دنیا

کیمونسٹ پارٹی اور بھارتی مسلمان: ایک مخمصہ جو سی پی ایم حل کرنے میں ناکام

شادمان علی خان

طویل عرصہ سے بائیں بازو کی حکومت میں چلنے والی جنوب بھارتی ریاست کیرالہ میں مبینہ طور پر سونے کی سمگلنگ اور غیر قانونی و غیر منظم رقم کے لین دینے کے معاملات دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ(سی پی آئی ایم) سے تعلق رکھنے والے ریاست کے وزیراعلیٰ نے مسلم اکثریتی ضلع ملا پورم کو ان جرائم کے لیے اہم مرکز قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ جرائم اس ضلع میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا کہ یہ غیر قانونی رقم کیرالہ میں ’ملک دشمن‘ سرگرمیوں کے لیے لائی جاتی ہے۔

بھارت میں اکثر استعمال ہونے والا ’ملک دشمنی‘ کا لیبل اب مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رہا۔ وزیر اعلیٰ کا یہ اپنا تخلیق کردہ بھی نہیں ہے، بلکہ ہندو قوم پرست قوتوں کی لغت سے مستعار لیا گیا ہے۔ ہندتوا تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے اور شیطانی قوت ثابت کرنے کے لیے اس اصطلاح کو باقاعدہ ایک حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح مسلمانوں پر مادروطن کے ’غدار‘ کے طو رپر لیبل لگا کر زیادہ طاقتور معنی اختیار کر جاتی ہے۔

رد عمل آنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے اپنے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ اس تردید کے باوجود، پارٹی رہنماؤں کی جانب سے ہندو قوم پرستوں کی طرز پر مسلم مخالف بیان بازی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2010میں ایک اور سی پی آئی ایم رہنما، وی ایس اچوتھا نندن، نے ایک مسلم سیاسی گروپ پر الزام لگایا کہ وہ کیرالہ کو ’اسلامی بنانے‘ کے لیے شادی کو ایک ہتھیارکے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یہ دعویٰ’لوجہاد‘ بیانیے سے مشابہت رکھتا ہے، جو بہت سی اسلاموفوبک مہموں میں سے ایک ہے جوہندوتوا والے بھارتی مسلمانوں کو شیطانی طاقت ثابت کرنے کے لیے چلاتی ہیں۔ لو جہاد والے سازشی نظرئیے کے مطابق، مسلمان مرد ہندو خواتین کو شادی کا لالچ دیتے ہیں تاکہ وہ ان کا مذہب تبدیل کر سکیں اورملک میں مذہبی آبادی کا تناسب تبدیل کر سکیں۔

سی پی آئی ایم کی طرف سے اپنائے گئے ان موقفوں کو بہت سے سول سوسائٹی کارکن الگ تھلگ واقعات کے طور پر دیکھتے ہیں اور کچھ سیاسی تجزیہ کار انتخابی دباؤ کی وجہ سے جان بوجھ کر کیے گئے سمجھوتوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تاہم سی پی آئی ایم کا ’مسلم ایشو‘ کہیں بڑا ہے۔یہ پارٹی کے اندر ایک بڑے بحران کی علامت بھی ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے علیحدگی کے بعد1964میں قائم ہونے والی سی پی آئی ایم نہ صرف زندہ رہی، بلکہ اس کا حجم بھی بڑھتا گیا ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب یو ایس ایس آر(سوویت یونین) کی تحلیل کے بعد یورپ میں زیادہ تر کمیونسٹ پارٹیاں اپنا اثرورسوخ کھو رہی تھیں۔ پارلیمانی لحاظ سے پارٹی نے مغربی بنگال، کیرالہ اور تریپورہ میں بائیں بازو کے اتحاد کی بنیاد پر حکومت کی ہے۔ ان ریاستوں کی مجموعی آبادی تقریباً140ملین ہے۔ مغربی بنگال اور کیرالہ دونوں میں مسلمان آبادی کا 25فیصد سے زیادہ ہیں اور انتخابی نتائج میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

مغربی بنگال میں پارٹی نے34سال تک حکومت کی اور مسلمانوں میں اس کی ایک مضبوط بنیادتھی، لیکن اسے2009کے عام اور2011کے اسمبلی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد سی پی آئی ایم ریاست میں ایک کمزور جماعت کے طور پر رہ گئی ہے۔

