(مندرجہ ذیل دستاویز، چوتھی انٹرنیشنل کی قیادت کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ اگلے سال چوتھی انٹرنیشنل کی عالمی کانگرس بلجئیم میں منعقد کی جا رہی ہے۔ یہ ڈرافٹ دستاویز کی دوسری قسط ہے۔اس دستاویزپر کانگریس میں بحث کی جائے گی۔ ترجمہ عدیل اعجاز،فاروق سلہریا)
سرمایہ دارانہ بحران کو کثیر الجہتی قرار دینے کا مطلب ہے کہ یہ بحرانوں کا سادہ سا پشتارہ نہیں ہے، بلکہ ایک جدلیاتی طور پر مربوط مجموعہ ہے، جس میں ہر دائرہ دوسرے دائرے پر اثر اندازہ ہوتا ہے اور دیگر کے اثرات کو قبول کرتا ہے۔ یوکرین کی جنگ (فلسطین کے تنازعے کے پھوٹنے سے قبل) اور معاشی جمود کے درمیان تعلق نے دنیا کے غریب ترین لوگوں کے لئے خوراک کے حصول کی نازک صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے 2014 سے 2023 کے درمیان 250 ملین سے زائد افراد بھوک کا پہلے سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔ جنگوں، موسمیاتی تبدیلی، خوراک کے بحران اور جابرانہ حکومتوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی نقل مکانی میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر جنوب کے ممالک میں، حالانکہ ذرائع ابلاغ زیادہ تر جنوب سے شمال کی جانب نقل مکانی کو نمایاں کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ماحولیاتی اور اقتصادی میدانوں میں، کم از کم 2016 سے اب تک،کے تباہ کن امکانات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مختلف ممالک میں بورژوا طبقے کے بعض حصے باضابطہ جمہوریت سے دستبردار ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں نئیو لبرل ازم پر عمل درآمد کے لئے یہی بہتر ہے۔ بورژوازی کے بڑے اور اہم حصے،ایسے ممالک میں جہاں لبرل جمہوریتیں ہیں،وہاں آمرانہ متبادل کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دائیں بازو کی بنیاد پرست تحریکوں کو تقویت ملی اور مختلف ممالک میں دائیں بازو کی حکومتوں کا عروج ہوا ہے۔جن ممالک میں انتہائی دائیں بازو کا ابھار ہوا ہے یا ہو رہا ہے وہاں بورژوا طبقے کے اندر ایک دراڑ پڑی ہے (یہ دیکھنا ہو گا کہ یہ دراڑ کتنی بڑی ہے)۔ حکمران طبقے کا ایک حصہ انتہائی دائیں بازو کی طرف مائل ہو رہا ہے جبکہ دوسرا حصہ بورژوا جمہوری منصوبے پر قائم ہے۔ سرمایہ دارانہ دھڑوں کے درمیان اس تفریق کی سب سے نمایاں مثال امریکہ میں ٹرمپ ازم (جس نے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے) اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان اختلافات ہیں۔
انتہا کے فردیت پسند (hyper-individualist) نئیولبرل سماجی روابط کے اس دور میں دائیں بازو نے جس طرح سوشل میڈیا ا(ور اب ممکنہ طور پر اب مصنوعی ذہانت کا استعمال ہو گا) اس کے نتیجے میں غیر سیاسی ماحول، طبقاتی تقسیم اور قدامت پسندی کو فروغ ملے گا۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز درمیانے اور چھوٹے کسانوں کی ماتحتی اورصارفیت(subordination-clientalization) میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔کسان دنیا بھر کے لئے بنیادی خوراک پیدا کرنے والے ہیں۔ ان وجوہات کی بناء کسانوں کی تعداد میں زبردست کمی واقع ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب، نیو لبرل ازم،ریاست کے بچے کھچے فلاحی نظام پر حملہ آور ہے۔نئیو لبرلزم صنعت اور خدمات کے شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں،بالخصوص دیکھ بھال اور سماجی تولید(social reproduction) کے شعبوں میں کام کرنے والی خواتین،کا زبردست استحصال کرتا ہے۔ یوں خواتین، بالخصوص خواتین مزدوروں کواس دوہری الجھن میں ڈال دیتا ہے کہ مر مر کر جینا ہے یا مزاحمت کرنی ہے۔
نئیو لبرل ازم خواتین کو ترقی یافتہ ممالک میں رسمی افرادی قوت (فارمل لیبر) یا کم منظم شعبوں تک محدود رکھتا ہے۔جنوب کے ممالک میں نئیو لبرل ازم خوتین کو غیر رسمی (ان فارمل لیبر)شعبوں میں برقرار رکھتا ہے۔یوں ان فارمل شعبوں میں کام کرنے والی یا خدمات فراہم کرنے والی خواتین کی اجرت مزید کم ہو رہی ہے۔ساتھ ہی ساتھ نئیو لبل ازم کام کرنے والی خواتین پر مجموعی طور پر بچوں، بزرگوں، بیماروں،یا خاندان کے مختلف افراد کی دیکھ بھال کا بوجھ بھی ڈال دیتا ہے۔ یہ وہ کام ہیں جو پہلے فلاحی ریاستوں میں ریاست کی جانب سے کیے جاتے تھے، لیکن ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں ایسی سہولتیں بے رحمی سے کم کر دی گئی ہیں۔ سماجی تولید کے نیٹ ورکس بحران کی حالت میں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت یہ بحران نوآبادیاتی ممالک میں نسبتاً زیادہ گہرا ہے۔ اس پس منظر مین نئیو لبرل معاشرہ،دیکھ بھال کی ذمہ داریوں کو یا توگھریلو سطح پر منتقل کر رہا ہے (خاندان کے سپرد کر رہا ہے) یا اس محنت کونسل پرستانہ رنگ دے رہا ہے (غیر سفید فاموں، سیاہ فاموں، مقامی خواتین، مہاجرین کے سپرد کر رہا ہے)۔نئیو لبرل ازم یہ سب تو کر رہا ہے مگر مکمل طور پر سماجی تولید کی ذمہ داری اپنے سر نہیں لے رہا۔
مجموعی طور پر،اگرجغرافیائی واقتصادی نقطہ نظر سیدیکھا جائے تو واضح ہو گا: آج کا نیو لبرل سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا بین الریاستی نظام(inter-state system) ڈیجیٹل آلات اور الگوردمز (alogrithims)کو نئی پیداواری قوتوں کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سامنے آ رہے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ پیداوار کے سماجی تعلقات کی نئی شکلیں ابھر رہی ہیں۔ ایک شکل ہے اوبرائزیشن (uberization)۔ ان سماجی تعلقات میں مارکیٹ ثالث کا کردار ادا کرتی ہے۔ دریں اثناء، 21ویں صدی میں عالمی سرمایہ کے ارتکاز کا مرکز شمالی اٹلانٹک (یورپ-امریکہ) سے بحر الکاہل (امریکہ، خاص طور پر سلیکان ویلی، اور مشرقی و جنوب مشرقی ایشیا) کی طرف منتقل ہو گیاہے۔ صرف چین ہی فیصلہ کن نہیں بلکہ پورا خطہ، جاپان اور کوریا سے لے کر آسٹریلیا اور بھارت تک فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکا ہے۔