ٹونی عثمان
ناروے کے سرکردہ ناول نگاروں میں سے ایک کھنیوت ہامسن ہیں۔ انہیں 1920 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ اُن کے کئی ناولوں کو اسٹیج کے لیے ڈرامائی شکل دی گئی اور سنیما کی سکرین پر بھی پیش کیا گیا۔ وہ ناروے کے سب سے زیادہ فلمائے گئے مصنفین میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ متنازعہ بھی سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ 1930 کی دہائی میں ہٹلرکے جرمنی کے حامی تھے اور ناروے پر جرمن قبضے کی حمایت کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے ناولوں کی ساکھ تباہ نہیں ہوئی اور نارویجن ادب میں وہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والوں میں سے ایک رہے ہیں۔
طبقاتی تقسیم اور غیر منقولہ محبت پر 1898 میں لکھا گیا اُن کا ناول Victoria اُن کے سب سے مشہور ناولوں میں سے ایک ہے۔ خاموش فلموں کے دور میں روس میں اس ناول پر مبنی ایک خاموش فلم 1917 میں بنائی گئی۔ پھر1935 میں جرمنی، 1979 میں سویڈن، 1988 میں سوویت یونین اور 2013 میں ناروے نے بھی بنائی۔ 2004 میں اس ناول کو اوسلو کے تھیٹر Oslo Nye کے مرکزی اسٹیج پر بھی پیش کیا گیا تھا۔
سگریداُندسیت ناروے کی بین الاقوامی سطح پر سب سے مشہور خاتون مصنفہ ہیں۔ اُنہوں نے ناول، افسانے، مضامین،سوانحی تحریریں اور چند نظمیں اور ڈرامے بھی لکھے۔ تاہم ناول نگاری کو اُن کے ادبی کاموں کا اہم حصہ مانا جاتاہے۔ انہیں 1928 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ ہٹلر اور نازی ازم کے خلاف اُن کا بہت واضح موقف تھا اس لئے جب جرمنی نے ناروے پر قبضہ کر لیا تو انہیں ناروے سے فرار ہونا پڑا۔ وہ کئی سال امریکہ میں رہیں جہاں وہ ناروے کی آزادی کی جدوجہد میں مضامین لکھ کر اور لیکچر دے کر متحرک رہیں۔
اُن کا 1911 میں بے خوفی سے لکھا گیا ناول Jenny اُن کی فنکارانہ پیش رفت سمجھا جاتا ہے اور یہ ناروے میں خواتین کی جنسیت کی ابتدائی عکاسیوں میں سے ایک ہے۔ اس ناول کو معاشرے میں خواتین کے مقام کے بارے میں جاری بحث کے جواب کے طور پر بھی دیکھا گیا۔ یہ ناول ایک ایسی عورت کا نفسیاتی مطالعہ ہے جس نے فن کی دنیا میں ایک تخلیق کار کے طور پر اپنا مقام حاصل کر لیا ہے اور ہم آہنگی کی محبت کا خواب دیکھتی ہے۔ لیکن زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ ناروے کے سرکاری ٹیلی ویژن NRK نے ناول پر مبنی تین اقساط پر مشتمل سیریز بنا کر1983 میں پیش کی تھی۔
اردو پڑھنے والوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اب یہ دونوں ناول”وکٹوریہ“اور”ینی“مترجم شگفتہ شاہ کی بدولت اردومیں پڑھے جاسکتے ہیں۔ شگفتہ شاہ پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب اور قانون پڑھنے کے بعد 70ء کی دہائی میں ناروے منتقل ہوگئیں اور اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتے ہوئے اوسلو یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں نہ صرف نارویجن اور اردو پر مکمل عبور ہے بلکہ اُنہیں ناروے اور پاکستان کی ثقافتوں کی بھی اچھی طرح سمجھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دونوں ناولوں کو نارویجن زبان سے براہ راست اردو کے قالب میں ڈھالنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اردو قارئین ان کتابوں سے نہ صرف ناروے کے بہترین ادب سے لُطف اندوز ہونگے بلکہ ان خوبصورت ادبی کاوشوں سے سوچ کا ایک عمل بھی شروع ہوگا۔