ٹونی عثمان
پاکستان نے معرضِ وجود آنے کے بعد غیر مذہبی سوویت یونین کی بجائے غیر اسلامی امریکہ کو اپنے ساتھی کے طور پر چُنا گیا۔ امریکہ اور پاکستان کی غیر فطری دوستی کو پاکستان کے عوام نے کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اینٹی امریکہ نعرہ آج بھی بکتا ہے اور سیاسی راہنما اس نعرے کو مختلف ادوار میں کیش کرواتے رہتے ہیں۔
منٹو کا شمار ان میں ہوتاہے جنہوں نے بہت پہلے، 1950 کی دہائی کے شروع میں ہی، امریکہ کے بہت قریب ہونے کے نقصانات کی نشاندہی کر دی تھی۔ جی ہاں، یہ وہی سعادت حسن منٹو ہیں جن کانام اُردو دُنیامیں سب سے زیادہ مقبول ادب تخلیق کرنے والوں میں شمار ہوتاہے۔ محض 42سال 8 ماہ اور4 دن کی زندگی میں اُنہوں نے ادب کا انتہائی دلچسپ اور سبق آموز خزانہ تخلیق کیا۔ یوں تو اُنہیں عظیم افسانہ نگار کے طور پر یاد کیاجاتاہے مگر اس مضمون میں اُن کی اُن تحریروں پر بات کی جائے گی جو اُنہوں نے”چچاسام کے نام خط“کی شکل میں لکھی تھیں۔ دسمبر 1951 سے اپریل 1954 کے عرصے میں اُنہوں نے”چچاسام“کو کُل 9 خطوط لکھے۔ یہ خطوط، جن میں اُنہوں نے“چچاسام”کو امریکہ کے لئے ایک عُرفی نام کے طور پر استعمال کیا، نہ صرف طنزومزاح کا ایک خوبصورت نمونہ ہیں بلکہ”بھتیجا“پاکستان اور”چچا“امریکہ کے درمیان تعلقات کے بارے میں ایک اہم سیاسی دستاویز بھی ہیں۔ یہ 9 خطوط پاکستان کی خارجہ پالیسی اور امریکی اغراض و مقاصد پر ایک بہترین تنقید فراہم کرتے ہیں۔ انہیں پڑھنے سے پاکستان کے سیاسی و سماجی مسائل اور شناخت کے متعلق سوچ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ منٹو پہلے خط کے آغاز میں ہندوستان کے مضحکہ خیز بٹوارے کی عکاسی کرتے ہوئے شناخت کے متعلق ایک دلچسپ سوچ کے عمل کو یوں شروع کرتے ہیں: ”میرا ملک ہندوستان سے کٹ کر کیوں بنا، کیسے آزاد ہوا، یہ تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خط لکھنے کی جسارت کررہا ہوں، کیونکہ جس طرح میرا ملک کٹ کر آزاد ہوا اسی طرح میں کٹ کر آزاد ہوا ہوں، اور چچاجان، یہ بات تو آپ جیسے ہمہ دان عالم سے چھپی ہوئی نہیں ہونی چاہئے کہ جس پرندے کو پر کاٹ کر آزاد کیاجائے گااس کی آزادی کیسی ہوگی۔ خیر اس قصے کو چھوڑیئے۔ میرا نام سعادت حسن منٹو ہے، اور میں ایک ایسی جگہ پیدا ہوا تھا جو اب ہندوستان میں ہے۔ میری ماں وہاں دفن ہے، میرا باپ وہاں دفن ہے، میرا پہلا بچہ بھی اسی زمین میں سو رہا ہے لیکن اب وہ میرا وطن نہیں۔ میرا وطن اب پاکستان ہے جو میں نے انگریزوں کے غلام ہونے کی حیثیت میں پانچ چھ مرتبہ دیکھا تھا۔“
