دنیا

رام مندر سے ہندو مسلم محنت کشوں کو کوئی فائدہ نہیں: ریڈیکل سوشلسٹ

(ریڈیکل سوشلسٹ، مارکس وادی تنظیم ہے جو عالمی سطح پر چوتھی انٹرنیشنل سے ہمدردی رکھتی ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے ریڈیکل سوشلسٹ نے مندرجہ ذیل بیان جاری کیا ہے جسے قارئین جدوجہد کے لئے انگریزی سے حارث قدیر نے اردو میں ترجمہ کیا ہے)۔

ریڈیکل سوشلسٹ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کے افتتاح کے سیاسی طور پر خوفناک تماشے کی سخت مذمت کرتی ہے۔ 22 جنوری 2024 کو ’پران پراتشتھان‘کی تقریب آزادی کے بعد سے ایک سیکولر جمہوری نظام کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو ایک اور عظیم علامتی دھچکا ہے۔ یہ واقعہ ہندو راشٹرا کے قیام کی طرف ہائیڈرا کی سربراہی والے سنگھ پریوار کے انتہائی منقسم فرقہ پرست فرقہ وارانہ ایجنڈے کی علامت ہے، اور ان کے جنگجو ہندوتوا نظریہ کو ملک کی غالب عام فہم کے طور پر ابھارنے کے مشن کی نمائندگی کرتا ہے۔ رام مندر کا افتتاح 2014میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک دہائی طویل آمرانہ ایمرجنسی جیسی حکمرانی کے پس منظر میں آیا ہے۔

نریندر مودی اور امیت شاہ ننگی جارحیت پر مبنی بی جے پی کی حکمرانی کا تصور غریب مسلم کمیونٹیز کو نشانے بنانے والے فسادات، ریاستی ایجنسیوں کے غلط استعمال اور ہر طرح کے اختلاف کو ختم کرنے والے سخت قوانین، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کو جھکانے کے ساتھ ساتھ سی اے اے اور این آر سی جیسے مسلم مخالف امتیازی قوانین کے ذریعے جمہوری اصولوں اور شہری آزادیوں کو منظم طریقے سے تباہ کر کے بنایا گیا ہے۔ مندر کے افتتاح کے گرد ہونے والی سرگرمیاں جیسے سرکاری تعطیل کا نفاذ، اسپتالوں، سکولوں اور تعلیمی اداروں کو بند کرنا، عوامی مقامات پر زعفرانی پرچم لہرانافلاحی تنظیموں کو متحرک کرنے کی نچلی سطح پر مہم چلانے جیسے اقدامات بھی بے مثال ہیں۔ سنگھ پریوار کے ذریعے تیار کردہ رام مندر کیلئے حمایت کے انتہائی اشتعال انگیز مظاہرے ہمیں صرف یہ یاد دلانے کیلئے کام کرتے ہیں کہ نیا فرقہ وارانہ طور پر پولرائزڈ ہندوستان، جس کا نام وشوا گرو کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، میں اب مذہبی اور نسلی اقلیتوں کیلئے مہمان نواز ملک نہیں رہا۔ نہ ہی ان کیلئے جو ہندوتوا بریگیڈ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔

بہر حال جیسا کہ ہم سنگھ پریوار کے ذریعے ملک کے فن تعمیر کے ساتھ ساتھ ہیرا پھیری کر کے تاریخ کو مٹانے اور دوبارہ لکھنے کی مشترکہ کوششوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ہم 6دسمبر1992کو بابری مسجد کے انہدام کی خونی تاریخ اور اس کے نتائج کو بھی یاد کریں۔ یہاں تک کہ ابتدائی سیکولر آزاد انڈیا میں بھی ہندو رنگ کی ثابت قدمی کی کئی طریقوں سے تصدیق کی گئی تھی، جن مین سے ایک بابری مسجد میں ایک خفیہ طریقے سے رام مورتی کی تنصیب تھی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کو دیکھتے ہوئے مورتی کو ہٹانے کی بجائے صورتحال کو ایسا ہی رکھنے کا فیصلہ کیا، جس کی وجہ سے فریقین نے عدالت کا راستہ اختیار کیا۔ یہ مسئلہ، جو کافی عرصے سے ابلتا تھا، اس وقت دوبارہ کھلا جب راجیو گاندھی کی قیادت والی کانگریس حکومت نے اسے کھڑا کیا۔ اس کے بعد سنگھ کمبائن نے ایک بہت بڑا موقع دیکھا اور اپنی رام جنم بھومی مہم کو بھرپور طریقے سے شروع کیا۔ ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں الٹرا تھیٹریکل رام رتھ یاترا کے نتیجے میں پورے ملک میں فرقہ وارانہ تشددکا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس کے نتیجے میں 1800لوگ مارے گئے۔ یہ تحریک اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب بی جے پی کے سرکردہ رہنماؤں کی قیادت میں سینکڑوں خود ساختہ کارسیوکوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رام مندر تحریک ایک سیاسی مسئلہ تھا اور اس کا ہندو مذہب سے بہت کم تعلق تھا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو ہندوتوا طاقتوں نے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں غیر واضح طور پر اکسایا تھا، جیسا کہ 1995میں مہاراشٹرا میں شیوسینا کی انتخابی کامیابیوں اور 1998میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کی جیت کی صورت میں نظر آیا۔

