریاں حاصل کرتے رہے اور پھر 1959 میں برطانیہ واپس جانے سے لیکر اپنی وفات تک انہوں نے گلگت کے بارے میں کوئی کتاب شائع نہیں کروائی۔ ان کی وفات کے 14 سال بعد تک بھی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بارے میں ان کا کردار دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا۔ پھر ان کی بیوی مارگریٹ نے ان کے کردار کو دنیا کے سامنے لایا، جو 1957 کے اولین ایام میں کراچی میں برطانیہ کی ہائی کمشنر تھیں۔
یہ بات بہت مشہور ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگرچہ میں سب مردوں کے بارے میں یہ بات وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن یقین کامل کے ساتھ یہ مانتا ہوں کہ برطانیہ کےایک چھوٹے سے گاوں میں گھوڑوں کے استاد کے طور پر پہچانے جانے والے ولیم براؤن کے کردار کو ان کی بیوہ مارگریٹ، جوکہ ایک ریٹایڑ سفارت کار تھیں، نے کمال ہوشیاری سے مل ملاپ کر کے ازسر نو ایک نئے بیانیہ کے ساتھ بلند کر کے دنیا کے سامنے جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ایک اہم ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ بدلے میں حکومت پاکستان نے گلگت سکاؤٹس کے سابق انگریز کمانڈنٹ ولیم براؤن کو ستارہ پاکستان سے نوازا۔
کرنل حسن خان اپنی کتاب ”شمشیر سے زنجیر تک“ میں لکھتے ہیں کہ ”یکم نومبر 1947کو گلگت میں راقم نے جب آفیسر میس میں اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈ نکالا تو وہاں میجر براؤن بھی تھا. شاہی گراؤنڈ کے جھمیلے سے نکل کر سکاوٹ لائین میں آۓ تو کرنل کمانڈنگ کے بنگلے میں سب افسر اور گلگت کے معززین جمع تھے۔ انہیں جیسے چپکے سے دعوت دے کر بلایا گیا تھا۔ یہی حال پریڈ گروانڈ کا بھی تھا، جو کہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ مجلس مشاورت یا انقلابی کنونشن کی ہنگامی میٹنگ تھی، جو عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے بلائی گئی تھی۔ کمرے میں داخل ہوا تو جملہ حاصْرین کے درمیان دونوں انگریز افسر، یعنی میجر براؤن اور متھیسن، بھی مدعو تھے۔ میرے رفیق اس کارخیر میں اپنا ہاتھ بٹانا چاہتے تھے اور اپنے مہرے آگے لانا چاہتے تھے۔ انگریز اس میٹنگ میں بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اور باقی ان کے ہاں میں ہاں ملاۓ جا رہے تھے۔
راقم حسب سابق انقلاب کے سربراہ یا مارشل لاء ایڈمنسڑیڑ مقرر ہوا۔ تعجب ہے کہ خود اپنے کاندھوں پر یہ بوجھ ڈالتے وقت کسی نے مجھ سے تعرض نہیں کیا. اس مجلس مشاورت کا دل رکھنا میرا فرصْ ہو گیا تھا۔ اس لئے میٹنگ کی برخاستگی کے فوراً بعد انگریزوں کی گرفتاری کا حکم دے دیا اور انہی سکاؤٹ سرداروں سے گرفتار کروادیا، جو انہیں ساتھ لئے آۓ تھے اور میرے مشیر مقرر کروارہے تھے۔“
کرنل حسن خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے پستول نکال کر شاہ رئیس خان کو صدر بنوایا تھا، حالانکہ انقلابی کونسل کے ممبران ریاست ہنزہ کے راجہ میر جمال خان کو صدر بنانا چاہتے تھے۔
میجر براؤن کے بارے میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرپرست اعلی امان اللہ خان مرحوم اپنی کتاب” جہد مسلسل“ کے صفحہ نمبر 286 میں لکھتے ہیں کہ ”میرے قیام برطانیہ کے اواخر میں اپنے ایک عزیز حشمت اللہ خان، جسے گلگت کے تاریخی واقعات لکھنے کا شوق ہے، کے کہنے پر میجر براؤن سے گلگت کے انقلاب 1947 سے متعلق دستاویزات مانگنے کے لیے فون کیا، تو میجر براؤن نے کچھ تذبذب کے بعد مطلوبہ دستاویزات دینے کی حامی بھری۔ مگر ان دنوں مجھے اپنے ساتھی مقبول بٹ شہید کی تہاڑ جیل میں پھانسی کا دکھ تھا۔ اسی دوران دیگر کاموں کی وجہ سے مجھے فرصت نہیں ملی کہ میں اسکاٹ لینڈ جا کر وہ دستاویزات حاصل کرسکوں۔
بعد میں فرصت ملتے ہی میں نے میجر براؤن کا پتہ کیا تو ان کی اہلیہ نے کہا کہ میجرصاحب کا حال ہی میں پانچ دسمبر 1984 میں انتقال ہوا ہے۔ میں نے مطلوبہ دستاویزات کے بارے میں پوچھا تو مسز براؤن نے کہا کہ کچھ دستاویزات تو رائٹرز نیوز ایجنسی والے لیکر گئے ہیں اور باقی دستاویزات پاکستانی سفارت خانے کے پریس قونصلر مسٹر قطب دین عزیز لے گئے ہیں اور اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔“
میجر براؤن کی کتاب The Gilgit Rebellion میجر براؤن کی وفات کے 14 سال بعد 1998 میں لکھی گئی۔
"بغاوت گلگت“ نامی اس کتاب کے صحفہ 15 میں صاف الفاظ میں یہ لکھا گیا ہےکہ
"William Brown kept a diary at least until his
return from Gilgit in January 1948. The actual diary has been lost
(apparently it was stolen), but at some point before 1950, probably as early as 1948, William Brown wrote it up in narrative form, perhaps intending to publish it. In the end it was not published and the top copy was lost. A carbon copy, however, survived.