آزادی اظہار اور پاکستان کے عدالتی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے منٹو لکھتے ہیں ”انگریزوں کی حکومت بھی مُجھے فحش نگار سمجھتی تھی، میری اپنی حکومت کابھی میرے متعلق یہی خیال ہے۔ انگریزوں کی حکومت نے مجھے چھوڑ دیاتھا لیکن میری اپنی حکومت مُجھے چھوڑتی نظر نہیں آتی۔ عدالت ماتحت نے مُجھے تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ سیشن میں اپیل کرنے پر میں بری ہوگیا مگر میری حکومت سمجھتی ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ چناچہ اب اس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے کہ سیشن کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور مُجھے قرار واقعی سزا دے۔ دیکھئے عدالت عالیہ کیافیصلہ کرتی ہے۔“
آگے جاکر منٹو لکھتے ہیں کی وہ تین ماہ قید بامشقت کاٹنے کے لئے تیار ہیں لیکن تین سو روپے جرمانہ ادا نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ غریب ہونے کی وجہ سے مشقت کے تو عادی ہیں مگر روپوں کے عادی نہیں۔
پاکستان کی طرف سے 1951 میں کوریا میں فوج بھیجنے سے انکار کے بعد امریکہ نے پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش میں پاکستان کے سیاسی، سماجی اور ادبی حلقوں میں ہمدرد تلاش کرنا شروع کر دیئے۔ اس سلسلے میں لاہور میں ایک ایئر کنڈیشنڈ یو ایس آئی ایس (امریکہ کی انفارمیشن سروس) کی لائبریری قائم کی گئی۔ اسی تناظر میں امریکہ کو خیال آیا کہ سرد ثقافتی جنگ میں منٹو کو اپنا اہلکار بنایا جاسکتاہے۔ لہٰذا لاہور میں امریکی قونصلیٹ نے منٹو سے رابطہ کر کے اُنہیں پیسے دے کر کُچھ لکھوانا چاہا، اس کا ذکر منٹو دوسرے خط میں یوں کرتے ہیں۔”ان صاحب سے انگریزی میں مصافحہ ہوا۔ مُجھے حیرت ہے چچاجان کہ وہ انگریزی بولتے تھے، امریکی نہیں، جو میں ساری عمر نہیں سمجھ سکتا۔ بہرحال ان سے آدھ پون گھنٹہ باتیں ہوئیں۔ وہ مُجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے، جس طرح ہر امریکی پاکستانی یاہندوستانی سے مل کر خوش ہوتاہے۔ میں نے بھی یہی ظاہر کیاکہ مُجھے بڑی مُسرت ہوئی ہے۔“
منٹو بکاؤ نہیں تھے اور ان کے لئے اظہاررائے کی آزادی سب سے اہم تھی۔ دوسرے خط میں آگے جاکر وہ لکھتے ہیں ”دوسرے روز صبح سویرے جب میں برآمدے میں شیو کر رہاتھا، آپ کے وہی صاحب تشریف لائے، مختصر سی بات چیت ہوئی۔ انہوں نے مُجھ سے فرمایا، دیکھئے دوسو کی رٹ چھوڑیئے، تین سو لے لیجئے۔ میں نے کہا، چلو ٹھیک ہے۔ چناچہ میں نے ان سے تین سو روپے لے لئے۔ روپے جیب میں رکھنے کے بعد میں نے ان سے کہا، میں نے آپ سے سو روپے زیادہ وصول کئے ہیں لیکن یہ واضح رہے کہ جو کچھ میں لکھوں گا وہ آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ اس میں کسی قسم کے ردوبدل کا حق بھی میں آپ کو نہیں دوں گا۔“
اس کے بعد امریکی قونصل خانے سے وابستہ کسی نے منٹو سے رابطہ نہ کیا مگر منٹو نے چچاسام کو خط لکھنا جاری رکھا۔