2002کے گودھرا فسادات سنگھ پریوار کے اپنے تنگ نظر سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے فرقہ وارانہ کشیدگی کے بیج بونے کی ایک اور وحشیانہ مثال تھی۔ کمزور مسلم آبادیوں کو نشانہ بنانے والے فسادات کو مختلف انوسٹی گیٹنگ سول لبرٹی گروپوں نے مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت گجرات کی ریاستی حکومت کی جانب سے اعلیٰ ترین سطح پر تیار کردہ فسادات قرار دیا تھا۔ فسادات کے دوران کئی دنوں تک جاری رہنے والا جو قتل عام ہوا، وہ انڈین تاریخ کے تاریک ترین لمحات میں سے ایک ہے۔ اس میں تقریباً2000مسلمان مارے گئے، بہت سے زخمی ہوئے، دسیوں ہزار عارضی کیمپوں میں طویل عرصہ تک بے گھر ہوئے اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے گھروں، دفاتر اور دکانوں کو تباہ و برباد کیا گیا۔ مسلمانوں کی بستیوں کے نتیجے میں ایک ایسا حصہ تشکیل دیا گیا، جس کو ’گجرات ماڈل‘ کے طور پر انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا گیا۔ اس نے مودی اور امیت شاہ کو قومی سیاسی اسٹیج پر پہنچایااور ساتھ ہی ساتھ ایک اہم کارپوریٹ ڈونر گوتم اڈانی کے عروج کی راہ بھی ہموار کی۔ 2019میں بابری مسجد کیس میں رام مندر کی تعمیر کو جائز قرار دینے کا سپریم کورٹ کا شرمناک فیصلہ اس کی روشن مثال ہے کہ کس طرح عدلیہ بھی سنگھ پریوار کے جاری بھگوا ایجنڈے کو روکنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

یہ صاف ظاہر ہے کہ رام مندر کی تعمیر سے انڈیا کے عام محنت کشوں کو،خواہ وہ مسلمان، ہندو یا دیگر کوئی ہوں، کوئی فائدہ نہیں دینے والا۔ درحقیقت اس نے پہلے ہی ان ہزاروں لوگوں کی زندگیوں پر قبضہ کر رکھا ہے، جن کی زمینیں متوقع یاتریوں کیلئے شاہراہوں کی تعمیر کیلئے حاصل کی گئی ہیں۔ مزید برآں مندر کی تقریبات کے یجمان کے طورپر مودی کے سینٹر اسٹیج کے ساتھ موجود تماشے کا مقصد واضح طور پر ہندو بالادستی کے احساس کو فروغ دینا ہے، جو ایک مرکزی پیغام ہوگا کہ بی جے پی آئندہ انتخابات کیلئے اپنی مہم کے دوران اسی طرح پیش کرے گی، جس طرح انہوں نے 2019کے لوک سبھا انتخابات کیلئے پلوامہ حملے کو ایک انتخابی حربے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کی اب تمام تر توجہ محنت کش غریبوں کی زندگیوں سے متعلق کسی بھی طرح کے بامعنی، یا ہم مسائل پربات چیت کو انتخابات کے ایجنڈے سے ہٹانے پر مرکوز ہے۔ وہ جمہوریت کے خول کو برقرار رکھتے ہوئے اسے قانون اور ماورائے قانونی طریقوں سے اندر سے کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر ایک طرف الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، مرکزی اور ریاستی حکومت کی بیوروکریسی جیسے اداروں کی آزادی کو سنجیدگی سے سلب کیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، سی بی آئی اور این آئی اے جیسے ریاستی ایجنسیوں کو مخالفین، اختلاف کرنے والے افراد اور ترقی پسند تنظیموں کو بلاجواز ہراساں کرنے اور سزا دینے کیلئے چن چن کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ظاہری انتخابی شکل سے وفاداری انہیں وہ سیاسی جواز فراہم کرتی ہے، جسے پھر معاشی محاذ پر نیو لبرلزم کی انتہائی شکلوں کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، جبکہ سیاست کو ایک نسلی قومی ہندو ریاست سے مشابہ کرنے کیلئے نئی شکل دی جا سکتی ہے۔

رام مندر کے افتتاح(جس کی تعمیر مکمل ہونا ابھی کافی دور ہے)، مرکزی حکومت اور ملک بھر کی یونیورسٹیوں کی طرف سے اعلان کردہ سرکاری تعطیلات کے ارد گر د ہونے والی وسیع تقریبات کا یہ تازہ ترین واقعہ ایک عجیب یاددہانی ہے کہ ہمالیہ سے کنیا کماری تک انڈیا کا وجود ایک سیکولر جمہوری وجود کے طور پر ایسے خطرے میں ہے، جیسا پہلے کبھی نہیں تھا۔

ریڈیکل سوشلسٹ: 22 جنوری 2024

Roznama Jeddojehad
+ posts