محمد اکبر نوتزئی
ملک کے باقی حصوں میں بلوچستان سے متعلق ہونے والی بازگشت تو چین کی وجہ سے ہوتی ہے، لیکن کوئٹہ کے ایک مقامی بلڈ بینک میں کشمیر اور میانمار کے جہاد پر توجہ مرکوز ہے۔ ایک زمانے میں کالعدم قرار دی گئی جماعت الدعوۃ کا چیریٹی ونگ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا ایک کارکن اس بلڈ بینک اک مرکزی کردار ہے اور وہاں جماعت الدعوۃ کے نمائندہ اخبار ’احرار‘ سمیت جہاد کی ترغیب دینے والا دیگر لٹریچر بھی موجود ہے۔
وہ اپنے آس پاس موجود لوگوں کو نصیحت کر رہا ہے کہ ”اگر آپ اچھے مسلمان بننا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ باقاعدگی سے پڑھنا چاہیے۔ اس سے آپ کو سنت کے مطابق زندگی گزارنے میں مدد ملے گی۔“
نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں نان اسٹیٹ ایکٹرز کی طرف سے جہاد کی بات کئے جانے پر مکمل پابندی عائدکی جانی تھی، لیکن فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا کارکن فخر کے ساتھ بلڈ بینک کے ملازمین کو بتاتا ہے کہ ان کا لٹریچر بلوچستان بھر میں بھیجا جاتا ہے۔ خاص طور پر پختون آبادی والے شمالی علاقوں میں بھیجا جاتا ہے کیونکہ ہماری تنظیم وہاں بلوچ اکثریتی علاقوں کی نسبت بہتر منظم ہے۔
یہ ایک غیر رسمی تبادلہ خیال ہے، لیکن فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا کارکن اپنے مشن میں بے لگام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”اگر کوئی ہمارا اخبار اور لٹریچر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، جو انتہائی معمولی نرخوں میں فروخت ہوتا ہے، تو ہم یہ لٹریچر ایک پیسہ لئے بغیر بھی تقسیم کر دیتے ہیں۔“
بلڈ بینک کے بہت سے ملازمین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے کارکن کی طرف سے تقسیم کیے جانے والے لٹریچر میں اپنی گہری دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔نوجوان ضیاء الدین کہتے ہیں کہ ”جی بالکل۔ ہم ایسا ادب پڑھنا چاہتے ہیں جو ہمیں دونوں جہانوں یعنی فانی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونے کے قابل بنائے۔ صرف وہ کتابیں کیوں پڑھیں جو ہمیں اچھی ملازمتیں فراہم کریں گی؟“
عام خیال کے برعکس جہادی فکر کا پھیلاؤ بلوچستان میں حکام کے لیے ایک ناپسندیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ اگرچہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں کے بارے میں بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حکام نے بلوچ عسکریت پسندی کے انسداد کے طور پر ان کی مدد کی ہے۔ جیسا کہ اس استثنیٰ سے ظاہر ہوتا ہے جس کے ساتھ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کارکن اپنا پیغام پھیلا سکتا ہے۔تاہم صوبے اور خاص طور پر دارالحکومت کوئٹہ میں سیکورٹی فورسز نے گزشتہ سال مختلف حصوں میں چھاپوں کے دوران کم از کم 34 افراد کو گرفتار کیا۔
اس تبدیلی کا ذمہ دار اعلیٰ سکیورٹی حکام نیشنل ایکشن پلان کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم آزاد مبصرین بلوچستان میں چین کی زیادہ موجودگی کو فرقہ وارانہ تنظیموں پر لگام ڈالنے کا اہم محرک قرار دیتے ہیں۔
کوئٹہ کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) عبدالرزاق چیمہ وضاحت کرتے ہیں کہ”نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کے بعد ہم نے نفرت انگیز تقاریر، مواد اور خطبات کی فہرست تیار کی۔اس تفصیل سے میل کھاتی سرگرمیوں پرہم کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، اور اس کے نتیجے میں شہر میں نفرت انگیز تقاریر اور مواد کہیں نظر نہیں آتا۔ ماضی کے برعکس یہاں کوئی وال چاکنگ نہیں ہے اور نہ ہی شہر کی دیواروں پر کوئی فرقہ وارانہ نعرے پینٹ کیے گئے ہیں۔“
سی سی پی او کا کہنا ہے کہ ”بعض چھاپوں میں اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ جہادی لٹریچر بھی برآمد کیا گیا۔ ہم نے موبائل شاپس، سی ڈی شاپس اور نفرت انگیز لٹریچر والے دیگر آلات کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا ہے۔نفرت انگیز مواد، موبائل فون، سی ڈیز وغیرہ برآمد کرنے کے بعد ہم انہیں عدالت میں پیش کرتے ہیں اور عدالت کی اجازت سے ہم انہیں تباہ کر دیتے ہیں۔“
