پرویز امیر علی ہودبھائی
جہاں کبھی پانچ صدیوں پرانی بابری مسجد کھڑی تھی، اب وہیں رام مندر کھڑا ہے۔ اس کے ارد گرد ویٹیکن جیسا ایک نیاشہر بننے جا رہا ہے۔
بھارت میں ایما ن کے حرارت والوں نے اب تک 4.2ارب ڈالر سرکاری او ر نجی عطیات جمع کئے ہیں۔ اگرچہ مندر کی تکمیل میں کئی سال باقی ہیں، لیکن مقدس تقریبات کا آغاز کچھ دن پہلے سے ہو گیا تھا۔ آر ایس ایس نے 50ملین چھوٹے کھانے کے پیکٹ تقسیم کئے اور اس سے قبل 7ٹن حلوہ بھی آچکا تھا۔
حکومت 1لاکھ سادھوؤں اور پجاریوں کیلئے ٹرین اور ہیلی کاپٹر خدمات کا انتظام کر رہی ہے، نئے فائیو اسٹار ہوٹلوں کیلئے ٹھیکے دیئے گئے ہیں اور سکولوں میں روزانہ پوجا ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنا سفر بس اور ٹرین تک محدود رکھیں۔
پیر کو وزیراعظم نریندر مودی ایودھیا پہنچے۔ ان کا اس موقع پر پیغام تھا:”پوری دنیا اس تاریخی لمحے کا انتظار کر رہی ہے۔ ہاتھ جوڑ کر میں ملک کے 140کروڑ عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ 22جنوری کو جب رام لی لاکی مورتی کی تقدیس ہو تو اپنے گھر میں رام جیوتی روشن کریں اور دیپاولی منائیں۔“اتر پردیش کے ہسپتالوں کی اطلاع ہے کہ درجنوں حاملہ خواتین نے سی سیکشن کی درخواست کی ہوئی تھی تا کہ ان کے بچے کی پیدائش اس مبارک تاریخ کو ہو۔
ان تقریبات کا مقصد اور وزیراعظم کا مرکزی کردار ظاہری طور پر مذہبی ہے، لیکن کچھ سینئر پروہت اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ا نہوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا، کیونکہ مودی تکنیکی طور پر ’پران پراتشتھا‘(روح کو مورتی کے اندر ڈالنے) کی رسم ادا کرنے کیلئے اہل نہیں تھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ مودی ایک بار پھریہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ان کے تحت ایک نیا بھارت وجود میں آچکا ہے، جس کی 1947میں پیدا ہونے والے بھارت سے لگ بھگ کوئی مشابہت نہیں ہے۔
ہندتوا کا پیغام دوطرح کے سامعین کو ٹارگٹ کرتا ہے۔ اول،بھارت کے مسلمان جن کیلئے مودی کا پیغام ہے: دوبارہ جنم لینے والا بھارت ہندوؤں کیلئے ہے، ان کیلئے نہیں۔ جس طرح پاکستان اپنی ہندو آبادی کو کم حقوق کے ساتھ کمتر شہری سمجھتا ہے، اسی طرح بھارت کے مسلمانوں کو بھی کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ حملہ آوروں کی ناپسندیدہ اولاد ہیں، جنہوں نے ایک قدیم سرزمین کو برباد کیا اور ان کی شان و شوکت کو لوٹ لیا۔
بدلہ لیناہندوتوا کا رہنما اصول ہے، جس کی مثال یہ کہ ایک تاریخی عمارت کو تباہ کر دیا گیا۔ مارچ 2023 میں جب ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے والے ایک ہجوم نے ایک صدی پرانے مدرسے اور قدیم نسخوں پر مشتمل لائبریری کو نذر آتش کر دیا، تو یہ 12ویں صدی کے مسلمان حملہ آور بختیار خلجی کے ہاتھوں نالندہ یونیورسٹی کو برباد کرنے کا بدلہ تھا۔
چند روز قبل، رام مندر کی تقدیس کے دوران منفی نتائج سے بچنے کیلئے آر ایس ایس نے مسلمانوں کو مساجد، درگاہوں اور مدرسوں میں ”شری رام، جئے رام، جئے جئے رام“ کے نعرے لگانے کا مشورہ دیاتھا۔
دوسرا پیغام بی جے پی کی سیاسی مخالفت کرنے والوں بالخصوص کانگریس کیلئے ہے کہ وہ اپنا بیانیہ سیکولر سے مذہبی میں تبدیل کرے، بی جے پی کے گراؤنڈ پر کھیلے، بصورت دیگر کانگرس والے ہندو مخالف تصور کئے جائیں گے اور اپریل2024کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہونگے۔ ان انتخابات میں نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم بننے کے خواہش مند ہیں۔
رام مندر کے افتتاح نے کانگریس کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی اس کے سرکردہ رہنماؤں نے ’سیاسی تقریب‘ کا طعنہ دیتے ہوئے افتتاح میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم نیچے والے رہنما دباؤ برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے ایودھیا کا دورہ کیا، دریا میں مقدس اشنان کیا اور عہد کیا کہ وہ بھی ’رام راجیہ‘ چاہتے ہیں، وہ بی جے پی سے بہتر رام راج قائم کریں گے۔