مشہور مارکسی ماہر معاشیات بربھات پٹنائک مغربی بنگال میں پارٹی کے زوال پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے زوال کے پیچھے ایک اہم عنصر کی نشاندہی کی ہے۔ وہ اسے ’تجرب کاری‘(Empiricization)کہتے ہیں۔ اس سے انکا مطلب ہے کہ پارٹی کے اندر قلیل مدتی سیاسی عمل پر توجہ مرکوز کرنے کا رجحان ہے، جو سرمایہ داری سے بالاتر ہونے کے طویل مدتی مقصد سے الگ ہے۔ پٹنائک بتاتے ہیں کہ یہ تبدیلی پارٹی کے اندر جمود اور نوکر شاہی کا بھی سبب بنی ہے۔

مغربی بنگال میں مسلم فیکٹر اور بائیں بازو کا زوال

تاریخی طور پر 1978اور1980کے دوران زرعی اصلاحات کے اقدامات، خاص طور پر آپریشن بارگاکی وجہ سے سی پی آئی ایم بے زمین مسلم کسانوں میں بہت مضبوط ہوئی۔ا س آپریشن کا مقصد بارگاداروں (حصہ دارکسان یا مزارع کی ایک قسم) کو قانونی شناخت اور تحفظ فراہم کرنا تھا۔اس پروگرام نے زیادہ تر مسلم بارگاداروں کو بہت فائدہ پہنچایا اور ان کی سماجی اقتصادی حالت کو بہتر بنایا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پسماندہ مسلمانوں کے لیے نئے، جامع ترقیاتی منصوبوں کی عدم موجودگی میں زرعی اصلاحات کے ان اقدامات کے اخلاقی اثرات ختم ہونے لگے۔ پارٹی کا ’علامتی سرمایہ‘ بعد میں زمین پر بڑھتی ہوئی بیوروکریٹائزیشن کے ساتھ ختم ہونا شروع ہو گیا۔

اس کی ایک واضح مثال بھوک سے متاثرہ مسلم اکثریتی ضلع مرشد آباد میں دیکھی گئی، جہاں 2000کی دہائی کے وسط میں بھوک سے متعدد اموات ہوئیں۔ خطے کا بڑا دریا پدما اکثر شدید کٹاؤ کا سبب بنتا ہے اور زرخیز زمینوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس نے بلاشبہ اس صورتحال کو بھی بڑھاوا دیا۔تاہم ماحولیاتی انحطاط ہی اس سانحے کا واحد عنصر نہیں تھا۔ غربت، نقل مکانی، بے روزگاری اور سب سے بڑھ کر بحران سے نمٹنے کے لیے سی پی آئی ایم حکومت کی مجرمانہ بے حسی نے دیہاتیوں کو بھوک کے دہانے پر دھکیل دیا۔ یہاں تک کہ نوبت فاقہ کشی تک پہنچ گئی۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم ’معصوم‘ کی رپورٹوں میں سنگین حالات اور ریاستی حکومت کی بے حسی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ معصوم کے مطابق:

’دیارام پور گاؤں یا اس سے ملحقہ گاؤں میں ہر روز کوئی نہ کوئی بھوک سے مرتا ہے۔ انہوں نے اناپورنا یوجناکے بارے میں بھی نہیں سنا ہے، جو مرکزی حکومت کی ایک سکیم ہے، جس کا مقصد انہیں ضرورت کے وقت اناج دینا تھا۔ امیر شاہ نامی ایک معذور شخص نے شکایت کی کہ ان کا نام غربت کی لکیر سے نیچے کی فہرست میں بھی شامل نہیں کیا گیا، تاکہ وہ امداد کے لیے درخواست دے سکیں۔‘

ایسی مثالیں بھی ہیں کہ بچوں کو سکول چھوڑنے پر مجبور کیا گیا کیونکہ خالی پیٹ پڑھنا ناممکن ہو گیا تھا۔ بھوک سے زندہ رہنے کی جدوجہد میں ان میں سے بہت سے بچوں کو چائلڈ لیبر پر مجبور کیا گیا۔ ایسی بہت سی دل دہلا دینے والی کہانیوں میں ایک مایوس چھوٹے بچے کا پیٹ بھرنے کے لیے گندگی کھانے کا واقعہ بھی تھا، جو بعد میں بھوک سے مر گیا۔