سی سی پی او چیمہ نے مزید کہا کہ ”پولیس نے اب اپنا طریقہ کار بدل دیا ہے۔ کریک ڈاؤن اب ’کھلے عام‘ نہیں کیا جاتا۔ کسی بھی نفرت انگیز تقاریر کے لیے ریلیوں اور سیاسی اجتماعات کی بھی’قریب سے نگرانی‘ کی جا رہی ہے۔“
پولیس تقاریر پر تو چوکس رہتی ہے، لیکن تحریری مواد مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ اس معاملے کیلئے کوئٹہ یا صوبے کے دیگر علاقوں میں عام بک شاپس کی تعداد کے مقابلے میں ایسی بک شاپس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جہاں جہادی اور دیگر مذہبی لٹریچر فروخت ہوتے ہیں۔ زیادہ تر مواقع پر ریاست اس مواد کے پھیلاؤ کو جانچنے میں ناکام رہی ہے۔
دوسرے لفظوں میں ریاست کی طرف سے کسی بامعنی رد عمل کے بغیر بلوچستان کا ایک قابل ذکر طبقہ جہادی مواد پڑھ رہا ہے۔ کیا اس خلا میں بلوچستان کا سیکولر نقطہ نظر تبدیل ہو رہا ہے؟
آئیڈیاز، پاور اور جغرافیہ
بلوچستان میں جہاں اورجو کچھ پڑھا جا رہا ہے، وہ کسی سیاسی رجحان کی نمائندگی کر رہا ہے۔
علیحدگی پسند تحریکوں کا گڑھ کہلانے والی مکران کی پٹی میں بائیں بازو کا ادب مذہبی مواد یا سرکاری نصابی کتابوں سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ خلیج کے ساتھ خطے کی قربت اور قبائلیت کی عدم موجودگی کی بدولت، ایک متوسط طبقے کا ابھار مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکران تعلیم کے لحاظ سے مشرقی اور وسطی بلوچستان کے قبائلی علاقوں سے بہت آگے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں سرد جنگ کے دور میں بننے والی بائیں بازو کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO)مکران میں پروان چڑھی ہے۔
بی ایس او کا قبائلی علاقوں میں کچھ اثر و رسوخ ہے لیکن وہاں تعلیم کا تناسب مکران سے بہت کم ہے۔ نتیجے کے طور پر بی ایس او کے پروپیگنڈے نے قبائلی علاقوں میں زیادہ اثر نہیں ڈالا۔ اس پٹی میں بائیں بازو اور دائیں بازو کا ادب پڑھا جاتا ہے لیکن نظریاتی لحاظ سے ایک دوسرے پر غالب نہیں آتا۔
پختون بیلٹ میں، دائیں بازو کا ادب سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے، جیسا کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے کارکن نے بھی اشارہ کیا تھا۔ افغانستان کے ساتھ قربت اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانستان میں مذہبی سیاست کے عروج کی وجہ سے پختون علاقہ مذہبی طور پر مائل ہے۔
پولرائزڈ نظریاتی ترجیحات کے باوجود ایک مضبوط ریاستی بیانیے کی عدم موجودگی کی وجہ سے بڑی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگرچہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اگست 2013 میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ 20,000 سے زائد بلوچ طلبہ کو پاک فوج اور ایف سی کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں داخلہ دیا گیا ہے، لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی جانب سے شہریوں کے تخیلات کو اپنانے میں ناکامی کے نتیجے میں دیگر نظریات اور بیانیے جڑ پکڑ رہے ہیں۔ اور گزشتہ برسوں کے دوران، مختلف سیاسی پوزیشنیں مزید پولرہو گئی ہیں۔
کوئٹہ کے لیے جنگ
اصولی طور پر صوبائی دارالحکومت کو خیالات کی آماجگاہ ہونا چاہیے۔ اس کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کو بحث و مباحثے کا راستہ ہونا چاہیے۔ زیادہ بحث محض ایک زیادہ جمہوری معاشرہ تشکیل دیتی ہے۔
سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے ڈاکٹر شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ ”کوئٹہ میں تین]قسم کے[ خیالات پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔قوم پرستی، مارکسزم اور مبہمیت۔ کوئٹہ میں غالب بحث قوم پرستی پر ہوتی ہے۔“
