(نوٹ: طبقاتی جدوجہد کی 41ویں کانگریس کے سلسلہ میں عالمی صورتحال سے متعلق دستاویز’سوشلزم یا بربریت: عالمی صورتحال، پیش منظر اور لائحہ عمل‘ شائع کی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز کا ایک حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
گہرے بحران کے حالات میں بر سر اقتدار آنے والی بورژوا اور مفاہمت پسند سیاسی قیادتیں کٹوتیوں کی انتہائی جارحانہ پالیسیاں لاگو کرتی ہیں جن سے محنت کش عوام کا معیار زندگی ناقابل برداشت سطح تک گر جاتا ہے۔ اس سے روایتی بورژوا پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں، نئے رجحانات کی تشکیل اوران کے اقتدار کے تیر رفتار تجربے ہو رہے ہیں، حکومتیں گر رہی ہیں اور نئے سیاسی عوامل ابھر رہے ہیں۔
سماجی اور سیاسی پولرائزیشن کا ایک بہت ہی تیز رفتار عمل جاری ہے۔ جس سے سماج تقسیم اور تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایک انتہا پر جا کے اس کا سیاسی اظہار کئی ممالک میں دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کا ابھار بھی ہے۔ تاہم سماج میں ان کا اثر و رسوخ اور طبقاتی جدوجہد کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ابھی اس قابل نہیں کہ وہ محنت کش طبقے کو شکست دے کر اپنا ایجنڈا نافذ کر سکیں۔ اس عمل کی دوسری انتہا (محنت کش عوام کے) احتجاجوں، ہڑتالوں، بغاوتوں اور انقلابات میں تیار ہو رہی ہے۔ لیکن ان کے پاس ایسا سیاسی اظہار نہیں جو ان کی مکمل نمائندگی کر سکے۔ اس اظہار کا واحد راستہ انقلابی بائیں بازو کی تعمیر اور مضبوطی ہی ہے۔
دائیں اور انتہائی دائیں بازو کے ابھار کی ذمہ داری مختلف قوم پرست، پاپولسٹ اور ’سینٹر لیفٹ‘ حکومتوں کی ناکامی پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس صدی کے آغاز میں عوامی تحریکوں میں بڑی توقعات کو جگایا تھا۔ حاوی بورژوا میڈیا اور کئی مذہبی اداروں نے بھی عوام کے دائیں بازو کی جانب جھکاؤ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
کئی دہائیوں کے بحران نے بورژوا جمہوریت کے اداروں کو بھی عوام کی نظروں میں گرا دیا ہے اور بورژوا جمہوری طرز کی حکومتوں کو عوام پر بالا
دستی اور کنٹرول کے طریقہ کار کے طور پر کمزور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بورژوازی زیادہ سے زیادہ جابرانہ اقدامات پر مجبور ہو رہی ہے اور حکومتیں زیادہ سے زیادہ آمرانہ ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسا نہ صرف تابع اور پسماندہ ممالک بلکہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔
جیسا کہ ہم نے آئی ایس ایل کی دوسری کانگریس کی طرف سے منظور شدہ عالمی دستاویز میں وضاحت کی ہے، ”ہم اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کر سکتے کہ اربوں کی آبادی کے ساتھ نئی سرمایہ دارانہ ریاستوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جہاں بورژوا جمہوریت کا ادارہ کبھی پنپ ہی نہیں سکا۔ جبکہ دوسری جانب کئی ریاستوں میں بہت پہلے ہی اس کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ چین، روس، ایران، کیوبا، وینزویلا، نکاراگوا، شام اور درجنوں عرب اور افریقی ممالک میں آمرانہ حکومتیں قائم ہیں جن کے پاس عوام کو جمہوری آزادیاں دینے کی صورت میں اقتدار میں رہنے کی گنجائش بہت کم بچتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خلاف عوامی تحریک اٹھنے پر وہ وحشیانہ جبر کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ممالک میں جاری تحریکوں میں ہمیں فعال طور پر حصہ لینا چاہیے اور اس کیمپزم (Campism) کا مقابلہ کرنا چاہیے جو ہمیشہ عوامی تحریکوں کو ”سامراج کے ہاتھوں میں نہ کھیلنے“ کے نام پر بدنام کرنے اور ریاستی جبر کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں عوام کے عدم اطمینان کے حقیقی اظہاروں کی حمایت کرنی چاہیے۔ ہماری پالیسی دائیں بازو اور سامراج اور دوسری جا نب بائیں بازو کے لبادے میں سرمایہ داری کی آمرانہ حکومتوں سے مختلف ہونی چاہیے۔ اسی صورت میں ہم عوام کی ہراول اور وسیع تر پرتوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔“
ان ممالک میں ہم جہاں سامراجی مداخلت و جارحیت کی مذمت اور مزاحمت کریں گے وہاں محنت کش عوام کی انقلابی تحریکوں کی حمایت کریں گے اور انہیں سوشلسٹ پروگرام سے مسلح کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اسی طرح کیوبا جیسے ممالک میں معیشت کے قومیائے گئے حصوں اور معاشی منصوبہ بندی کے عناصر کو محفوظ کرنے اور انہیں محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں بڑے پیمانے پر ترویج دینے کی جدوجہد کریں گے۔