تاہم ریاستی حکومت کی طرف سے مداخلت کے بار بار مطالبات کے باوجود ان درخواستوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ ریاست کے اس وقت کے دیہی ترقی کے وزیر سرجیہ کانتا مشرا نے بھوک سے ہونے والی اموات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جیسا کہ اخبار ’تہلکہ‘سے گفتگو میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ صحافیوں کی بنائی ہوئی کہانیاں ہیں۔ خطے میں بھوک سے کوئی موت نہیں ہوئی۔‘مشرا2015میں سی پی آئی ایم مغربی بنگال اسٹیٹ کمیٹی کے سیکرٹری بن گئے۔

چیریٹی الائنس کی ایک تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غربت کی لکیر سے نیچے (BPL) راشن کارڈز، جن کا مقصد غریبوں کو سبسڈی پر کھانا فراہم کرنا تھا، متاثرہ آبادی کی اکثریت کو جاری نہیں کیے گئے، جن میں سے اکثر بعد میں بھوک اور غذائی قلت سے مر گئے۔ اس کی بجائے یہ سرکاری مراعات غیر متناسب طور پر منتخب کیے گئے اور خاص طور پر خود سی پی آئی ایم کیڈروں کے لیے مختص کی گئیں۔

مزید برآں،صحافی ترون کانتی بوس کے مطابق اس سانحے کے درمیان سی پی آئی ایم کے کارکنوں نے نہ صرف گاؤں والوں کو دھمکیاں دیں کہ وہ شکایات نہ کریں،بلکہ جو بھی امدادی سامان آیا انہوں نے خود ہتھیا لیا۔ اس کے علاوہ پارٹی کارکنوں نے پارٹی فنڈز جمع کرنے کے نام پر ان بھوکے خاندانوں سے بھتہ خوری کی مہم شروع کی۔ اس کھلی ناانصافی اور غنڈہ گردی کو بڑے پیمانے پر چیلنج بھی نہیں کیا گیا، کیونکہ پارٹی کیڈروں کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خوف نے گاؤں والوں کو احتجاج کرنے سے بھی روک دیا۔ جن لوگو نے فاقہ کشی کے بحران کو اجاگر کرنے کی کوشش کی انہیں پولیس نے بھی نشانہ بنایا، جیسا کہ ایشیائی انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ میں بھی بتایا گیا۔

بیوروکریٹائزیشن کے اس سنگم اور مسلم اکثریتی علاقوں میں فلاحی پالیسیوں کی عدم موجودگی نے بحران کے اندر ایک اوربحران کو جنم دیا، جس میں ایک بحران دوسرے کو تقویت دے رہا تھا۔

2006 میں بھارتی مسلمانوں کے سماجی اور اقتصادی حالات کی ایک تفصیلی سٹڈی’سچار کمیٹی رپورٹ‘اس حقیقت کی مزید تصدیق کرتی ہے کہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کو بائیں بازو کی حکومت کی طرف سے دوسری کمیونٹیز کے مقابلے میں مساوی سماجی، سیاسی اور اقتصادی مدد نہیں ملی۔ کمیٹی نے کہا کہ ریاست میں مسلمانوں میں سکول کی تعلیم کے کم اوسط سال تھے،اور مسلم اکثریتی دیہی علاقوں میں طبی سہولیات سمیت بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔ سرکاری ملازمتوں اور کام میں شرکت کی شرح میں ان کی نمائندگی بھی ملک بھر میں سب سے کم تھی، جس کی وجہ سے ان کی صورتحال ملک میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ یہ سماجی اقتصادی محرومیاں مسلمانوں میں عدم تحفظ کی راہ ہموار کرتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ان مادی مسائل کو کمیونٹی کے لیے مخصوص سمجھتے ہیں۔ مارکسی مفکر اعزاز احمد نے فرقہ واریت پر اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ:

’اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ بھارتیوں کی اکثریت کو عالم گیر حق رائے دہی کے علاوہ شہریت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ زیادہ تر لوگ ہماری قوم پرستانہ گفتگو سے بہت کم متاثر ہونگے، جسے ہم خود ان کے حقیقی مذہبی عقیدے، جذباتی رشتوں اور سماجی تعلق کی برادریاں کہتے ہیں،سے زیادہ منسلک ہوں گے‘