ڈاکٹر شاہ محمد مری روشن خیال مصنفین کے اس مجموعے کا حصہ ہیں،جس میں وحید ظہیر، پروفیسر جاوید اختر، جیئند خان جمال دین اور عابد میر بھی شامل ہیں۔ وہ سنگت اکیڈمی آف سائنسزکی چھتری کے نیچے جمع ہو ئے اور اب تک، بلوچی، براہوی، پشتو اور اردو زبانوں میں تقریباً 25 کتابیں شائع کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ وہ ثقافت، تاریخ، بشریات، اور دیگر مقامی زبانوں میں بلوچستان کی بنیاد پر اسکالرشپ کی حوصلہ افزائی اور توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ”زبانی روایات اور بحث و مباحثے پر انحصار کی وجہ سے قومیت تاریخی طور پر کوئٹہ میں غالب سوچ رہی ہے۔ مارکسزم کے برعکس قوم پرستی کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ اس پرپڑھنے کی بجائے صرف بحث کی جاتی ہے۔ ماضی میں لوگ نیم خواندہ تھے جبکہ نئی نسل پڑھی لکھی ہے۔ وہ کتابیں پڑھتے ہیں اور مختلف خیالات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔“
سرکاری پاکستانی حلقوں میں بلوچ قوم پرستی اور مارکسزم دونوں ہی ایک دوسرے سے بے نیاز رہے ہیں، انہیں ایسے نظریات کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو یکساں طور پر پاکستانی قوم پرستی کے تصور کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کے بجائے علیحدگی پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر خیالات اور نظریات کے بارے میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ پاکستانی سرکاری حلقوں میں نسلی قوم پرستی اور مارکسزم کے بارے میں وراثتی عدم اعتماد ہے۔
ماضی قریب میں کوئٹہ میں مذہبی ادب کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھا گیا ہے۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح جہادی ادب نے پہلی بار 1979 میں افغان جنگ کے ساتھ بلوچستان میں قدم رکھا۔ تاہم جب ملک کے دیگر حصوں نے بالآخر ان عقائد کے بہاؤ کو روک دیا،تب کوئٹہ میں جہادی لٹریچر اور طرز عمل پروان چڑھنے لگے۔ شہر کے نواحی علاقوں میں مختلف دکانوں پر فرقہ وارانہ لٹریچر کھلے عام فروخت ہوتا۔
یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں فرقہ واریت پر لگام لگانے یا ان دکانوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہیں۔ انہیں جنرل پرویز مشرف نے بھگا دیا تھااور اس کے بعد کوئٹہ میں فرقہ وارانہ لٹریچر بیچنے والی بک شاپس کا وجود نہیں رہاتھا۔
تاہم دو دہائیوں یا اس سے زیادہ عرصے تک بلوچستان پر جہادی لٹریچرکی گرفت نے بلوچ سماج کے تانے بانے کو بہت نقصان پہنچایا۔ مثال کے طور پر مختلف تعلیمی اداروں میں پروپیگنڈے نے اسکالرشپ کی جگہ لے لی۔
یونیورسٹی کے ایک لیکچرر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہاکہ ”یونیورسٹی آف بلوچستان کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے ایک سابق چیئرمین نے اپنی ایک کتاب افغان طالبان کو وقف کی تھی۔کتاب کو ڈیپارٹمنٹ کے ماسٹر پروگرام میں کورس ورک کے طور پر پڑھا جائے گا۔“
دریں اثناء جنرل مشرف کے بعد حکومتی نگرانی میں سست روی کے ساتھ کوئٹہ میں جہادی کتابوں کی دکانوں نے فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز مواد کی فروخت دوبارہ شروع کی۔ یہ صورتحال بڑی حد تک 2014 ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر وحشیانہ حملے تک جاری رہی۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت کوئٹہ میں بھی فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ فرقہ وارانہ لٹریچر بیچنے والی کتابوں کی دکانوں کو بعد میں زیر زمین جانے پر مجبور کر دیا گیا۔
کوئٹہ میں جہادی لٹریچر کے مقبول ہونے کی تین اہم وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی یہ کہ، کوئی بھی شخص کوئی جہادی کتابچہ یا تو مفت یا انتہائی معمولی قیمت پر حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں، یہاں تک کہ سرکاری اسکول کے نصاب کی کتابوں پر بھی پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ دوسرا، کوئٹہ میں مذہبی لٹریچر فروخت کرنے والی دکانوں کی بڑی تعداد ہے۔ ان میں سے کچھ رازداری سے جہادی لٹریچر بھی بیچتے ہیں۔ تیسرا، سینئر ماہرین تعلیم اور صحافیوں کے بیک گراؤنڈ انٹرویوز بتاتے ہیں کہ کالعدم تنظیموں اور مذہبی گروہوں کے بلوچستان کے ہر ضلع میں نامہ نگار موجود ہیں، جو عوام میں جہادی لٹریچر بیچتے یا تقسیم کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بلاروک ٹوک کام کرتے ہیں۔ کوئٹہ بھی اس رجحان سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