On 5 December 1984, a week before his 62nd birthday, William Brown
died after a sudden heart attack.
In the end, justice to his memory was to some measure done with the awarding, on Independence Day 1993, of the medal Sitara-I-Pakistan as a posthumous recognition by Pakistan of his great contribution. His widow, Margaret, received the medal in Islamabad from the hands of President Leghari on Pakistan Day, 23 March 1994.
یعنی ولیم براؤن کی اصلی ڈائری کھو گئی یا چوری ہوگئی تھی اور Narrative Form میں جو کہانی میجر نے لکھی تھی اس کی ٹاپ کاپی بھی کھو گئی تھی، مگر کاربن کاپی سے کام چلایا گیا، جس کے مستند ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس لئے تو میجر براؤن کی یادداشت کے دیباچہ میں واشگاف الفاظ میں یہ لکھا گیا ہے کہ "اشاعت کے لئے اس یادداشت کی تیاری میں بہت لوگوں نے مدد کی اور ہم خصوصی طور پر شاہ خان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے گلگت بلتستان میں1947-1948 کے واقعات سے متعلق اس یاد داشت میں شامل مواد کی تصدیق کرنے میں مدد کی۔
میجر براؤن کی یادداشت کی تدوین اور تصدیق کے متعلق یہ کہا جاۓ تو غلط نہیں ہوگا کہ ہر وہ سچائی جو ظاہر نہیں کی جاتی ہے وہ زہریلی ہو جاتی ہے۔ نوآبادکاروں کے بیانیے پر لکھی گئی یہ کتاب اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔
سچ یہ ہے کہ انقلاب گلگت کے متعلق ولیم براؤن کی وفات کے چودہ سال بعد ان کے دوستوں کے وسیع حلقے نے ان کی یادداشت کو ترتیب دیا اور بغاوت گلگت نامی اس کتاب کے ذریعے ان کے کردار کو گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ سے بڑھا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ایک ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جس نے تاریخ کا دھارا تبدیل کیا۔
میجر براؤن کی قبر کے کتبے میں ہیڈ بیج آف گلگت سکاؤٹس اور لیجینڈ آف دتہ خیل 31/10/47 کندہ کیا گیا اور بغاوت گلگت نامی کتاب کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا کہ اگر براؤن نہ ہوتے تو جی بی انڈیا کے ہاتھ چلا جاتا۔
اس طرح نوآبادیاتی پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوۓ جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت کا نام دیا گیا۔
اس کتاب میں میجر براؤن لڑاؤ اور حکومت کرو پالیسی کا نہ صرف دفاع کرتے ہیں، بلکہ اسے وقت کی ضرورت بھی قرار دیتے ہیں۔
دنیا کی دیگر نوآبادیات کی طرح تاریخ گلگت بلتستان بھی نوآبادیاتی بیانیہ پر لکھوائی گئی ہے، اور بعد ازاں سرکاری دانشوروں نے بنا تحقیق کے اسی بیانیہ کو حرفِ آخر مان کر آگے بڑھایا۔ یوں ہماری قوم کو نہ صرف اپنی اصل اور حقیقی تاریخ سے نابلد رکھا گیا بلکہ ہمارے اس خوبصورت علاقے میں تاج برطانیہ کے دور سے ہی ایک نوآبادیاتی نظام کے تحت بیرونی قبضہ مضبوط کرنے کے لئے عوام میں تقسیم کرو اور حکومت کرو پالیسی کے تحت علاقائی، لسانی اور مذہبی اور مسلکی تعصبات اور نفرت کو پروان چڑھایا گیا۔ اس پالیسی کی واضح مثال میجر براؤن کی بغاوت گلگت نامی کتاب ہے، جس کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کے بارے میں غلط فہمیاں اور نفاق کا بیج جان بوجھ کر بویا گیا ہے، تاکہ اس علاقے پر آسانی سے حکومت کی جا سکے۔
بقول فرانز فینن نوآبادیات میں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی تاریخ، ثقافت اور روایات کو مٹا دیا جاۓ۔
نوآبادیاتی دنیا میں قاری کو گمراہ کرنے کے لیے باقاعدہ اس طرح کی کتابیں لکھوائی جاتی ہیں اور جدوجہد آزادی کی تحریک میں عوامی کردار کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے، اور ہیروازم کو فروغ دیا جاتا ہے۔
ایف ایم خان اپنی کتاب دی سٹوری آف گلگت بلتستان اینڈ چترال کے صفہ نمبر 68 میں لکھتے ہیں کہ ”جنگ آزادی گلگت بلتستان میں میجر بروان کی واحد کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے انقلاب گلگت کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت کو ایک کامیاب سازش کے ذریعے ختم کرکے گلگت بلتستان کو صوبہ سرحد کے ایک نائب تحصیلدار سردار محمد عالم کے حوالہ کرکے مطلق العنان / آمرانہ حکومت قائم کی اور اسطرح گلگت بلتستان میں دوبارہ نوآبادیاتی نظام قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ گلگت بلتستان کے عوام کو ایک نوآبادیاتی طرز کے نظام حکومت کا غلام بنایا۔“
بقول منیر نیازی
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
جو ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا