پاکستان

جموں کشمیر: عوامی احتجاج کا موجب بننے والا صدارتی آرڈیننس کیا ہے؟

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی اجتماعات کے انعقاد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے۔ 29اکتوبر کو جاری کیے گئے اس صدارتی آرڈیننس میں عوامی اجتماعات، جلسے، جلوس وغیرہ منعقد کرنے کا عمل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پیشگی اجازت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق کسی فوری مطالبے پر احتجاج کرنے پر تقریباً پابندی ہی عائد کر دی گئی ہے، کیونکہ احتجاج کے لیے 7روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دینا لازمی ہوگا اور مطالبات بھی 7روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو لکھ کر دینا ہونگے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسی شرائط ہیں، جن کو کوئی بھی مظلوم انسان یا پھر وہ شخص جس کا حق چھینا گیا ہو، اس کے لیے پورا کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔

اس سارے آرڈیننس کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی بھی غیر سیاسی کہلانے والا پلیٹ فارم، تنظیم، گروپ وغیرہ سیاسی مطالبات پر احتجاج یا اجتماع منعقد نہیں کر سکے گا۔ یعنی اگر آپ کو سیاسی مطالبات پیش کرنے ہیں تو آپ کو ایک سیاسی پلیٹ فارم بنانا ہوگا، بصورت دیگر آپ ایسا نہیں کر سکتے۔

تاہم آرڈیننس میں یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ سیاسی مطالبات کیا ہوتے ہیں۔ ریاست سے کیا جانے والا ہر مطالبہ چونکہ آخری تجزیے میں سیاسی مطالبہ ہی ہوتا ہے، اس لیے مجموعی طور پر اس آرڈیننس کے ذریعے احتجاج کا حق ہی چھین لیا گیا ہے۔

آرڈیننس میں کیا ہے؟

اس آرڈیننس کو ”پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘کہا جائے گا۔ اس کا مقصد عوامی اجتماعات کے مخصوص مقامات پر انعقاد کو ریگولیٹ کرنا بتایا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا ہے کہ عبوری آئین’ایکٹ1974‘ ہر شہری کو پر امن اجتماع، تقریر اور اظہار رائے کا بنیادی حق امن عامہ کے مفاد میں عائد کردہ پابندیوں کے اندر رہتے ہوئے فراہم کرتا ہے۔

تاہم امن عامہ اور نظم و نسق کو بحال اور قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پرامن اجتماع کو ریگولیٹ کیا جائے تاکہ شہریوں کے بنیادی حقوق، پبلک اور پرائیویٹ پراپرٹی کو محفوظ بنایا جا سکے، شہریوں کی روزمرہ زندگی میں خلل نہ آئے اور سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریاں بغیر کسی رکاوٹ کے ادا کر سکیں۔

اجتماع کی اجازت کے لیے شرائط

آرڈیننس کے مطابق ایونٹ کوآرڈی نیٹر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس اجتماع سے 7روز قبل اجازت نامے کے لیے اپلائی کرے گا۔

اگر درخواست 7روز قبل نہیں دی گئی تو تاخیر سے درخواست دینے کی کوئی معقول وجہ نہ ہونے کی صورت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اجازت دینے سے انکار کر سکتا ہے۔ تاہم اگر ایونٹ کے انعقاد میں 48گھنٹے سے کم وقت باقی ہو اور اس وقت درخواست دی جائے تو وہ منظور نہیں کی جائے گی۔

کوئی بھی ایسی درخواست منظور نہیں کی جائے گی، جو کسی غیر سیاسی تنظیم کی طرف سے کسی سیاسی مقصد کے لیے اجتماع منعقد کرنے کے لیے دی گئی ہو۔

دی گئی درخواست کے ساتھ کوآرڈینیٹر کا نام، پتہ، شناختی کارڈ کی نقل، پروگرام کی تفصیلات، فون نمبر، تنظیم کا نام، اجتماع کا مقصد یا چارٹر آف ڈیمانڈ،اجتماع کا وقت، معیاد اور اجتماع کی تاریخ،اجتماع کے انعقاد کی جگہ اور شرکاء کی تعدادبتانا لازم ہوگا۔

اگر یہ اجتماع جلوس کی صورت میں ہے تو پھر جلوس کا مکمل روٹ،وقت اور جگہ،جہاں جلوس کے شرکاء اجتماع کی شکل اختیار کریں گے، اور وقت وجگہ جہاں سے جلوس شروع ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتانا ہوگا کہ کس وقت اور کس جگہ یہ جلوس ختم ہوگا اور شرکاء منتشر ہونگے۔ یہ طریقہ بھی بتانا ہوگا کہ شرکاء جلوس شروع ہونے والی جگہ تک کس طریقے سے پہنچیں گے اور جلوس ختم ہونے کے بعد کیسے واپس ٹرانسپورٹ ہونگے۔ جلوس کے لیے آنے والی گاڑیوں کی قسم اور تعداد بھی درخواست کے ساتھ ہی فراہم کرنا ہوگی۔

اجازت نامہ

درخواست کی وصولی کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امن عامہ کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سکیورٹی کلیرنس لے گا۔ امن عامہ کی صورتحال کا جائزہ لینے اور درکار رپورٹس حاصل کرنے کے بعد متعین کردہ جگہ کے لیے اجازت دینے کا مجازہو گا۔

اجتماعات کی جگہ بھی حکومت متعین کرے گی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پہلے سے متعین کردہ جگہ کے علاوہ کسی بھی اور جگہ اجتماع کی اجاز ت نہیں دے سکے گا۔

اجتماع کا انعقاد متعین کردہ جگہ، وقت اور تاریخ کے مطابق کروانے کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ ایونٹ کوآرڈی نیٹر سے ضمانتی مچلکہ طلب کرسکے۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تحریری وجہ بتاتے ہوئے اجازت نامہ منسوخ بھی کر سکے گا۔ اجازت کے بغیر کوئی اجتماع منعقد نہیں ہوگا۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تحریر ی حکم کے ذریعے کوئی بھی منظوری کا جاری کردہ حکم واپس یا تبدیل کرنے کا مجاز ہوگا۔ ایسا اس صورت میں ہوگا کہ اگر کسی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی یا متاثرہ شخص کی جانب سے نشاندہی کی جائے،یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ خود یہ محسوس کرے کہ پبلک سکیورٹی کو خطرہ ہے، تشدد بھڑکنے کا خطرہ ہے یابدامنی وغیرہ کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

حکومت ایک نوٹیفکیشن کے تحت کسی بھی علاقے کو حساس، ریڈ زون یا ہائی سکیورٹی زون قرار دے کر وہاں ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔

اجتماعات پر پابندی کا اختیار

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع میں کسی بھی اجتماع پر پابندی عائد کر سکتا ہے۔ ایسا اس صورت میں ہوگا کہ:

اگر اجتماع نیشنل سکیورٹی یا پبلک سیفٹی کے لیے خطرے کا باعث ہو۔

قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی جانب سے ایسی مستند رپورٹس ہوں کہ اجتماع کی صورت تشدد یا بدامنی کا خدشہ ہے۔

اجتماع عوام کی روزمرہ سرگرمیوں میں رکاوٹ بن رہا ہو، عوام اور اشیاء کی نقل و حمل میں رکاوٹ کا باعث ہو، یا ٹریڈ، بزنس اینڈ پروفیشن کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہو۔

کوئی دوسرا جلوس یا اجتماع ضلع میں پہلے سے چل رہا ہو اور مزید اجتماع خلل اور سکیورٹی خدشات کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہو۔

پابندی کا حکم تحریری ہوگا اور پابندی کی وجہ اس پر لکھی ہوگی اور تمام متعلقہ حکام اور اشخاص کے علم میں لانالازم ہوگا۔

پابندی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی جانب سے متعین کردہ معیاد تک ہوگی، جس میں ضروری حالات کے مطابق اضافہ کیا جا سکے گا۔

اپیل اور نظر ثانی

کوئی بھی تنظیم یا شخص جو اس پابندی سے متاثر ہوگا اس کو کمشنر کے پاس 15ایام کے اندر اپیل کرنے کا حق ہوگا۔

کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حکم کو بحال رکھ سکتا ہے، اپیل مکمل منظور کر سکتا ہے،یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے فیصلہ کو جزوی تسلیم کر سکتا ہے، یا پھر اس حکم کو ختم کر کے نیا حکم جاری کر سکتا ہے۔ تاہم کمشنر کو 15ایام کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔ کمشنر کے فیصلے کے خلاف سیکرٹری داخلہ کے پاس اپیل کی جا سکتی ہے۔ سیکرٹری داخلہ کو بھی 15ایام کے اندر فیصلہ کرناہوگا۔

قانونی کارروائی

متعلقہ پولیس آفیسر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی ہدایات کے مطابق اجتماع کو منتشر کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ ہدایات پر عمل نہ کرنے کی صورت بزور طاقت پولیس اجتماع کو منتشر کروائے گی اور ضرورت پڑنے پر غیر قانونی اجتماع کے اراکین کو گرفتار بھی کر سکتی ہے۔

غیر قانونی اجتماع میں شرکت کرنے والے کو تین سال قید اور جرمانے کی سزا ہو گی۔ بعض صورتوں میں یہ سزا 10سال تک بڑھائی جا سکے گی۔ مجسٹریٹ درجہ اول ان مقدمات کی سماعت کرے گا اور پولیس بغیر وارنٹ گرفتاری کرنے کی مجاز ہوگی۔

پس پردہ محرکات

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے علاقے کا سیاسی، معاشی اور انتظامی ڈھانچہ نوآبادیاتی طرز پر چلایا جاتا ہے، جہاں مقامی حکمران اشرافیہ سامراجی طور پر نافذ العمل ایکٹ1974کے تابع ریاست پاکستان کے متعین کردہ لینٹ افسران کی اصل حکمرانی کے سیاسی چہروں کے طور پر ایک طفیلی کردار کی حامل ہے۔