کالعدم تنظیموں اور جہادی لٹریچر کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن کے باوجود اب بھی کوئٹہ سمیت صوبے میں کہیں بھی مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والے لٹریچر کا ملنا مشکل نہیں ہے۔
یہ ان عوامل میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی نظریاتی اور علاقائی دونوں اعتبار سے اپنی گرفت میں اضافہ کر رہی ہے۔ تاہم ماضی کے برعکس بلوچ ادب کو بھی اب آہستہ آہستہ مذہب کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ بلوچی کا ایک رسالہ ’روزن‘اب معمول کے مطابق جہادی خدشات پر بحث کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں بلوچستان میں مذہبی طور پر زبردست تبدیلی آئی ہے۔
ہزارہ تقسیم
ہزارہ آج بھی بلوچستان کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ برادریوں میں سے ایک ہیں۔ کوئٹہ میں آج بمشکل چار بک شاپس عام کتابیں فروخت کر رہی ہیں۔ 2012 میں کمیونٹی کو اس وقت کچھ راحت ملی،جب اس کے کچھ اراکین نے ’اُمید پبلک لائبریری‘کے نام سے ایک لائبریری قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
مری آباد کے پہاڑوں کے قریب واقع امید پبلک لائبریری سیکھنے کا ایک نخلستان ہے۔ لائبریری کے انچارج عارف علی کا کہنا ہے کہ وہ اسے رضاکارانہ طور پر چلا رہے ہیں۔ لائبریری کے اندر ایک الماری پہلی نظر میں دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرتی ہے۔ اس الماری میں سینکڑوں کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ مجموعہ 2013 میں ایک بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے ہزارہ برادری کے معروف کارکن عرفان علی خودی کی والدہ نے لائبریری کو عطیہ کیا تھا۔
امید پبلک لائبریری کے لائبریرین ذوالفقار علی کہتے ہیں کہ ”600 رجسٹرڈ ممبران ہیں۔ جب تعلیمی ادارے سیشن میں ہوتے ہیں، تو ہماری لائبریری میں طلبہ کا ہجوم ہو جاتا ہے، جو یہاں زیادہ تر اپنے کورس ورک کی کتابیں پڑھنے آتے ہیں۔“
ان دنوں لائبریری میں حاضری کم ہے کیونکہ طلبہ چھٹیوں پر ہیں، لیکن لائبریرین کو یقین ہے کہ جب تعلیمی ادارے سیشن میں واپس آجائیں گے تو یہ پھرسے بھر جائے گی۔انکا کہنا تھا کہ ”اتوار کے دن صرف بچوں کو ہی لائبریری میں آنے کی اجازت ہے۔ وہ یہاں کہانیاں پڑھتے ہیں، ڈرائنگ کرتے ہیں اور دیگر سرگرمیوں کے ساتھ پینٹنگ بھی کرتے ہیں۔“
ذوالفقار کے مطابق ان کی لائبریری میں 5 ہزارکتابوں کا ذخیرہ ہے۔ یہ تمام کتابیں ہزارہ برادری کے اراکین کی طرف سے عطیہ کی گئی تھیں اور یہ بائیں بازو کے ادب سے لے کر دائیں بازو کے موضوعات تک ہیں۔ لائبریرین کے لیے کسی بھی نظریاتی جھکاؤ سے زیادہ نوجوانوں کے لیے مختلف موضوعات کا پڑھنا اہم ہے۔ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ”ہماری بنیادی توجہ اس بات پر ہے کہ کتابیں پڑھنے میں دلچسپی کیسے پیدا کی جائے۔“
لائبریری کا ممبر بن کر بہت زیادہ فائدہ اٹھانے والے ایک طالبعلم مہدی حسن کہتے ہیں کہ”میں ڈاکٹر مبارک علی کی کتابوں کے علاوہ عام کتابیں مشکل سے پڑتا ہوں، کیونکہ یہ خشک ہوتی ہیں۔ میں نے ان کے علاوہ تاریخ کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ مجھے منٹو کی لکھی ہوئی مختصر کہانیاں پڑھنا بھی پسند ہے۔“
مہدی کہتے ہیں کہ ناول پڑھنے میں ان کی دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب وہ ٹیلی ویژن پر ڈرامہ سیریل دیکھتے تھے۔ ”پہلا ناول جو میں نے پڑھا وہ خدا اور محبت تھا۔“ لائبریری نے محض ان کے افسانے کے شوق کو مہمیز دی ہے۔