اس تناظر میں مغربی بنگال میں پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی خستہ حالت نے ان میں ’حقیقی مصائب کے خلاف احتجاج‘ کے لیے طبقاتی شعور کی بجائے مذہبی شناخت کی طرف زیادہ منتقل کیا۔ مثال کے طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی کمی کو جزوی طور پر کمیونٹی نے اسلامی فرقہ وارانہ اداروں کے قیام کے ذریعے حل کیا، جنہیں مدارس کہا جاتا ہے۔ ریاست میں نجی مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد ابھرنا شروع ہوئی، جس کا انحصار پسماندہ مسلم آبادی پرتھا۔

کمیونٹی کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت کیے گئے ان اقدامات کو مغربی بنگال کے اس وقت کے سی پی آئی ایم کے وزیر اعلیٰ بدھا دیب بھٹا چارجی نے مذہبی انتہائی پسندی کے طور پر پیش کیا۔ انہو ں نے ان غیر رجسٹرڈ مدارس کو ’دہشت گردی کے اڈے‘ قرار دیا۔ ان مدارس کو احساس محرومی کے رد عمل کے طورپر سمجھنے کی بجائے ان کے بارے میں پارٹی قیادت کے تخفیف پسندانہ نظریے کو ’تجرب کاری‘ کی پیداوار کے طورپر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں سیاسی جمود نے نظریاتی جمود کو جنم دیا اور انقلابی عمل کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان مدارس کے خلاف ایک رجعتی اور مسلم مخالف موقف ابھر کر سامنے آیا۔

سی پی آئی ایم کی مسلمانوں سے بیگانگی اس کی صنعت کاری کے لیے نیو لبرل راستہ اختیار کرنے کی وجہ سے مزید بڑھی۔ پارٹی کی جانب سے انڈونیشیا کے سلیم گروپ کو ایک کیمیکل ہب بنانے کے لیے لیز پر دینے کے لیے کسانوں سے زمین حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، جس کا نتیجہ 2007کے نندی گرام تشدد کی صورت برآمد ہوا۔

اس ریاستی حمایت یافتہ کریک ڈاؤن کے دوران سی پی آئی ایم کے کیڈروں نے زمین پر قبضے کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کوبے دردی سے کچلا، جس کے نتیجے میں 14دیہاتی ہلاک اور 100سے زائد لاپتہ ہوگئے۔ اتفاق سے متاثرہ کسانوں کی اکثریت مسلمان تھی، جس کی وجہ سے پارٹی پر ان کا عدم اعتماد مزید بڑھ گیا۔

واقعات کا یہ سلسلہ ان بحرانوں کی مسلسل ری پروڈکشن کی نشاندہی کرتا ہے جو الگ تھلگ نظر آتی ہیں، لیکن درحقیقت سیاسی اور نظریاتی دونوں سطحوں پر پارٹی کے اندر ایک بڑی ساختی خرابی کی باہم منسلک علامات ہیں۔ مغربی بنگال میں بائیں بازو کازوال انہی تضادات کی علامت ہے۔ 2009کے عام انتخابات تک اس مجتمع شدہ بیگانگی کے نتیجے میں بائیں بازو کے لیے مسلم ووٹوں میں تقریباً10فیصد کی تبدیلی ہوئی، جس کے نتیجے میں ریاست میں اس کا انتخابی خاتمہ ہوا۔

کیرالہ کے لیے ایک کیس

کیرالہ میں بائیں بازو کی عالمی شہرت یافتہ حکومت کے باوجود کمیونسٹ سیاست مذہبی شناخت اور ذات پات کے کردار پر غلبہ حاصل نہیں کر پائی ہے۔

تجربہ کار سی پی آئی ایم لیڈر ای ایم ایس نمبودیریپاد نے ایک بار مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے اس کمی کا مشاہدہ کیا:

’پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ کیرالہ میں مذہبی اقلیتوں سے جڑے مسائل کو نہ سمجھنا ہماری ایک اہم ناکامی رہی ہے۔مغربی بنگال اور تریپورہ کے برعکس کیرالہ کی آبادی میں بڑی مسیحی اور مسلم اقلیتیں ہیں، جو ریاست کی آبادی کا 40فیصد سے زیادہ ہیں۔ مسلمان اور مسیحی مذہبی لیڈروں یعنی مسلم لیگ اور چرچ کے زیر اثر ہیں۔‘