پاکستان میں معاشی بحران سنگین سیاسی اور ریاستی بحران کی صورت میں اپنا اظہار کررہا ہے۔ معمول کے حالات میں جمہوری اور شخصی آزادیوں کے گرد قائم کرنے والی سرمایہ دارانہ ریاستیں بحران کے عہد میں انتہائی آمرانہ اور پرتشدد شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ تاہم پاکستان جیسے پسماندہ خطوں میں جدید قومی ریاست کے تقاضے پورے کرنے کی تاریخی نااہلی کی وجہ سے ایک صحت مند جمہوری ڈھانچہ ترتیب پانے کا خواب ہمیشہ سے خواب ہی رہا ہے۔

حکمران اور ریاست کے طاقتور ادارے سامراج نوازی اور عالمی سامراجی اداروں کی فرمانبرداری کے ذریعے اقتدار کے راستے ہموار کرتے آئے اور سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے تمام تر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

جدید قومی ریاست کے تقاضے پورے نہ ہو سکنے کی وجہ سے جبر اور ریاستی طاقت کی بنیاد پر وفاقی ڈھانچے کو جوڑ کر رکھے جانے کے عمل نے تمام چھوٹی قوموں کے اندر قومی محرومی کے عنصر کو پروان چڑھانے میں تحریک دی۔ یہی وجہ ہے کہ بحران میں شدت،ریاست کے سامراج کی نوآبادی کے کردار کے باوجود خطے میں سامراجی کردارکا حامل ہونے کی ناگزیریت کے خلاف رد عمل مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کررہا ہے۔

تاہم ان پیچیدہ شکلوں میں اور مختلف قوموں کے اندر ابھرنے والی تحریکوں نے پہلے سے بحران زدہ ریاست کے ذمہ داران فوجی یا جنگی طرز پر حکمت عملی بنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ سیاست، جمہوریت اور شخصی آزادیوں کا کوئی تھوڑا بہت پہلو اگر موجود تھا بھی تو اسے مکمل طو رپر پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ قومی محرومی کے خلاف رد عمل ہو، سول رائٹس کی بحالی کے لیے احتجاج ہو یا پھر معاشی مطالبات کے حق میں کی جانے والی جدوجہد ہو۔ یہ سب آخری تجزیے میں سیاسی مسائل ہی ہوتے ہیں، جنہیں سیاسی بنیادوں پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ جب بھی انہیں انتظامی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو پھر تشدد کی راہ ہموار ہوگی۔

ریاست ہمیشہ ہر رد عمل کو ایک جنگی صورتحال کے طور پر ہی دیکھتی ہے اور اس کے پیچھے کسی نہ کسی سازش کے تانے بانے بننے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ریاست کا اپنا کردار اسی نوعیت کا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے خطوں میں ریاست کی فیصلہ سازی کے اختیارات مجتمع ہو کر ایک ’محکمے‘ کی بالادست فیصلہ سازی میں مرکوز ہو چکے ہیں۔ ایسی کیفیت میں پاکستان کے وفاق سمیت آئینی حدود کے اندر اور باہر رہنے والی محکوم قوموں پر حکمرانی کرنے والے سیاسی چہرے مکمل طور پر اس ایک ’محکمے‘ کے مطیع اور فرمانبردار بن کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سطح کی فیصلہ سازی میں سیاسی اور جمہوری پہلو مکمل طور پر باہر ہو چکے ہیں اور انتظامی، جنگی یا سرکاری ذہنیت کا پہلو بالادست شکل اختیار کر چکا ہے۔

کہنے کو آئین سپریم ہوتا ہے اور آئین بنانے والی پارلیمنٹ ہوتی ہے، جہاں عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے لوگ بحث مباحثے کے بعد آئین سازی اور قانون سازی کا عمل مکمل کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان اور اس کے زیر انتظام علاقوں میں اگرکہیں رتی برابر ایسا ماضی میں ہوا بھی ہو تو موجودہ حالات میں بالائی سے نچلے اداروں تک آئین سازی اور قانون سازی ماورائی طاقتوں کے احکامات پر ہی کی جا رہی ہے۔

یہی صورتحال ہمیں پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی حالیہ آرڈیننس سمیت ماضی قریب میں ہونے والی قانون سازیوں اور حکمران اشرافیہ کی پالیسیوں میں نظر آتی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے چلنے والی تحریک کے پس منظر میں تمام تر اقدامات عسکری حکام کے احکامات کی بنیاد پر ہی کئے گے ہیں۔ غیر ملکی سازش، فنڈنگ وغیرہ کے الزامات سے لے کر سیاسی سرگرمیوں پر ہی مکمل طو رپر پابندی عائد کرنے جیسے اقدامات انہی احکامات پر کئے جا رہے ہیں۔

یہ آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق سے مغائر ہی نہیں بلکہ سامراجی اور آمرانہ ہے، جس کے خلاف لڑنے کے علاوہ سیاسی قوتوں کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ اس خطے میں سیاسی، آئینی اور معاشی آزادیوں کے لیے واضح پروگرام اور منشور کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد منظم کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے اپنا اظہار کر رہی ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