خواہ ہندو طریقے سے ہو یا مسلم طریقے سے، مذہب میں سیاست کا استعمال پاکستان کی تاریخ سے واقف حال لوگوں کے لئے ہر گز حیران کن نہیں۔ 1937کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو عبرت ناک شکست کے فوراً بعد قائد اعظم نے مذہب کو ہتھیار بنایا اور اسے سیاست میں ڈھالا۔ 1980کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے اسے دوہری خوراک کے ساتھ دوبارہ انجیکٹ کیا تھا۔
آج پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کے ہتھیاروں میں مخالفین کو گرانے کا سب سے بڑا ہتھیار مذہب ہے۔ پی ٹی آئی جب اقتدار میں تھی تو مذہب کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے خلاف بار بار استعمال کیا۔ جوابی کارروائی میں مریم نواز کی میڈیا ٹیم نے حال ہی میں عمران خان پر حملہ کرتے ہوئے سود سمیت یہ احسان واپس لوٹایا۔
میں کم کم ہی بھارت گیا ہوں لیکن پھر بھی میرے لئے بھارت میں سیکولرازم کی تیزی سے پسپائی حیران کن ہے۔ 20سال پہلے بنگلور میں جواہر لال نہرو انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ ریسرچ کا دورہ کرتے ہوئے میں سنگ بنیاد پر کندہ نہرے کے ان الفاظ کی جانب متوجہ ہوا: ”میں نے بھی سائنس کے مزار پر پوجا کی ہے“لیکن مجھے ’پوجا‘اور ’مزار‘ جدید سائنس پر یقین رکھنے والے نہرو کے منہ سے کچھ عجیب لگے۔
میرے میزبان سمجھا تے ہوئے بولے کہ سائنس کا مزار درحقیقت لیبز اور تحقیقی مراکز کیلئے ایک استعاراتی اشارہ تھا۔انہوں نے فخر سے کہا کہ نہرو ایک ملحد تھے اور کبھی مندروں میں نہیں گئے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ درحقیقت مندروں کے ساتھ ساتھ مساجد میں بھی جاتے تھے۔ ان کی جیل ڈائری’دی ڈسکوری آف انڈیا‘ میں مذہب کے بارے میں ان کا نظریہ کافی حد تک واضح ہے۔
منی شنکر ایئر نے حال ہی میں دلیل دی کہ نہرو ہندو مذہب کو بھارت کا سرکاری مذہب بنانے کے خلاف آخری دم تک لڑائی لڑتے۔ دسمبر1947میں ان کی کابینہ نے ریاستی خرچ پر سومناتھ مندر کو دوبارہ تعمیر
کرنے کا فیصلہ کیا، جسے 11ویں صدی میں محمود غزنی نے لوٹ لیا تھا۔ جب نہرو کو پتہ چلا تو وہ غصے میں آگئے اور منٹس خفیہ طور پر بدل دیئے گئے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ریاست کسی عبادت گاہ کی تعمیر میں ملوث نہیں ہوگی مگرکسی عبادت گاہ کی تعمیر بطور نجی اقدام ٹھیک ہے۔ 1951میں جب صدر راجندر پرساد نے بحال شدہ مندر کا سرکاری دورہ کرنے کی کوشش کی تو نہرو نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔
بھارت کے دوسرے بانی مہاتما گاندھی بھی شاید ایودھیا میں عظیم مندر بنانے کو یکسر مسترد کر دیتے۔ ان کے سوانح نگار رام چندر گوہا لکھتے ہیں کہ گاندھی خود کو ایک متقی ہندو کہتے تھے لیکن پھر بھی احمد آباد میں گزارے کئی سالوں میں وہ شہر کے کسی بھی مندر کے اندر نہیں گئے۔ گاندھی کا کہنا تھا کہ بھگوان کو پوجا کیلئے مندریا بت کی کی ضرورت کیوں ہے؟
21نومبر1947کے دعائیہ اجلاس سے گاندھی کی اجتماعیت واضح ہوتی ہے: ”مجھے جو معلومات ملی ہیں، اس کے مطابق حالیہ فسادات میں دہلی کی تقریباً137مساجد کو تقریباً تباہ کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو مندروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ میرے رائے میں یہ مذہب کے ہر اصول کے خلاف ہے۔۔۔۔اس فعل کی شدت کو یہ کہہ کر کم نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں مسلمانوں نے ہندو مندروں کو بھی مسمار کر دیا ہے یا انہیں مساجد میں تبدیل کر دیا ہے۔“
بھارت کی ایک ہندو راشٹر میں تبدیلی پاکستان میں ایک طرح سے تسکین کا باعث بنی ہے۔ یہ عمل دو قومی نظریہ کی توثیق کرتا ہے: ہندو اور مسلمان کبھی ساتھ نہیں رہ سکتے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں بھارت کے مسلمانوں اور پاکستان میں باقی رہنے والے چند ہندوؤں کا کیا بنے گا؟ کیا بھارت کبھی بھی اپنی پرانی، زیادہ موافق اور سیکولر اساس کی طرف لوٹ سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ابھی دینا مشکل ہے۔ پاکستان کیلئے یہ اور بھی مشکل دکھائی دیتا ہے، جس کی لبرل اقتدار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ 1970کی دہائی میں کام تمام کر چکی تھی۔
(یہ کالم ابتدائی طور پرروزنامہ ’ڈان‘میں شائع ہوا۔ اس میں مصنف نے معمولی رد و بدل کی ہے۔’ڈان‘ میں کالم رام مندر کے افتتاح سے قبل شائع ہواتھا)۔