1994میں ان کی تقریر کے بعد سے اب تک اس محاذ پر بہت کم پیش رفت ہو سکی، کیونکہ سی پی آئی ایم اپنے لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ(ایل ڈی ایف) کے تحت مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا پارٹی نے2024کے پارلیمانی انتخابات کے جائزے میں ایک بار پھر اعتراف بھی کیا۔ جائزے میں کہا گیا کہ مسلمانوں نے بائیں بازو کو نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے خلاف لڑائی میں ایک طاقت کے طور پر نہیں دیکھا۔

کیرالہ کے بائیں بازو اور مسلمانوں کے درمیان یہ فرق پارلیمانی انتخابات کے دوران ان کے انتخابی رویے سے بھی واضح ہوتا ہے، کیونکہ زیادہ تر مسلمانوں نے انڈین یونین مسلم لیگ(آئی یو ایم ایل) کی حمایت کی۔ اس پارٹی کے پاس مالابارمیں نمایاں انتخابی طاقت ہے، جو ایک بڑی مسلم آبادی والا خطہ ہے۔۔۔ اگرچہ آئی یو ایم ایل کا بھی سی پی آئی ایم کے ساتھ اتحاد تھا لیکن اس نے چار ددہائیاں قبل انڈین نیشنل کانگریس کی زیر قیادت یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ(یو ڈی ایف) میں شولیت اختیار کی تھی ا ور اس کے بعد سے یہ کانگریس کی کلیدی اتحادی رہی ہے۔

اسی دوران ہندو قوم پرست راشٹریہ سویم سیک سنگھ(آر ایس ایس) اور بی جے پی نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مسلم مخالف پروپیگنڈے کو بڑھاوا دیا، جس کا مقصد کیرالہ میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا ہے۔ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طو ر پر وہ کافی کامیاب رہے ہیں، جس کی ایک مثال مسیحی اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پچھلے عام انتخابات میں بائیں بازو کے روایتی ایزہاوا(ایک نام نہاد پسماندہ ہندو ذات کے نام پر قائم گروپ)نے بی جے پی کی حمایت کی۔ تاہم اس طرح کے قلیل مدتی سیاسی دھچکے پر قابو پانے کے لیے سی پی آئی ایم نے غیر مسلم کمیونٹیز کے درمیان اپنی پوزیشن کو متوازن کرنے کے لیے مسلم انتہا پسندی سے متعلق اکثر ’پاپولر ریزننگ‘کا سہارا لیا۔

اس مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کیرالہ میں مقیم صحافی ایاپن آر لکھتے ہیں کہ:

’سی پی آی ایم کے پاس بظاہرسیکولر مگر اندر سے فرقہ پرست ہندوؤں کا مذاق اڑانے کے لطیف طریقے تھے۔ سی پی آئی ایم نے ’انتہا پسند مسلمان‘ کو ایک ولن بنایا اور اسے سرعام کوڑے مارے۔ اس تماشے کا مقصد واضح طور پرایسے ’ہاف وے ہندو‘ کی تسلی کرانا تھا جو آر ایس ایس اور بی جے پی کا حصہ نظر نہیں آنا چاہتے تھے لیکن مسلمانوں کے بارے میں پراپیگنڈے سے متفق تھے۔‘

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلم سیاست سے مکمل طور پر غائب ہیں۔ تاہم وہ کمیونٹی کے اندر بڑی طاقت نہیں۔ ایک اہم عنصر آئی یو ایم ایل کی وسیع پیمانے پر موجودگی ہے۔ یہ ایک سیکولر،جمہوری مسلم جماعت ہے جو عام طورپر اقلیتوں کے لیے کام کرتی ہے اور اس کے اراکین غیر مسلم کمیونٹیز سے بھی ہیں۔ اعلیٰ اور متوسط طبقے کے مسلمانوں کی حمایت کے علاوہ پارٹی کو مسلم محنت کش طبقے سے بھی حمایت حاصل ہے۔اس نے یہ حمایت اپنی ٹریڈ یونین ’سواتنترتھوزیلی یونین‘ کے ذریعے حاصل کی ہے۔