اس طرح کی کہانیوں نے لائبریری کو نوجوانوں کے لیے ادیبوں، صحافیوں اور شاعروں کے ساتھ بات چیت کی باقاعدہ ورکشاپس منعقد کرنے پر مجبور کیا۔ ان کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہزارہ برادری کے طلبہ نے کتاب پڑھنے میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کی۔ ذوالفقار کا استدلال ہے کہ ”ایک مثال حال ہی میں ہزارہ سوسائٹی ہال میں قائم کیے گئے ایک بک اسٹال کی ہے، جہاں سے دو دنوں میں ہزارہ برادری نے 7ہزار روپے کی کتابیں خریدیں۔“
جہاں امید پبلک لائبریری امید کی ایک کرن ہے، وہیں فرقہ وارانہ نظریات اور ادب بھی ہزارہ برادری میں پھیل چکے ہیں اور ہزارہ نوجوانوں کا ایک طبقہ بنیاد پرست ہو رہا ہے۔ کوئٹہ میں مقیم ایک سینئر اردو کالم نگار اور مصنف حسن رضا چنگیزی نوٹ کرتے ہیں کہ ”کوئٹہ میں دو سیاسی جماعتیں ہزارہ برادری پر اثر و رسوخ رکھتی ہیں: ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی ایک لبرل جماعت ہے جبکہ مجلس وحدت المسلمین کا مقصد پورے پاکستان میں شیعہ کو متحد کرنا ہے۔“
اگرچہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثر ایک لبرل پارٹی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، لیکن اس کا مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ بہت بڑا وجودی جھگڑا ہے۔ یہ نہ صرف مجلس وحدت المسلمین پر ایرانی ریاست کی ’پراکسی‘ہونے کا الزام لگاتی ہے بلکہ یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ ان کے حریف فرقہ وارانہ لٹریچر پھیلا کر ہزارہ نوجوانوں کو ’بنیاد پرست‘کرنے میں ملوث ہیں۔ کوئٹہ میں مقیم سیکیورٹی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ مجلس وحدت المسلمین نظریاتی طور پر شہر کے ہزارہ اکثریتی علاقوں میں قدم جما رہی ہے۔ بہت سے لوگ سنی عسکریت پسندی اور شیعہ عسکریت پسندی کے آمنے سامنے کھڑے ہونے کے نتائج سے بھی خوفزدہ ہیں۔
مکران میں مارکس اور منڈیلا
13 جنوری 2014 کو فرنٹیئر کور (ایف سی) نے عطا شاد ڈگری کالج تربت میں کتاب میلے پر چھاپہ مارا۔ بعد ازاں ایف سی کے لیفٹیننٹ کرنل محمد اعظم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ’پاکستان مخالف‘ لٹریچر، کتابیں، نقشے، پوسٹرز، بینرز اور دیگر تخریبی مواد قبضے میں لے لیا ہے۔
ایف سی افسر نے جس ’پاکستان مخالف‘مواد کے بارے میں بات کی وہ کارل مارکس اور برٹرینڈ رسل کے ساتھ ساتھ مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، نیلسن منڈیلا اور چی گویرا کی سوانح عمریوں پر مشتمل لٹریچر نکلا۔ برآمد ہونے والے دیگر لٹریچر میں بلوچ قوم پرست نقطہ نظر سے لکھی گئی تاریخ کی کتابیں بھی شامل ہیں، جن میں بلوچستان کے سب سے مشہور شاعر اور اسکالر میر گل خان ناصر کی تصنیف بھی شامل ہے،جو 1983 میں انتقال کر گئے تھے۔ ادبی رسائل بشمول ماہتک بلوچی، سنگر، زرمبش اور دیگر بھی ضبط کیے گئے تھے۔
اسی سال اپریل میں پولیس کی جانب سے گوادر میں بھی اسی طرح کے چھاپے مارے گئے تھے، جن میں دو دکانداروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 3 جنوری 2015 کو تربت میں نیشنل ایکشن پلان کے زیراہتمام مزید چھاپے مارے گئے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ ریاستی مفادات کے لیے خطرناک سمجھے جانے والے کسی بھی لٹریچر کو ضبط کیا جائے۔
ضلع کیچ کا صدر مقام تربت خاص طور پر سیکورٹی فورسز کے لیے ایسے خیالات کی مقبولیت کی وجہ سے مسائل کا شکار رہا ہے،جنہیں ریاست کی جانب سے بغاوت یا تخریبی تصور کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ تربت بلوچ علیحدگی پسندی (دونوں پر امن اور عسکریت پسند)کا تاریخی گھر بھی ہے۔ ان خیالات کو روکنے کے لیے جو کچھ پڑھا جا رہا ہے اس پر ہمیشہ سخت جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
اگرچہ پبلک ایجوکیشن سسٹم زیادہ تر مکران کی پٹی میں بھی دیگر بلوچستان کے علاقوں کی طرح خستہ حالی کا شکار ہے۔تربت کو 2012 میں اپنی پہلی پبلک یونیورسٹی ملی۔ یونیورسٹی آف تربت صوبے کی صرف دوسری یونیورسٹی ہے، جسے اسے تقسیم کے 65 سال بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ عطا شاد ڈگری کالج جیسے ادارے اب بھی یونیورسٹی سے الحاق کے مراحل میں ہیں۔
