(نوٹ: طبقاتی جدوجہد کی 41ویں کانگریس کے سلسلہ میں عالمی صورتحال سے متعلق دستاویز’سوشلزم یا بربریت: عالمی صورتحال، پیش منظر اور لائحہ عمل‘ شائع کی گئی ہے۔ مذکورہ دستاویز کا ایک حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
2023ء میں عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کی سطح سے تقریباً 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تک پہنچ گیا۔ 2023ء کے دوران اوسط عالمی درجہ حرارت پچھلے 100,000 سالوں میں کسی بھی وقت سے زیادہ تھا۔
دسمبر میں جب دبئی میں کوپ 28 (اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے موسمیاتی تبدیلی) کا اجلاس ہو رہا تھا تو اس وقت ریو ڈی جنیرو (برازیل) میں درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچ چکا تھا اور 50 ڈگری محسوس ہو رہا تھا۔ کئی ہزار کلومیٹر دور آسٹریلیا بھی اپنا ہی ریکارڈ توڑ رہا تھا۔
جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوام متحدہ کا اعلیٰ سطحی اجلاس، جو کہ عا لمی مقتدرہ کی موسمیاتی پالیسی سازی کا باضابطہ ادارہ ہے، کرہ ارض کے سماجی و ماحولیاتی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ ایسی بیکار کاروائیوں میں مصروف تھا:
”اجلاس توثیق کرتا ہے کہ توانائی کے شعبے میں ’بعد از فوسل‘ عہد کی طرف بڑھنا ضروری ہے… لیکن بیک وقت یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ منڈی کے نظام کو ’کسی وقت پر‘ اس تبدیلی کا سامنا کرنے کے قابل بنایا جائے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر ٹیکس شامل ہے۔“
سرمایہ دارانہ نظام کے حالات میں سیاسی معاشیات کی یہ سب سے بنیادی اور جانی پہچانی حقیقت ہے کہ کوئی بھی کارپوریشن جس کے پاس قیمتیں طے کرنے کی اجارہ داری ہو، جیسے کہ بڑی توانائی کمپنیاں ہیں، ٹیکس کا بوجھ صارفین پر ہی ڈالتی ہے۔ لہٰذا ٹیکس آلودگی پھیلانے والے اخراج کو بالکل نہیں روکتا بلکہ تجارت کی ہر کڑی میں توانائی اور اس سے اخذ کردہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ لہٰذا محنت کش عوام اس ”منڈی کے حل“ کی دگنی قیمت ادا کرتے ہیں۔ ایک تو گلوبل وارمنگ کم نہیں ہوتی اور اس کے طبقاتی نتائج انہیں بھگتنے پڑتے ہیں۔ دوسرا توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اس سے جڑا عدم تحفظ بڑھ جاتا ہے۔
عالمی بورژوازی کا بالادست حصہ اب موسمیاتی تبدیلی کے انکار سے انفرادی ذمہ داری کے نظریے تک چلا گیا ہے اور”سبز“ یا ”ماحول دوست سرمایہ داری“ کو فروغ دینے لگا ہے۔ یہ سب ایک دھوکہ ہے جس کا مقصد وقت حاصل کرنا ہے تاکہ عوامی تحریک کو گمراہ یا منتشر کیا جا سکے (اور ساتھ ہی سرمائے میں اضافہ بھی جاری رکھا جائے)۔ لیکن مسئلہ یہ ہے سماجی اور ماحولیاتی حوالے سے انسانیت کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔
٭ در حقیقت کرہ ارض کی ماحولیاتی تباہی، اقتصادی و معاشی بحران اور اس کے سیاسی، سماجی و عسکری مضمرات آپس میں جڑے ہوئے ہیں:
منافع کی گرتی ہوئی شرح کی بحالی کے لیے اپنی مستقل ردِ انقلابی منطق کے تحت سرمایہ سٹرکچرل ردِ اصلاحات نافذ کرتا ہے جن سے پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے فطرت کو جنس میں تبدیل کیا جاتا ہے (مثلاًزرعی کاروبار، فریکنگ اور صنعتی پیمانے پر جانوروں کی افزائش)۔ اس کا نتیجہ حیاتیاتی تنوع کے خلاف مزید ماحولیاتی جارحیت، جنگلات کی مزید کٹائی اور میتھین کا مزید اخراج ہے۔ ان سب سے کرہ ارض کا درجہ حرارت مزید بڑھتا ہے۔