سی پی آئی ایم نے حال ہی میں 2024کے عام انتخابات کے سلسلے میں آئی یو ایم ایل کو عدالت میں لانے کی کوششیں کی ہیں۔تاہم تباہ کن انتخابی نتائج اور آئی یو ایم ایل کو ایل ڈی ایف اتحاد میں لانے میں ناکامی کے بعد اس پارٹی نے آئی یو ایم ایل سے متعلق اچانک اپنی پوزیشن تبدیل کر لی، جو اسے ایک سیکولر تنظیم سمجھتی تھی۔ اس کے بعد اس نے آئی یو ایم ایل پر فرقہ پرست ہونے کا الزام عائد کیا اور دعویٰ کیا کہ اس کامسلم انتہاء پسندوں کے ساتھ خفیہ اتحاد ہے، جس کی وجہ سے ایل ڈی ایف کو شکست ہوئی۔

اپنی انتخابی ناکامی کے لیے مسلم انتہا پسندوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے پارٹی اقدام ایک بڑے بحران کی ایک اور علامت کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں وہ اپنی پالیسیوں پر ’بے رحم تنقید‘ کرنے کی بجائے اپنے زوال کے لیے بیرونی عوامل پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ پارٹی کا اپنی انتخابی سہولت کے مطابق ’مسلم سیاست‘ کو اس طریقے سے وضع کرنے کا رویہ صرف ایک اور بورژوا پارلیمانی حربہ ہی ہے، جہاں پہلے ہی بھارت میں مسلمانوں کو قر بانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔

کیرالہ کے معاشرے اور ریاستی مشینری کے اندر بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا بھی اس مضبوط سیکولر رجحان کے رجعت کا شکار ہونے اشارہ کرتا ہے، جو خود کمیونسٹوں اور دیگر سوشل ریفارمرز کی ناقابل مصالحت جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ حال ہی میں کرالہ پولیس نے ایک مسلمان آزاد صحافی کو کرکٹ میچ کے دوران فلسطینی کیفایہ پہننے پر حراست میں لیا تھا۔ ان کی رہائی کے بعد ان کی والدہ سے کیرالہ کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے پوچھ گچھ کی اور یہ دریافت کرنے کی کوشش کی کہ کیا ان کا بیٹا مذہبی تھا۔

یہ واقعہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح سول سوسائٹی اور ریاستی مشینری کے اندر مسلم مخالف تعصبات کا مقابلہ کرنے میں سی پی آئی ایم کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔

ہندتوا لغت سے مماثل ’اچھے بمقابلے برے مسلمان‘ کے بیانیہ کا مختلف مواقع پر تذویراتی استعمال کرنے کی وجہ سے پارٹی مسلم شناخت سے متعلق ہندتوا کے پروپیگنڈہ کو توڑنے میں ناکام رہتی ہے۔ یہ اقدام پارٹی کی شناخت کے سوال کو ایڈریس کرنے کے طریقہ کار پر نظر ثانی کرنے میں ہچکچاہٹ کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ نتیجہ ایک بند گلی کی صورت میں نکلتا ہے جہاں نظریاتی محدودیت سیاسی ناکامیوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

یہ علامات مغربی بنگال میں ٹوٹ پھوٹ سے قبل نمودار ہوئی تھیں اور اب کیرالہ میں بھی تیزی سے واضح ہو رہی ہیں، جو پارٹی کا آخری باقی ماندہ گڑھ ہے۔

بنیادی طور پر سی پی آئی ایم میں یہ ساختی بحران اس سماجی تبدیلی کے لیے تخیل کا بحران ہے، جو سی پی ایم لانا چاہتی ہے۔ انتخابی لحاظ سے متعلق رہنے کے لیے اکثریت اور اقلیت کے مابین توازن قائم کرنے کے چکر میں، پارٹی شناخت کے تنازعات میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اس طرح کی اپروچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ محنت کش طبقے کی سیاست کے ذریعے مذہبی تقسیم کو ختم کرنے کا دعویٰ تضاد کا شکار نظر آتا ہے۔

(بشکریہ: جیکوبن، ترجمہ: حارث قدیر)

Shadman Ali Khan
+ posts