پاکستانی ریاست بڑی حد تک مکران کی پٹی میں اپنے بیانیے کو قائم کرنے سے قاصر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ بلوچی ادب تک رسائی حاصل ہے۔ انگریزی خاص طور پر سیکورٹی فورسز کے ایک طبقے کے لیے تشویش کا باعث ہے، جو کسی نہ کسی جواز کے ساتھ یہ مانتے ہیں کہ انگریزی زبان کا علم طلبہ کو اس قسم کے ادب کی طرف دھکیل دے گا جو ریاست نہیں چاہتی کہ وہ پڑھیں۔
ایک قوم پرست کارکن کا کہنا ہے کہ ”کالج سے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے میں بائیں بازو کے سیاست دانوں اور ترقی پسند ادب سے محبت کرنے والوں کے ساتھ ایک اجتماع میں تھا۔ شروع میں، یہ میرے لیے شرمناک تھا کیونکہ میں نے شاید ہی کوئی کتاب پڑھی تھی۔ تب میرے ایک سینئر ساتھی نے مشورہ دیا کہ میں اپنے پڑھنے کا سفر سابق کمیونسٹ رہنما اور دانشور سبط حسن سے شروع کروں۔ مجھے ان کی کتابیں ’ماضی کے مزار‘اور ’موسیٰ سے مارکس تک‘ بہت پسند تھیں۔
سبط حسن کی کتابوں سے شروعات کرنے کے بعدمذکورہ کارکن نے جلد ہی اپنے پڑھنے کے انتخاب کو متنوع بنا دیا۔ وہ مارکس، اینگلز، میلکم ایکس، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، نیلسن منڈیلا، جین پال سارتر، اور پاؤلو فریئر کے پرائمری کاموں کو پڑھنے کے لیے آگے بڑھے۔ان کا کہنا تھا کہ”ان لکھاریوں کو پڑھنا بہت دلچسپ ہے کیونکہ وہ آپ کو یہ سکھاتے ہیں کہ کیا سوچنا ہے،بجائے اس کے کہ سوچنا کیسے ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے ان کے زمانے کے عظیم دماغوں کے ساتھ گفتگو کرنا۔“
ان کی طرح تربت کے دوسرے لوگ بھی اپنی دلچسپیوں کو متنوع کرنے سے پہلے اپنی پسند کے مصنف سے شروعات کرتے ہیں۔2009سے 2011کے عرصہ میں تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کی سیاست متحرک ہونے کی وجہ سے پڑھنے کے کلچر کا ایک زبردست احیاء ہونے کے بعد، ماضی قریب میں ایک بار پھر انگریزی پڑھانے والے نجی مراکز کے خلاف کریک ڈاؤن دیکھنے میں آیا ہے۔ 8 جنوری 2014 ء کو ایف سی نے تربت میں انگریزی زبان کے تدریسی مرکز پر اس بہانے چھاپہ مارا کہ وہ’پاکستان مخالف لٹریچر‘پڑھا رہا ہے۔ بعد ازاں مرکز کو بند کر دیا گیا۔
ڈیلٹا لینگویج سنٹر ایک ایسا مرکز ہے، جو اپنے اردگرد ہونے والے تمام واقعات کے باوجود مضبوط کھڑا ہے۔ یہ مرکز2006 میں قائم کیا گیا۔ اس کے بانی اور معروف ماہر تعلیم برکت اسماعیل بلوچ کے مطابق اس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک، پڑھنا اور وسیع دنیا کے ساتھ مشغول ہونا ہے۔
برکت اسماعیل بتاتے ہیں کہ ”کوئٹہ کے بعد تربت واحد شہر ہے،جہاں ’ڈان‘کو طلبہ بڑے پیمانے پر پڑھتے ہیں۔میرے ڈیلٹا لینگویج سنٹر میں ’ڈان‘کے روزانہ 50 سبسکرائبرز ہوتے ہیں لیکن ہفتے اور اتوار کو پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ کر 100 ہو جاتی ہے۔“
تربت میں بڑے پیمانے پر سرکاری اسکولوں تباہ حالی کے باوجود انگریزی زبان تک رسائی بہت سے طلبہ کے لیے گیم چینجر ہے۔ ڈیلٹا سینٹرز میں سے ایک میں جماعت نہم کی طالبہ دریشم کریم بلوچ بتاتی ہیں کہ کس طرح وہ جماعت ہفتم میں خلیل جبران کی کتاب "The Broken Wings” سے متعارف ہوئیں۔ تب سے پڑھنے کی عادت دریشم کے ساتھ ہی رہی ہے۔
مختلف بیک گراؤنڈ انٹرویوز میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تربت میں عوامی تعلیمی نظام میں خلل کے باوجود اعلیٰ خواندگی اس لیے ہے کہ یہ شہر کسی بھی خیال کو آفاقی سچائی کے طور پر قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ فکر کا تنوع بھی موجود ہے کیونکہ محمد بن قاسم یا محمود غزنوی جیسے جنگجوؤں کی فتوحات کی ترجمانی کرنے والا سرکاری لٹریچر بلوچی زبان کی بھرپور روایات سے متصادم ہے، جہاں مقامی ورثے کو غیر ملکی حملہ آوروں کے ساتھ لائی گئی ثقافت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ بلوچی کے چیئرپرسن حامد علی بلوچ بتاتے ہیں کہ ”پہلی شاعری،جو اصل میں بلوچی میں لکھی گئی،وہ 15ویں صدی میں مکران میں ہمل کلمتی کی تھی۔زبانی بلوچی ادب کی روایت 1440 سے شروع ہوتی ہے۔“