تیسرے خط میں وہ اپنی بیماری کاذکر کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کو ادیبوں، شاعروں اور مصوروں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر پھر بھی وہ رہنا پاکستان میں ہی چاہتے ہیں کیوں کہ اس کی خاک، جو ان کے پھیپھڑوں میں مُستقل جگہ بناچُکی ہے، انہیں بہت عزیز ہے۔ اسی خط میں منٹو معصومیت سے ایٹم بم کی تباہ کاریوں پر یوں کمنٹ کرتے ہیں ”ایک چھوٹا سا، ننھامُنا ایٹم بم تو میں آپ سے ضرور لوں گا۔ میرے دل میں مُدت سے یہ خواہش دبی پڑی ہے کہ میں اپنی زندگی میں ایک نیک کام کروں۔ آپ پوچھیں گے یہ نیک کام کیا ہے۔ آپ نے خیر کئی نیک کام کئے ہیں اور بدستور کئے جارہے ہیں۔ آپ نے ہیروشیما کو صفحہ ئ ہستی سے نابود کیا، ناگاساکی کو دھوئیں اور گردوغبار میں تبدیل کردیا، اس کے ساتھ ساتھ آپ نے جاپان میں لاکھوں امریکی بچے پیدا کئے۔“
منٹو بین الاقوامی حالات سے اچھی طرح باخبر تھے، آگے جاکر خط میں لکھتے ہیں ”یہ میں کیاسُن رہاہوں کہ چارلی چپلن اپنے امریکی شہریت کے حقوق سے دستبردار ہوگیاہے، اس مسخرے کو کیاسُوجھی۔ ضرور اس کو کمیونزم ہو گیاہے۔ ورنہ ساری عمر آپ کے ملک میں رہا، وہیں اس نے نام کمایا، وہیں اس نے دولت حاصل کی، کیا اسے وہ وقت یاد نہ رہاجب لندن کے گلی کوچوں میں بھیک مانگتا پھرتا اور کوئی اسے پوچھتا نہیں تھا۔ روس چلا جاتا۔ لیکن وہاں مسخروں کی کیاکمی ہے، چلو انگلستان ہی میں رہے اور کچھ نہیں تو وہاں کے رہنے والوں کو امریکنوں کا ساکُھل کے ہنسنا تو آجائے گا اور وہ جو ہر وقت اپنے چہروں پر سنجیدگی اور طہارت کاغلاف چڑھائے رکھتے ہیں کچھ تو اپنی جگہ سے ہٹے گا۔“
اپنے چوتھے خط میں انہوں نے پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی کے عروج کی پیشن گوئی کی اور جنرل ضیاء کے دؤر میں ”افغان جہاد“کے نام پر مذہبی جنونیوں کو امریکی اسلحہ سے مسلح کرنے سے اڑہائی دہائیاں قبل یہ لکھا”ہندوستان لاکھ ٹاپا کرے آپ پاکستان سے فوجی امداد کا معاہدہ ضرور کریں گے اس لئے کہ آپ کو اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے استحکام کی بہت زیادہ فکر ہے اور کیوں نہ ہو اس لئے کہ یہاں کا مُلا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔ فوجی امداد کاسلسلہ شروع ہوگیا تو آپ سب سے پہلے اُن مُلاؤں کو مسلح کیجئے گا۔“اسی خط میں منٹو”اپوا“یعنی آل پاکستان ایسوسی ایشن اور پاکستانی فلمی ہیروئنوں کا مزاق بھی اُڑاتے ہیں۔
اپنے پانچویں خط کی شروعات منٹو ناراضگی کا اظہار کرنے سے کرتے ہیں۔ وہ ایٹم بم نہ ملنے کی وجہ سے امریکہ سے ناراض ہیں۔ اُسی خط میں انہوں نے پاکستان میں حکومتوں میں بار بار ردوبدل کا ذکر بھی کیا ہے اور بڑے معصومانہ انداز میں ہائیڈروجن بم کے متعلق بھی لکھاہے۔ پاکستان میں اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز اُس وقت بھی آج جیسی کاروائیوں میں مگن رہتے تھے۔ تب بھی ایک خاص سیاسی سوچ کو دبانے کے لئے ایک مخصوص طبقہ کو پروموٹ کیاجاتاتھا۔