٭ اگرچہ ’کوپ‘ والے اپنی ”بعد از فوسل تبدیلی“کا دم بھرتے ہیں لیکن کوئلے کا استعمال اُلٹا بڑھ گیا ہے۔ یوکرائن جنگ سے توانائی کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں جس سے اس شعبے میں سرمائے کے ارتکاز کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور اب مشرق وسطیٰ کے تنازعے کی وجہ سے اس عمل میں اور بھی شدت آ رہی ہے۔ چنانچہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ رہا ہے۔
اس پس منظر میں جو چیز بار بار ایک فوری ضرورت کے طور پر ظاہر ہوتی ہے اور جو سرمایہ دارانہ نظام میں نا ممکن ہے وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایک ہنگامی سماجی و ماحولیاتی پروگرام ہے جس کی بنیاد سرمایہ داری مخالف، سامراج مخالف اور ایکو سوشلسٹ (Eco-Socalist) ہو۔
٭ فوسل توانائی کے ڈھانچے سے باہر نکلنا ہو گا۔ اس شعبے کی اجارہ داریوں کو بغیر معاوضے کے ضبط کیا جائے اور صاف اور قابل تجدید توانائی کی طرف سماجی کنٹرول کے ساتھ ریاستی سطح پر منتقلی کو سبسڈی دی جائے (آئی پی سی سی ایک با اختیار سائنسی ادارے کے طور پر تجرباتی ماڈلوں کے ذریعے ثابت کرچکا ہے کہ قابل تجدید ذرائع دنیا بھر کی توانائی کی ضروریات سے 10 گنا زیادہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں)۔
٭ سماجی طور پر غیر ضروری آلودگی پھیلانے والی تمام صنعتوں پر پابندی لگائی جائے جن میں زراعت کا کاروبار، دیو ہیکل پیمانے کی کانکنی، فریکنگ وغیرہ شامل ہیں۔ عوام کے صحت بخش، غذائیت سے بھرپور اور قابل رسائی خوراک کے حق کو یقینی بنانے کے لیے جامع زرعی اصلاحات کی جائیں اور بڑے پیمانے پر ماحول دوست زرعی پیداوار کو استوار کیا جائے۔
٭ محنت کشوں اور صارفین کے سماجی کنٹرول اور ریاستی ملکیت میں پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی اور بہتری یقینی بنائی جائے اور ذاتی ٹرانسپورٹ کے آلودگی پر مبنی استعمال کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
٭ یومیہ اوقات کار میں کمی کی جائے اور اجرت کو افراط زر اور اوسط خاندانی ضروریات سے جوڑا جائے۔ دستیاب کام کو تمام فعال لیبر فورس کے درمیان تقسیم کیا جائے۔ اس طرح مکمل روزگارکے حق کی یقین دہانی ہو گی اور ساتھ ہی ساتھ بڑے پیمانے پر سماجی فرصت بھی میسر آئے گی۔
٭ اشیا اور خدمات کی پیداوار اور تقسیم کی جمہوری منصوبہ بندی کی جائے اور معیشت کے کلیدی شعبوں کو محنت کش خواتین اور مردوں کے ہاتھوں میں دیا جائے۔ ماحولیاتی اور سماجی طور پر پائیدار کرہ ارض سے متصادم سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کے انتشار کے خاتمے کی یہی بنیاد ہے۔
بلاشبہ یہ اس دنیا، جسے سرمایہ داری بربادی کی اتھاہ گہرائیوں کی جانب دھکیل رہی ہے، کی تہذیبی و ثقافتی نجات کے لیے انقلابی تبدیلی کے کچھ ناگزیر اقدامات ہیں۔
مثبت امر یہ ہے کہ فوری ماحولیاتی ایجنڈا محنت کشوں کی نوجوان اور ہراول پرتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اہمیت حاصل کر رہا ہے۔ وہ اس حوالے سے مزید ریڈکلائز ہو رہے ہیں۔ ان میں ایسی حساسیت اور شعور تیزی سے بڑھ رہا ہے جو کم از کم سرمایہ داری مخالف ہے اور اس کا اظہار ایسی جدوجہدوں اور منظم گروہوں میں ہو رہا ہے جنہیں وسیع تر سماجی ہمدردی ملتی ہے۔ انقلابیوں کے لیے چیلنج ان جدوجہدوں کا حصہ بننا ہے اور ساتھ ہی صبر سے ان ہراول دستوں کے بہترین عناصر کو اپنی حکمت عملی اور نظریاتی پوزیشنوں پر جیتنا ہے۔ اسی طرح پوری دنیا میں آئی ایس ایل کے سیکشن نامیاتی طور سے مضبوط ہو سکتے ہیں۔