وہ بتاتے ہیں کہ تحریری بلوچی ادب کا دور 1838 میں شروع ہوتا ہے۔ 1950 کی دہائی میں ہی مکران نے جدید ادبی تحریر کی طرف ترقی کی۔ انکا کہنا تھا کہ”مصنفین کا ایک گروپ اس سب کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھا۔ اس گروپ میں گوادر سے سید ظہور شاہ ہاشمی، دشت سے کریم دشتی(جو سید ظہور شاہ ہاشمی کے مرشد بتائے جاتے ہیں)، اور مکران سے یار محمد شامل تھے۔“
اس طرح دوسرے لووں کو بھی قلم کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب ملی۔ مثال کے طور پر عظیم شاعر عطا شاد 1950 کی دہائی کی مذکورہ لہر سے متاثر ہوئے اور اس کے نتیجے میں انہوں نے نوجوانوں کے ایک اور گروہ کو شاعری اور ادب میں غیر معمولی دلچسپی لینے پر مجبور کیا۔ 1970 سے 1990 کی دہائی تک مکران میں بلوچی شاعری اتنی ہی مقبول تھی،جتنی اردو شاعری باقی ملک میں تھی۔
حامد علی بتاتے ہیں کہ ”ماضی میں مکران میں اکیڈمیاں قائم نہیں کی گئی تھیں،کیونکہ ادبی سرگرمیوں کا مرکز کراچی ہوا کرتا تھا۔ کراچی میں بلوچ اکثریتی علاقہ لیاری زبان، ادب اور شاعری پر بلوچی میں شائع ہونے والے رسائل کا گھر تھا۔
کراچی کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی سیاسی تبدیلیوں سے یہ انجمن کمزور ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ جیسا کہ لیاری نے خود کو بلوچستان کی گندی سیاست سے دور کر لیا، مکران میں ادبی خلا کو پر کرنے کے لیے مختلف اکیڈمیوں نے جنم لیا۔ یہ کہنا محفوظ ہے کہ بلوچی ادب میں مکران کی شراکت سندھ کے بعد دوسرے نمبر پر رہی ہے۔ درحقیقت مکران کی پٹی میں تیار ہونے والا بلوچی ادب اب اپنے مخصوص منظرناموں میں اپنی سیاسی حقیقتوں کی بہتر عکاسی کرتا ہے۔
شمال میں جہاد؟
شمالی بلوچستان میں جہادی فکر کی تعمیر کو بڑے پیمانے پر وہاں رہنے والے پختونوں کی بڑی آبادی کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ پختون لوگ فطرتاً قدامت پسند ہیں اور اسی لیے پختون بیلٹ میں دائیں بازو کے خیالات کی زیادہ اپیل ہے۔
تاہم بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ پشتو کے استاد برکت شاہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ ”یہ تعمیر مصنوعی ہے۔ یہ جان بوجھ کر دکھایا گیا ہے کہ پختون معاشرہ مذہبی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔آج تک بلوچستان کی پختون آبادی میں قوم پرستانہ خیالات غالب ہیں۔“
پشتو پروفیسر کے مطابق بلوچستان میں انتہا پسندانہ سوچ کے بیج تقسیم سے پہلے ہی بوئے گئے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ”غیر منقسم ہندوستان میں، ہماری شمالی پٹی سے 100 سے زیادہ لوگ مذہب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دیوبند گئے تھے۔ جب ان میں سے کوئی واپس آتا، تو وہ ایک مدرسہ بناتا اور اپنے شاگردوں کو حاصل کرتا۔ اس طرح مذہبی فکر آہستہ آہستہ پھیلتی گئی۔ یہاں سے مولانا عبدالحق، مولانا محمد حسن وغیرہ دینی علوم کے لیے دیوبند گئے۔ اس علاقے میں مذہبی تعلیم پہلے سے موجود تھی لیکن یہ ابتدا میں اتنی ادارہ جاتی نہیں تھی جتنی آج ہے۔“
جدید ادب اپنی تحریری شکل میں بلوچستان کی پختون پٹی میں ایسے لوگوں کے ساتھ پہنچا جو فارسی اور عربی سے وابستہ تھے۔ ان میں مذہبی علماء بھی شامل تھے،جو مدارس اور مساجد میں پڑھا رہے تھے۔ پروفیسر بتاتے ہیں کہ ”وہ آپ کے پہلے شاعراورخطاط ہیں، اور یہاں تک کہ ان کی شاعری مذہبی ذائقہ کی عکاسی کرتی ہے۔“
وہ بتاتے ہیں کہ 20ویں صدی میں پشتو ادب میں پہلی مختصر کہانی لکھی گئی۔ اس کا عنوان The Virgin Widow تھا۔ 1920 کی دہائی سے 1930 کی دہائی تک پشتو زبان میں تخلیق کیے گئے ادب میں ’اصلاح پسند‘عنصر غالب تھا۔ تقسیم سے پہلے اور بعد عبدالصمد خان اچکزئی، سائیں کمال خان شیرانی، اور ایوب خان اچکزئی جیسے پختون دانشوروں کو’سامراج مخالف‘سمجھا جاتا تھا۔ یہ لوگ ترقی پسند تھے،جن کا پشتو ادب، زبان اور سیاست میں اہم کردار تھا۔