منٹو لکھتے ہیں ”یہاں ایک علاقہ ہے مغربی پنجاب، اس کے وزیرِاعلیٰ ہیں فیروز خان نُون (اُن کی بیگم ایک انگریز خاتون ہیں) آپ نے اُن کا نام تو سُنا ہوگا۔ حال ہی میں آپ نے اپنے دولت کدے پر (جو پنچولی فلم اسٹوڈیو کے آگے ہے) ایک کانفرنس بلائی۔ اس میں آپ نے مُسلم لیگ (جسے مشرقی پاکستان میں شکست فاش ہوئی ہے) کے کارکنوں کو مشورہ دیاکہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اشتراکیوں (سُرخوں) کے مقابلے کے لئے جدوجُہد کریں۔ دیکھئے چچاجان، آپ فیروز خان نُون صاحب کا شُکریہ ادا کیجئے اور خیر سگالی کے طور پر ان کی بیگم صاحبہ کے لئے ہالی وڈ کے سلے ہوئے دو تین ہزار فراک بھیج دیجئے۔ کہیں آپ نے بھیج تو نہیں دیئے، میں بھول گیا تھا کیونکہ اب وہ ساڑھی پہنتی ہیں۔ بہرحال نُون صاحب کا اشتراکیت دُشمن ہونا بڑی نیک فال ہے کیونکہ کامریڈ فیروزالدین منصور پھر جیل میں ہوگا۔ مُجھے اس کا ہر وقت دمے کے مرض میں گرفتار رہنا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔“
پاکستان کے نامور اسکالر، سیاسی کارکن اور مارکسزم کے علمبرداروں میں سے ایک سمجھے جانے والے سید سبط حسن کا ذکر منٹو یوں کرتے ہیں ”اب میں آپ کو ایک بڑا اچھا مشورہ دیتا ہوں۔ ہماری حکومت نے حال ہی میں کامریڈ سبط حسن کو جیل سے رہا کیاہے۔ آپ اس کو اغوا کرکے لے جائیے، میرا دوست ہے، لیکن مُجھے ڈر لگتاہے کہ وہ اپنی پیاری پیاری نرم نرم باتوں سے ایک روز مُجھے ضرور کمیونسٹ بنالے گا۔ یوں تو میں اتنا ڈرپوک نہیں، کمیونسٹ ہو بھی جاؤں تو میرا کیا بگڑ جائے گا۔ مگر آپ کی عزت پر حرف آنے کا خیال ہے لوگ کیا کہیں گے کہ آپ کا بھتیجا ایسے بڑے دلدل میں جا دھنسا۔ میری اس برخورداری پر ایک شاباش تو بھیجئے۔“
منٹو کا چھٹا خط بہت عجیب اور انتہائی مُختصر تھا۔ اس میں لکھا تھا”چچاجان، آداب و تسلیمات، یہ میرا چھٹا خط تھامیں نے خود پوسٹ کرایا تھا، حیرت ہے، کہاں گُم ہو گیا۔“
مُمکن ہے منٹو اس مُختصر خط سے اُن خفیہ ایجنسیوں کے متعلق بتانا چاہتے تھے جو نہ صرف خطوں اور دیگر چیزوں کو غائب کر دیتی ہیں بلکہ انسانوں کو بھی پُراسرا طریقے سے اغوا کر لیتی ہیں۔
اپنے ساتویں خط میں منٹو اپنے پچھلے خط کے غائب ہونے پر پریشانی کا اظہار کرنے کے بعد سازشی تھیوریز کی نشاندہی یوں کرتے ہیں ”جہاں تک میں سمجھتا ہوں ساری کارستانی روس کی ہے اور اس میں بھارت کابھی ہاتھ ہے۔ پچھلے دنوں لکھنؤ میں آپ کے اس برخوردار بھتیجے پر ایک ”سمپوزیم“ہوا تھا، اس میں کسی نے کہا کہ میں آپ کے امریکہ کے لئے اپنے پاکستان میں زمین ہموار کر رہا ہوں۔“
منٹو کمیونسٹوں کا مذاق بھی اُڑاتے ہیں اور ان سے دوستی بھی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ اپنے چھٹے خط کا غائب ہوجانا کمیونسٹوں کی شرارت قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں ”میرے بس میں ہوتا تو میں شرارت پسندوں کے ایسے کان اینٹھتاکہ بلبلا اٹھتے، مگر مصیبت یہ ہے کہ میں، اب آپ کو کیا بتاؤں، یہاں کے سارے بڑے بڑے کمیونسٹ میرے دوست ہیں۔ مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی، سبط حسن، عبداللہ ملک (حالانکہ مُجھے اس سے نفرت ہے، بڑا گھٹیا قسم کا کمیونسٹ ہے) فیروزالدین منصور، احمد راہی، حمید اختر، نازش کشمیری اور پروفیسر صفدر۔“