برکت شاہ کا دعویٰ ہے کہ ”حالانکہ پختون پٹی میں بائیں بازو کا ادب بہت زیادہ تیار کیا گیا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ترقی پسند ادب تخلیق کرنے والے، اس حقیقت کے باوجود کہ ان کا کام ترقی پسند ہے، بائیں بازو کے مرکزی دھارے سے وابستہ نہیں ہوئے۔“
انکا استدلال ہے کہ ”دائیں بازو کے ادب کا ایک مقررہ اور محدود قاری ہوتا ہے،لیکن اسے کچھ حلقوں سے سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ پشتو میں آپ کو تقریباً نصف درجن میگزین مل سکتے ہیں،جو اس قدر تعاون سے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ انہیں مفت میں دیا جا سکتا ہے۔ یہ کسی حد تک مصنوعی ضرورت پیدا کرنے جیسا ہے۔“
کیا ریاست واپس لوٹ سکتی ہے؟
فکر کی کثرت اور اس سے پیدا ہونے والی صحت مند بحث ایک متحرک، فعال جمہوریت کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن ایک ایسی جگہ جہاں کالم نگار سیرل المیڈا کہتے ہیں کہ ”مبہم چیزیں دھندلی وجوہات کی بناء پر ہوتی ہیں،“ بلوچستان میں سوچ مختلف حلقوں کی طرف سے پوشیدہ ہے۔ مختلف نظریات کو پہلے ہی مشتبہ سمجھا جاتا ہے اور اس لیے کوئی تعمیری بحث مباحثہ نہیں سکتا۔
اس کے باوجود موجودہ حالات کے پیچھے ایک اہم وجہ تعلیم، خواندگی اور ادب کی پیداوار کے معاملات میں حکومتی بے حسی ہے۔ حکومت کی طرف سے چھوڑے گئے خلا میں، دوسرے زیادہ اثر و رسوخ کے لیے لڑ رہے ہیں۔
سی سی پی او چیمہ کہتے ہیں کہ ”انٹرنیٹ پر نفرت انگیز تقاریر اور مواد آنا شروع ہو گیا ہے،جس کا وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو نوٹس لینا چاہیے اور سائبر کرائم بل کے تحت کارروائی کرنی چاہیے۔چونکہ زمین پر نفرت پھیلانے والے جہادی مواد کی فروخت اور اس کا پرچار کرنے سے ڈرتے ہیں، اس لیے وہ انٹرنیٹ پر اپنے ایجنڈے کا پرچار کرنا آسان سمجھتے ہیں۔ وہ انتہائی خفیہ طور پر نفرت انگیز مواد کا پرچار اور تقسیم کرتے ہیں۔“
ماہرین تعلیم کا استدلال ہے کہ فرقہ وارانہ تنظیموں کو بلوچ قوم پرستوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے بلوچستان میں کھلی چھٹی دی گئی تھی، خاص طور پر وہ لوگ جو پاکستان سے علیحدگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگرچہ فرقہ وارانہ تنظیموں کو حال ہی میں لگام ڈالی گئی ہے، لیکن ان کا پروپیگنڈہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ ایسے ہی چیلنجز بلوچستان کی حکومتی مشینری کو درپیش ہیں۔
دیگر ادارہ جاتی مسائل بھی ہیں۔ انگریزی یا بلوچی میں کسی بھی چیز پر عدم اعتماد ان میں سرفہرست ہے۔ اگرچہ اردو ملک کی قومی زبان ہے، لیکن بلوچی کو حکومتی ڈھانچے میں بھی زیادہ ثقافتی سرمائے کا درجہ نہیں مل پا رہا ہے۔ مثال کے طور پر بلوچی ادب کے ہیرو اردو میں چھپنے والے سرکاری ادب کے ہیرو نہیں ہیں۔ اردو ادب میں انہی بلوچ ہیروز کو مصیبت زدہ اور غیر محب وطن قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح بلوچستان کے وسطی اور مشرقی علاقوں میں اردو میں مذہبی لٹریچر بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچی مصنفین اور قارئین زیادہ تر مکران میں مقیم ہیں لیکن ان کے سامعین بھی زیادہ تر مکران میں مقیم ہیں۔ مکران کے اضلاع میں سے ایک پنجگور بھی نسبتاً مذہبی نوعیت کا ہے۔ مخلوط تعلیم اور پرائیویٹ سکولوں کو حالیہ برسوں میں مذہبی انتہا پسندوں نے بند کر دیا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بلوچی زبان میں چند رسائل ہیں،جو صرف مذہبی امور پر گفتگو کرتے ہیں۔
ان اختلافات اور مختلف سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی ان کو حل کرنے میں ناکامی نے بلوچستان میں علم کی پیداوار کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس جمود کا حتمی نقصان بلوچ شہریوں اور خاص طور پر نئی نسلوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ حقیقت اور پروپیگنڈے میں فرق کرنا ایسا نہیں ہے جس کا انہیں بوجھ برداشت کرنا چاہیے، لیکن یہ ایک بوجھ ہے جسے وہ اٹھانے پر مجبور ہیں۔
(بشکریہ: ڈان، ترجمہ: حارث قدیر)