امریکی معیشت میں جمود کی خبروں کو مدنظر رکھتے ہوئے، منٹو امریکہ کی جنگی معیشت پر یوں تبصرہ کرتے ہیں ”چچاجان، میں نے ایک بڑی تشویش ناک خبر سُنی ہے آپ کے ہاں تجارت اور صنعت بڑے نازک دور سے گُزر رہی ہے۔ آپ تو ماشاء اللہ عقل مند ہیں، لیکن ایک بیوقوف کی بات بھی سُن لیجئے۔ یہ تجارتی اور صنعتی بُحران صرف اس لئے پیدا ہواہے کہ آپ نے کوریا کی جنگ بند کر دی ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ اب آپ ہی سوچئے کہ آپ کے ٹینکوں، بمبار ہوائی جہازوں، توپوں اور بندوقوں کی کھپت کہاں ہوگی۔“
منٹو نے چچاسام کو مشورہ دیاکہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ شروع کروا دیں اور دیکھیں کہ کس طرح کوریا جنگ کے فائدے اس جنگ کے فائدوں کے سامنے ماند پڑ جائیں گے۔
اپنے آٹھویں خط میں منٹو لکھتے ہیں کہ سیاسی قوتوں کو دبانے کا کام عروج پر ہے اور کمیونسٹوں کے دفاتر پر پولیس چھاپے مارنے میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے غائب ہوجانے والے خط کا پھر ذکر کرتے ہیں اور اپنے کمیونسٹ دوست احمد راہی پر اسے غائب کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اُن دنوں ایران، عراق اور سعودی عرب سے شاہی مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا تھا جس کا ذکر منٹو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لکھتے ہیں کہ اُنکی عاجزانہ رائے میں چچاسام کو فوری طور پر اسلام کو اپنا ریاستی مذہب قرار دینا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں کئی فائدے ہوں گے۔ ہر شادی شدہ مرد کی چار بیویاں ہوں گی اور اگر انتہائی احتیاط کے بعد ایک عورت چار بچوں کو جنم دیتی ہے تو ہر خاندان سولہ بچے پیدا کرے گا جو شوہر کی مردانگی اور بیوی کی زرخیزی کے زندہ ثبوت ہوں گے۔ ذرا سوچئے کہ یہ تعداد جنگ کے وقت کتنا فائدہ دے سکتی ہے۔ اس خط کے آخر میں منٹو بعض پبلشرز کی طرف سے کئے جانے والے استحصال کا ذکر یوں کرتے ہیں ”یہ خط نامکمل چھوڑ رہا ہوں۔ اس لئے کہ مُجھے اپنے پبلشر سے اپنی نئی کتاب کی رائلٹی وصول کرنی ہے، دس روز سے وعدہ کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے آج دس روپے تو ضرور دے گا، یہ مل گئے تو میں یہ خط پوسٹ کر سکوں گا ورنہ۔۔۔ Gene Tierney کو ایک اُڑتا ہوا بوسہ۔۔۔“
منٹو اپنے نویں اور آخری خط میں پنجاب میں شراب نوشی پر پابندی کا ذکر کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ کوئی بھی آدمی بارہ روپے اور دو آنے خرچ کرکے شراب پینے کا پرمٹ حاصل کرکے اس پابندی کی آسانی سے خلاف ورزی کر سکتاہے۔ منٹو لکھتے ہیں ”ہماری حکومت مُلاؤں کو بھی خوش رکھنا چاہتی ہے اور شرابیوں کو بھی، حالانکہ مزے کی بات یہ ہے کہ شرابیوں میں کئی ملا موجود ہیں اور ملاؔؤں میں اکثر شرابی۔“
اس وقت کے وزیرخارجہ سر ظفر اللہ خان کے خلاف مذہبی حلقوں کی طرف سے مظاہروں اور ہالی ووڈ کی ہیروئنRita Hayworthکا تذکرہ بھی منٹو نے آخری خط میں کیا ہے۔